روس ایک بار پھر پسپا ہورہا ہے


شفیق زمان وزیری

چوبیس فروری 2022 کو روس کی جانب سے یوکرین پر مسلط کی جانے والی جارحانہ جنگ جدید مغربی ہتھیاروں کی مدد سے اب تیزی سے دفاعی جنگ میں تبدیل ہو رہی ہے ۔ پیوٹن جو اس جنگ کو آخری گولی تک جاری رکھنے کی باتیں کر رہے تھے اب جنگ کو جلد ختم کرنے کی دہائی دے رہے ہیں ۔ پیوٹن کے نزدیک اس جنگ کا مقصد یوکرین کو غیر مسلح کرکے اپنی مرضی کا سیٹیلائٹ سٹیٹ بنانا تھا، ان کا خیال تھا کہ یوکرین کریمیا کی طرح تر لقمہ ہوگا جس سے نگل کر ہفتہ دس دن میں ہضم کر جائے گا مگر یوکرین تر لقمے کے بجائے گلے میں پھنسی ہڈی ثابت ہو رہا ہے۔

مغربی جدید ہتھیاروں اور اقتصادی پابندیوں سے روس کی فوجی مہمات کے ساتھ ساتھ اس کی معیشت کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے ، جیسے جیسے جنگ طول پکڑ رہی ھے پیوٹن کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مغرب نے روس کی فوجی طاقت کے جو اندازے لگائے تھے اس جنگ نے اس کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے اب شاید جنگ کا فیصلہ روس کے بجائے مغرب کی من مانی شرائط پر ہوگا ۔ یوکرین کا جو بیس فیصد حصہ روس کے زیر تسلط آگیا تھا یوکرین کی پے درپے فتوحات کے ساتھ وہ بھی روس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اب روس جارحانہ موڈ سے دفاعی پوزیشن پہ چلا گیا ہے۔ اگر حالت یہ رہی تو شاید روس کو ڈونباس اور لوہانسک کے ساتھ ساتھ کریمیا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روس اپنی پسپائی کو فوجی حکمت عملی سے تعبیر کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایزیوم اور کوپیانسک روسی افواج کے سپلائی کے اہم مراکز تھے ۔ صورتحال کی سنگینی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس نے اپنی ریزرو فورسز کے تین لاکھ جوان طلب کیے ہیں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ روس نے میدان جنگ میں زبردست فوجی نقصانات اٹھائے ہیں ۔

مزید یہ کہ صدر پیوٹن نے اردگان اور مودی کے ساتھ ملاقاتوں میں جنگ جلد ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ جنگ کن شرائط پر اختتام پذیر ہو گی یہ سب سے بڑا سوال ہے کیونکہ یوکرین کے صدر زیلنسکی روسی فوج کے مکمل انخلاء سے کم کسی شرط پر مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں ۔ یہ جنگ یوکرین ون مین زیلنسکی کے مضبوط عزم و حوصلے کے سہارے لڑ رہا ہے جبکہ روس کی اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وقت پر زیلنسکی کا بندوبست کرتا ۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری اس جنگ نے پوری دنیا کو مہنگائی اور کساد بازاری تحفے میں دی ہے۔ روس فی الحال بڑی بڑھکیں مار رہا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر ایک بات بڑی واضح ہے کہ یہ جنگ ہارنے کی صورت میں روس کو سوویت یونین کے انہدام سے بھی بڑا دھچکا لگے گا ۔

اس سے عالمی توازن اور کثیر القطبی دنیا کی امیدوں پر بھی پانی پھیر جائے گا اور (آپریشن ناقابل تصور) جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا روس کو اعتدال میں رکھنے کا دیرینہ خواب تھا اور جس کی تعبیر کی کوششوں نے نیٹو اور وارسا پیکٹ کی صورت میں سرد جنگ کو جنم دیا ۔ اس خفیہ ایٹمی جنگ (آپریشن ان تھِنک ایبل) میں ممکنہ ہلاکتوں کا تخمینہ لگ بھگ 450 ملین نفوس لگایا گیا تھا جس سے چرچل نے گھاٹے کا سودا قرار نہیں دیا تھا۔ روس کی شکست کی صورت میں شاید وہ خواب ایک گولی چلائے بغیر مفت میں شرمندہ تعبیر ہوں ۔

Comments are closed.