فرحت قاضی
ہمارے ہاں عام تصور یہ ہے کہ صرف انسان ہی سوجھ بوجھ رکھتا اور علم و عقل سے بہرور ہوتا ہے اور انسانی بچہ ہی چیزوں کی شدبد رکھتا ہے جبکہ جانوروں میں صرف محبت ، نفرت اور خوف کے جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں اور اس کا ہمیں اس طرح پتہ چلتا ہے کہ جب کسی جانور کو پیار سے بلایا جاتا ہے تو وہ دم ہلاتا ہوا قریب آجاتا ہے اور دھتکار نے پر دورچلاجاتا ہے مگر مشاہدہ میں یہ بھی آتا ہے کہ پالتو جانوروں میں جنگلی جانوروں کی نسبت سمجھنے کی اہلیت اور صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے۔
جبکہ انسان نے کتے سمیت بعض جانوروں کو اتنا کچھ سدھا اور سکھا دیا ہے کہ ان سے جاسوسی کا کام بھی لیا جارہا ہے اس حوالے سے السیشن کتے اور ڈولفن کی مثال پیش کی جاسکتی ہے چنانچہ یہ دیکھ کر ہم کہ سکتے ہیں کہ عقل، سمجھ اور شعور کو انسان تک محدود کرنے کی سوچ درست نہیں ہے ۔
ہمارے ارد گرد ہر ذی روح میں سوجھ بوجھ کا پتہ چلتا ہے فی زمانہ ماہرین نے اس سوچ اورتصور کو اپنی تحریروں، تقریروں ، منطق اور تجربات سے بھی ثابت کیا ہے یہاں جو چیز قابل توجہ ہے وہ مواقع ہیں جو جانور انسان کے قریبی رشتے دار ہیں یا صدیوں سے ہمسایہ ہیں وہ انسانوں کے اشاروں اور زبان کو بھی سمجھتے ہیں اور زبان سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں جبکہ سرکس کے بندروں، شیروں ، ہاتھیوں،ریچھوں اور کتوں کی سوجھ بوجھ تو ان لکھاریوں کے اس دعویٰ کو بھی جھٹلاتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ عقل قدرت کی دین اور تقسیم ہے۔
عقل، فکر اور سوجھ بوجھ ایک خاص طبقہ کی میراث یا یہ عطیہ خداوندی ہے جیسے تصورات کی تردید انسانوں میں سوجھ بوجھ کے درجات سے بھی ہوتی ہے ازمنہ قدیم سے عورت ذات کے حوالے سے یہ مشہور کیا گیا تھا کہ وہ صنف نازک اور عقل سے عاری ہے۔
اسی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر مرد اور عور ت کے کاموں اور خدمات کی درجہ بندی بھی کی گئی تھی اس کوعذر بناکر عورت کو گھر کی چاردیواری تک محدود رکھا گیا اور مرد کے گھر سے نہ نکلنے یا کم کم ہی باہر قدم رکھنے کو زن مریدی اور کیا کیا نام دئیے گئے اسی طرح اقوام کو بھی عاقل اور بے وقوف کے خانوں میں رکھا گیا تھا مگر جدید حالات نے ان نظریات کو باطل قرار دے دیا ہے عورت کو تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کئے گئے تو اس نے اپنے آپ کو منوالیا اور اب ہر شعبہ حیات میں وہ مرد کے شانہ بشانہ خدمات انجام دے رہی ہے۔
چنانچہ ہم یہ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ عقل اورسوجھ بوجھ کا تعلق مخصوص حالات اور مواقع سے ہوتاہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کی بھرپور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے حالات اور مواقع پیدا کئے جائیں ادبیات عالم کے طالب علم کو پتہ ہوتا ہے کہ جن افراد نے ادب و تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے یہ وہ افراد تھے جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے کام کو جاری رکھا اور اب وہ ہمارے لئے قابل احترام شخصیات ہیں۔
اسی طرح انسانوں میں عقل کے درجات بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ علم کو کسی کی میراث ، جاگیر یا وراثت اور عطیہ خداوندی بتانا عوام کے ذہنوں میں اہل دانش اور علماء کاغیر مرئی قوتوں کی اعانت کاتصور پیدا کرنا اور ان کی دھاک بٹھاکر ان کی علوم وفنون پر اجارہ داری کوتسلیم کرکے سرجھکانا اور عوام کو ان سے دور رکھنے کی ایک چال ہے۔
انسان ہر شعبہ حیات میں ترقی کررہا ہے وہ طب ، معاشیات، سیاسیات، اخلاقیات او ر سماجیات کے ساتھ ساتھ پرانی کہاوتوں، ضرب الامثال کی تشریح و توضیح بھی نئے انداز فکر اور وسیع سوچ کے ساتھ کررہا ہے اس سے انسانی عقل، شعور اور جستجو کی نئی راہیں ہموار ہورہی ہیں اس عمل نے انسانی کاوشوں اور حیوانی جبلتوں پر تحقیق میں کئی سربستہ رازوں پر سے پردہ ہٹادیا ہے اور اسے ہم تحقیق کی ایک نئی جہت کا نام دے سکتے ہیں
جس وقت ہم کسی انسان کو عقل مندیابے وقوف کے زمرے میں لاتے ہیں تو اس لمحہ ہمارے سامنے اس کے آس پاس کا ماحول ہوتا ہے یا پھرہم اس کا دیگر انسانوں سے موازنہ کررہے ہوتے ہیں ویسے تو ہر ذی روح میں عقل ہوتی ہے البتہ موازنہ کے وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض افراد میں دیگر انسانوں سے زیادہ یا پھرکم ہوتی ہے چنانچہ جن میں کم ہوتی ہے تو ان کو بیوقوف کہا جاتا ہے اور جن میں زیادہ ہوتی ہے توان کو عاقل تسلیم کیا جاتا ہے ۔
ایک بچہ بڑا ہونے پر بھی بچوں جیسی حرکتیں کرتا ہے تو اسے ناسمجھ کہا جاتا ہے لیکن اگر ایک بچہ بزرگوں کی طرح ناپ تول کرباتیں کرتا اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے تو پھر اسے سیانا اور عقل مند کہا جاتا ہے اور یہ مخصوص تعلیم و تربیت سے زیادہ اور گھٹایا جاسکتا ہے۔
بہر کیف،وقوف عقل، سمجھ اور شعور کو کہتے ہیں اس کے ساتھ۔بے ۔ لگادینے سے یہ بے وقوف بن جاتا ہے جو ان صفات کی غیرموجودگی کو ظاہر کرتا ہے جس وقت لوگ عقل یاشعور پر بحث کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں ان ناموراورعظیم شخصیتوں کے نام آجاتے ہیں جنہوں نے سائنس، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ یا کسی دوسرے شعبہ میں کوئی قابل ذکرکارنامہ انجام دیا ہوتا ہے۔
اسی طرح لفظ بے وقوف یا احمق سے ہمارے ذہن کے پردوں پر شیخ چلی ،لال بجھکڑ، تیس مار خان اورمرزا جٹ کی تصویریں آجاتی ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شخص کی معاملہ فہمی پر اسے افلاطون تو کسی کی بے سروپا حرکتوں پر اسے شیخ چلی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔