البرٹو موراویا

لیاقت علی ایڈوکیٹ

index
اردو ادب کے قارئین انگریزی ،روسی اور فرانسیسی زبانوں کی شاہکارادبی تخلیقات سے تو واقف ہیں کیونکہ ان زبانوں کے چیدہ چیدہ ادیبوں کے ناولوں اور کہانیوں کے اردو تراجم موجود ہیں لیکن اردو ادب کے ایسے قارئین کی تعداد بہت کم ہو گی جو بیسویں صدی کے اطالوی ادب کے عظیم ناول نگار،کہانی کار اورناقدالبرٹو موراویا کے نام اور اس کی ادبی تخلیقات سے واقفیت رکھتی ہو ۔

اردو قارئین کی البرٹو موراویا سے عدم واقفیت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صرف چند ایک کہانیاں ہی اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں لیکن جہاں تک دنیا کی دوسری زبانوں کا تعلق ہے تو موراویا کے کم وبیش تمام ناول ،ناولٹ ، افسانے ،سفرنامے اور تنقیدی مضامین کے متعدد مجموعے کم و بیش دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں اوراس کے متعدد ناولوں اورطویل کہانیوں کو ایک سے زائد مرتبہ فلمایا جاچکا ہے اور کئی ایک کی ڈرامائی تشکیل ہو چکی ہے ۔

البرٹو موراویا (موراویا کا قلمی نام اس نے اپنی دادی کے خاندانی نام سے لیا ) 28نومبر 1907کوروم کے ایک خوشحال یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ موراویا کا باپ کارلوآرکیٹیکٹ اور مصور تھا ۔ نو سالہ موراویا ابھی سکول کے ابتدئی درجے ہی میں تھا کہ اس کو ہڈیوں کی ٹی بی ہو گئی اور اس کی روایتی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ بیماری کے باعث اگلے کئی سال وہ بستر تک محدود ہوکر رہ گیا۔اپنی بیماری کے ابتدائی سال تو اس نے گھر پر زیر علاج رہ کر گذارے لیکن بعد ازاں اسے شمال مشرقی اٹلی میں واقع سینی ٹوریم میں منتقل کر دیا گیا۔

ٹی بی کو ا ن دنوں انتہائی خطرناک اور جان لیوا مرض سمجھا جاتاتھا اور اس بیماری میں مبتلا فرد کے زندہ بچنے کی امید کم ہی ہوتی تھی۔ ٹی بی کے عارضہ نے موراویا کو جسمانی طور پر تواذیت اور تکلیف میں مبتلا رکھا لیکن بیماری کے ان طویل سالوں نے اس کی ذہنی ترقی اور نشوونما میں بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا اورطویل علالت کے دوران اس کو شخصی، سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر حاصل ہونے والے متنوع تجربات نے اس کے ذہن پر جو گہرے نقوش مرتب کئے انھوں نے اس کی آئندہ تحریروں کے لئے خمیر کاکا م کیا ۔

بچپن ہی سے ذہین و فطین موراویا نے اپنی بیماری کے ماہ و سال مطالعے کے لئے وقف کر دیئے تھے ۔ اس کے پسندیدہ ادیبوں میں شیکسپیر، روسی ادب کا سرخیل دوستوسکی ،والٹیر، مینزونی ، دیدریو ،بالزاک، موپساں، بودلیئر،جیمز جوایس ،آریسٹو،گولڈونی اورمولیر کے علاوہ یورپ کے دیگر کلاسیکی ادیب شامل تھے ۔اس نے بیماری ہی کے دوران جرمن اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں اور ان زبانوں میں شاعری بھی کی ۔

1925میں سینی ٹوریم سے فارغ ہوکر وہ برکسٹن چلا گیا جہاں اس نے پہلا ناول’’ ٹائم آف ان ڈفرنس‘‘لکھنا شروع کیا ۔اس وقت تک اٹلی کے ادبی حلقوں میں موراویا کی بطور ناول نگار شناخت موجود نہ تھی اس لئے اپناپہلا ناول چھاپنے کے لئے اسے کوئی پبلشر نہ ملا۔ لہذا اس نے 1929میں اپنا یہ پہلا ناول اپنے خرچے پر چھپوایا ۔ اٹلی کے ادبی حلقوں میں 21 سالہ موراویا کے اس ناول کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور اسے ہم عصر اطالوی ادب میں ایک اہم اضافہ اوریورپ کا پہلا وجودی ناول قرار دیا گیا ۔

اس ناول میں روم کے ایک ایسے کنبے کی تین دنوں پر محیط زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ہے تو غربت کی سرحد پر لیکن محض دکھاوے کے لئے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا ہے ۔اپنے اس ناول میں موراویا نے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی ماں اور اس کے دو بچوں کے اخلاقی انحطاط کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔

اسی دوران موراویا نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا اوراپنے دودوستوں کے اشتراک سے ادبی رسالہ 900جاری کیا ۔ اسی رسالہ میں موراویا کی ابتدائی کہانیاں اور ناولٹ چھپے۔1933میں اس نے’’ کیریکٹرز ‘‘کے نام سے ایک ادبی رسالی جاری کیا جو ادیبوں اور ان کی تحریروں پر تبصروں اور ریویوز کے لئے مختص تھا ۔

دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے کے چند سال موراویا کے لئے بہت زیادہ مشکلات اور مسائل سے بھرپور تھے ۔ مارکس اورفرائڈ کے نظریات سے متاثر موراویا غیر انسانی اقدار کے حامل سرمایہ دارانہ معاشرے کو اپنی تحریروں کے ذریعے شدید تنقید کا نشانہ بنا رہاتھااور یہ بات اٹلی کی فاشسٹ حکومت کے لئے قابل قبول نہیں تھی ۔چنانچہ اس نے نہ صرف اس کے ناولوں پر پابندیاں عائد کیں اور انھیں ضبط کیا بلکہ ان پر تبصریتک لکھنا بھی جرم قرار دے دیا گیا۔

اطالوی حکومت کے ساتھ ساتھ ویٹی کن نے بھی موراویا کے ناولوں اور کہانیوں کے مجموعوں کو ’’ممنوعہ ‘‘ کتابوں کی فہرست میں شامل کررکھا تھا۔ 1935 میں اس کا ناول’’ویل آف فارچون‘‘ چھپا تو اس کو اخبار کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے ۔

اٹلی کی دگر گوں سیاسی صورت حال کے پیش نظر 1935میں موراویا ایک اخبار کے نمائندے کے طور پر بیرون ملک چلا گیا ۔بیرون ملک قیام کے دوران اسے امریکہ پولینڈ،میکسیکواور یوروپ کے بہت سے ممالک میں جانے کے مواقع ملے ۔ امریکہ میں اس نے اطالوی ادب کے بارے میں مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں لیکچر دیئے ۔ 1937میں اٹلی واپس آکر موراویا نے ناولوں کی ایک سیریز لکھی جس میں اس کا مشہور ناولٹ’’ دی چیٹ ‘‘بھی شامل تھا ۔ اس کے یہ ناولٹ اسی سال چھپ گئے۔
فاشسٹ اطالوی حکام کی تادیبی کاروایؤں سے بچنے کی خاطر اس دور میں موراویانے استعاراتی زبان و بیان کا سہارا لیا لیکن اپنی تحریروں کی مخصوص ہیئت اور مواد کی انفرادیت کی وجہ سے وہ سنسر شپ سے نہ بچ سکا اور اس کے ناول کو ضبط کر لیا گیا۔

آئے روز کی پابندیوں نے موراویا کو مجبور کر دیا کہ آیندہ وہ فرضی نام سے اپنے ناول اور کہانیا ں لکھے ۔ اس کاشاہکار ناول ’’ دی ڈریم آف لیزی‘‘ اسی دور میں لکھاگیا تھا۔ موراویا نے اپنی ہم عصر ادیبہ السا مورانٹے جسے وہ 1936میں ملا تھا سے اسی سال شادی کر لی اور وہ دونوں طویل عرصہ تک کیپری میں قیام پذیر رہے۔ کیپر ی میں اپنے قیام کے دوران موراویا نے اپنا ناول’’ ٹو ایڈولیسنٹ‘‘ لکھا جس پر اطالوی حکومت نے پابندی عائد کردی ۔

مئی1944جب روم کو اتحادی فوجوں نے آزاد کر الیا تو موراویا واپس لوٹ آیا ۔ روم واپسی پر اس نے اٹلی کے معروف اخبارات اور رسائل میں مضامین اور کہانیا ں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد موراویا کی ادبی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔سنہ1947میں’’دی وومن آف روم‘‘ ، 1948میں’’ ڈس اوبیڈنس‘‘ 1952میں پہلی مرتبہ اس کے ناول پر فلم بنی ۔ 1954اور بعد ازاں 1955میں بھی اس کے ناولوں پر فلمیں بنائی گئیں ۔

موراویا کے ناول ’’ دو عورتیں (ٹو وومن) ‘‘پر 1961میں جو فلم بنی اس پر معروف اداکارہ صوفیہ لارین کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا۔ 1960 میں موراویا نے اپنا مشہور ناول’’ دی ایمپٹی کنیوس‘‘ لکھا ۔ اس ناول کی کہانی روم کے ایک امیر نوجوان مصور اورایک آسائش پسند لڑکی کے مابین مشکلات کا شکار جنسی تعلق کے گرد گھومتی ہے ۔ اس ناول کو متعدد ادبی انعامات ملے اور اس ناول پر 1962 اور پھر 1998میں فلمیں بھی بنیں۔

سنہ 1950کی دہائی میں موراویا نے بہت سی اہم ادبی کتابوں کے دیباچے لکھے جن میں ہم عصر ادیبوں کی تحریروں کے فنی محاسن کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تھا ۔1957میں اس نے ہفت روزہ ’’ایکسپریس ‘‘میں فلموں پر تبصرے لکھنا شروع کیے جو 1975 میں’’ سنیما ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں چھپے۔

سنہ1962میں موراویا نے السا مورانٹے سے علیحدگی اختیار کر لی اور نوجوان ادیبہ ڈیشیا میرانی کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔اب اس کی توجہ کا مرکز تھیٹر بن چکا تھا اور وہ ا پنا زیادہ تر وقت تھیٹر کے لئے لکھنے میں صرف کر تا تھا۔ 1966 میں اس نے اپنی بیوی کے اشتراک سے ایک تھیٹر کمپنی بنائی جو موراویا، اس کی بیوی اور اٹلی و یورپ کے ڈرامہ نگاروں کے لکھے ڈرامے پروڈیوس کرتی تھی۔

سنہ 1958 اور1970 کے درمیانی سالوں میں موراویا نے دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت کی اور ان ممالک کے عوام، سماج اور وہاں موجود سیاسی ومعاشرتی نظاموں کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تاثرات لکھے ۔ چین کے دورے کے دوران اس نے جو کچھ دیکھا اس کو اس نے1986 میں چھپنے والے اپنے سفرنامے’’ دی ریڈ بک اینڈ دی گریٹ وال‘‘ میں بیان کیا۔1971میں اس نے اپناناول’’ ہم اینڈ می‘‘ اور کتاب’’ شاعر ی اور ناول ‘‘شائع کی۔

سنہ 1972میں وہ افریقہ گیا اوراس دورے کے تاثرات اورمشاہدات پر مبنی کتاب ’’ آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ ‘‘ لکھی جو اسی سال چھپ گئی ۔1982 میں دورہ جاپان کے دوران وہ ہیروشیمابھی گیا ۔ ہیروشیما پر امریکہ کی طرف سے ایٹم بم گرانے سے جو تباہی و بر بادی ہوئی تھی اس سے موراویا اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ایٹم بم اور اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں ہفت روزہ ’’ایکسپریس ‘‘میں مضامین کی سیریز لکھی بلکہ اس موضوع پر 1985میں ناول’’ دی مین ہو لکس‘‘ اور طویل مضمون ’’ نیو کلئیر ونٹر‘‘ لکھا۔

نظریاتی اور سیاسی تشکیک پسندی کے باوجودموراویا نے سیاست میں حصہ لیا ۔1984میں وہ اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی طر ف سے یورپی پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوااور چار سال تک یورپی پارلیمنٹ کا رکن رہا ۔ یورپی پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر اپنے تجربات کو اس نے ’’ یورپ کی ڈائر ی ‘‘ میں بیان کیا ہے۔1986میں موراویا نے ایک دفعہ پھر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے سے عمر میں 45سال چھوٹی کارمن لاراسے شادی کرلی۔

موراویا کی فکشن کے موضوعات وجودیت، اخلاقی انحطاط،سماجی بے گانگی ،جنسی اختلاط ،ہم عصر سماج میں موجود منافقانہ رویے اور شادی اور محبت جیسے روایتی تعلقات کے ذریعے خوشی کے حصول میں ناکامی ہیں۔ابتدائی طور پر موراویا کے کردار فاشسٹ نظریات کے زیر اثر تشکیل پانے والے سماج کے باسی تھے لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد اس نے جو ناول اور کہانیاں لکھیں ان میں اس نے جدید سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر پیدا ہونے والے درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے سماجی ، سیاسی اور روحانی تضادات کو اپنی فکشن کا موضوع بنایا ۔

موراویا کے کردار اپنے ارد گرد کے سماج اور زندگی کے مختلف پہلووں میں گہری دل چسپی لیتے ہیں لیکن تمام تر آگاہی کے باوجود وہ سماج کی تبدیلی کے لئے کسی عملی جدوجہد کا حصہ بننا نہیں چاہتے ۔موراویا کے ہاں سیکس کا بیان خود لذتی نہیں بلکہ گہری مایوسی اور تنہائی کا استعارہ ہے ۔ موراویا عورت کو مرد کی نسبت اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے بہر ہ ور خیال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی فکشن میں عورت ایک ایسے کردار کے طو ر پر ابھر کر سامنے آتی ہے جوہر قسم کی صورت حال کا پامردی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے ۔

اوائل ستمبر 1990میں موراویا کی خود نوشت منظر عام پر آئی اور29 ستمبر 1990کو وہ 83 کی عمر میں اپنے اپارٹمنٹ کے باتھ روم میں مردہ پایا گیا ۔

اس کی مشہور کتابوں میں
The Lie
،Roman Tales،The Wayward Wife and other Stories،More Roman Tales، Conjugal Love،Command and I will obey،Man as an End اور The Fancy Dress Party
شامل ہیں**

Comments are closed.