ڈاکٹر پرویز پروازی
جناب الطاف گوہر کا نام نامی ہمارے ملک کی نوکر شاہی کا بڑا نمایاں نام ہے اس لئے ان کی سر گزشت کا ذکر آتے ہی ان کے کارہائے نمایاں آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں اور قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ اتنے اہم عہد میں اتنے اہم عہدوں پر اور لوگوں کے ساتھ رہنے والے شخص نے ہماری تاریخ کے کیسے کیسے راز ہائے سربستہ وا کئے ہوں گے مگر اے وائے بدنصیبی کہ ان کی مختصر سر گزشت ان کے انتقال کے بعد چھپی ہے تو اس نے پڑھنے والوں کو بے انتہا مایوس کیا ہے۔
گوہر گزشت محض ایک داستان ناسفتہ ہے۔ غیر مربوط غیر مسلسل غیر مکمل اور تشنہ ہے۔ کہنے والے نے نہ صرف کچھ کہہ کر نہیں دیا بلکہ بہت سی باتوں کو اور زیادہ پر اسرار بنا دیا ہے۔ ہر شخص کے سینہ میں دفن شدہ تاریخ ایک امانت ہوتی ہے جس کے حقدار اگلی نسل کے لوگ ہوتے ہیں مگر الطاف گوہر نے اس امانت کی امانت داری کا فرض ادا نہیں کیا۔
اگر میں ان کی شخصی دیانت سے ذاتی طور پر آگاہ نہ ہوتا تو میں کہتا الطاف گوہر نے نہ صرف اپنی ذات کے ساتھ نا انصافی کی ہے بلکہ قوم کو بھی اپنی امانتِ محرمانہ سے محروم رکھا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ گوہر گزشت میں’’مجھ پر جو کچھ گزری ہے اس کا تذکرہ بھی ہو گا اور جن بزرگوں‘ سیاست دانوں‘ حکمرانوں سے ذاتی تعلقات رہے ان کے خاکے بھی ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ گوہر گزشت پاکستان کی سیاست کی ایک تصویر ہو گی جس کے خدوخال اور رنگ میرے مشاہدات اور تجربات کے آئینہ دار ہوں گے‘‘ (صفحہ ۸) مگر ان کی عدالت آڑے آگئی اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہ مل سکا۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کی تشنگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی عمر اور صحت نے وفانہ کی مگر جتنا کچھ انہوں نے لکھ دیا ہے وہ برنارڈشا ء کے قول کے مطابق اس گھونٹ کی طرح ہے جو پانی کے ذائقہ کی نشان دہی کردیتا ہے۔ گوہر گزشت کا مزاج شفاف اور میٹھے پانی کا مزاج نہیں۔
گوہر گزشت ‘ کا بیشتر حصہ صدر ایوب کے بارہ میں صفائیاں پیش کرنے پر مشتمل ہے۔(صفحات ۱۳۰ تا ۱۵۳) مگر یہ کام تو وہ اپنی کتاب صدر ایوب کے دس سال لکھ کر پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس وقت بھی اس کتاب کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اگر الطاف گوہر کامقصد اپنی بریت کرنا ہے تو وہ اس میں ناکام رہے ہیں اور اگر صدر ایوب کی صفائی پیش کرنا ہے تو وہ ان کے اچھے برے کاموں میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ اس لئے وہ ان کے عواقب سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ہیں۔
گوہر گزشت میں بھی الطاف گوہر نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے دوسروں کے بارہ میں بے رحم سچائی سے کام لیا ہے اگر وہ اپنے باب میں بھی ایسی ہی سچائی لکھ دیتے تو ان کا قد کہیں زیادہ بڑھ جاتا۔ گوہر صاحب نے یہ تو لکھ دیا کہ انہوں نے’’دعائے قنوت نہ سنانے پر مشرقی پاکستان کے ایک صنعت کار کی مکوں اور تھپڑوں سے تواضع کر دی‘‘ اور اپنی حیثیت کو بھول گئے(صفحہ ۱۱۶) مگر جب جرات سے حق بات کہنے کا موقعہ آیا تو وہ کنی کترا گئے حالانکہ ساری قوم کو نہ صرف دعائے قنوت یاد ہے بلکہ اس کا کب سے ورد بھی کر رہی ہے۔
منظور قادر کے ذکر میں الطاف گوہر نے ان کا ایک مقولہ درج کیا ہے کہ ’’کسی کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اطمینان کر لیجئے کہ آپ کے پاؤں ہوا میں تو نہیں لہرانے لگیں گے‘‘ (صفحہ۱۴) گوہر گزشت میں الطاف گوہر کے ہاتھ بہت لوگوں کے گریبان پر ہیں مگر خود ان کے پاؤں ہوا میں معلق ہیں۔
مثلاً الطاف گوہر نے منظور قادر صاحب کے خدا کے وجود کے باب میں شکوک و شبہات کا بیان کیا ہے حالانکہ جس محل پر یہ ذکر کیا گیا ہے وہاں اس بات کا کوئی محل نہیں تھا۔ خدا اور بندے کے تعلقات کا معاملہ بندے اور خدا کے مابین ہوتا ہے۔ اسی طرح جسٹس منیر کے ذہن میں خدا کے وجود کے بارہ میں جو شکوک تھے ان کا ذکر بھی نہایت بے محل طور پر ہوا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب الطاف گوہر اپنی تشکیک کا بار دوسروں پر ڈال کر خود اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
منظور قادر اور جسٹس منیر کے علاوہ اس کتاب میں بھٹو صاحب کا ذکر بھی ہے۔ بھٹو گوہر ’’دشمنی‘‘ تو ایک راز سر بستہ نہیں ’’راز سر راہ‘‘ ہے اس لئے ان کی رائے یک طرفہ اور غیر جانبدار تو نہیں ہوسکتی البتہ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی کینہ توزی کے ایسے ثبوت مہیا کئے ہیں جو ان کے سوا کسی اور کے علم میں نہیں تھے۔ مثلاً انہیں وزارت تجارت میں چارج تاخیر سے ملا۔
جب ان کا ٹاکرا‘ وزیر تجارت یعنی بھٹو صاحب سے ہوا تو انہوں نے انہیں جتا دیاکہ تاخیر اس لئے ہوئی کہ انہوں نے کئی برس پہلے بہ حیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھٹو صاحب کو الائسنس نہ دے کر بھٹو خاندان کی توہین کی تھی (صفحہ۵۱) اور پھر ہنس کر کہنے لگے’’میں نے تمہیں معاف کیا آج سے ہماری تمہاری دوستی ہوئی‘‘۔ مگر دوستی تو بھٹو صاحب اپنے ساتھ نہیں کرتے تھے الطاف گوہر سے ساتھ کیا کرتے؟ اور معاف کرنا تو ان لوگوں کی سرشت میں ہوتا ہے جو والعافین عن الناس کا مطلب جانتے ہوں۔
’’بھٹو صاحب سے دوستی کی پہلی شرط یہ تھی کہ آپ ان کی ہر سازش میں شامل ہو جائیں دیدہ دانستہ طور پر یا بے خبری کے عالم میں‘‘ چنانچہ الطاف گوہر ان کے دوست بن گئے اور بیگم بھٹو صاحب کی ’غیر پسندیدہ غیر عائلی سرگرمیوں سے’’ بے خبر‘‘ رکھنے میں ان کے شریک ہو گئے ۔ این کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند؟
اپنے کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہونے کا ذکر اس لئے بھی انہیں مرغوب ہے کہ ’’یہ عہدہ بڑے رعب کا عہدہ تھا‘‘ اس سے پہلے شہر پر ابو طالب نقوی، ہاشم رضا اورکاظم رضاکاراج تھا۔ ابو طالب نقوی چیف کمشنر تھے اور درخواست گزار ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑے رہتے تھے ۔ان کی بیگم صاحبہ کے حضور جو سائل خواتین پیش ہوتیں وہ سر پر جوتے رکھے رہتی تھیں‘‘(صفحہ ۵۱)۔ الطاف گوہر نے عوامی انداز اختیار کیا اور امراء اور سیاست دان یہ سمجھ کر انہیں انگیز کرتے رہے کہ ’’پنجابی افسر ہے اور اہل زبان کے کلچر سے ناآشنا ہے‘‘۔
یہ بات بڑی سخن گسترانہ بات ہے۔ حمید نسیم نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ بہ طور سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر ’’ایک فوجی گورنر سے اس رعب داب سے بات کر رہے تھے گویا ان کا مخاطب گویا فوجی گورنر نہیں کوئی چپراسی ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے الطاف گوہر بہت جلد اہل زبان کے کلچر سے کچھ زیادہ ہی آشنا ہو گئے تھے۔ جو شخص گورنروں سے یوں تخاطب کا اہل ہے وہ عوام الناس سے بھلا کس کس طرح پیش نہ آتا ہو گا۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ استاد قمرجلالوی کا جو شعر الطاف گوہر نے ابوطالب نقوی صاحب کی مداح میں کہا گیا بیان کیا ہے کہ ’’خدا نے ڈپٹی کمشنر بنا دیا تم کو‘‘ ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ لکھنے والے اور اہداف مدح کا معاملہ اب اللہ کے ساتھ ہے۔ شاعر کا بھی ممدوحین کا بھی۔
ایوب خان کے بارہ میں الطاف گوہر نے صفائیاں ہی پیش نہیں کیں ان کے بارہ میں ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں جو کسی اور نے نہیں لکھیں۔ مثلا یہ کہ ایوب، جنرل ریس کی باؤنڈری فورس میں تھے جس کے فرائض میں شامل تھا کہ یہ فورس قتل و غارت کو روکے مگر ایوب پر الزام تھا کہ وہ ’’مہاراجہ پٹیالہ کی کسی محبوبہ پر ایسے عاشق ہوئے کہ اپنے فوجی فرائض بھول گئے‘‘ (صفحہ۴۱)اور’’ایوب کو ڈھاکہ میں (اسی الزام کی) سزا کے طور پر متعین کیا گیاتھا‘‘اور پھر یہ بھی کہ’’ ایوب خان انہی دنوں سگریٹ بہت پیتے تھے ان کا بیٹ مین صبح سویرے چائے کے ساتھ سگرٹوں کا ایک ڈبہ بھی پیش کیا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے چائے کی پیالی تو حاضر کر دی مگر یہ خبر بھی دی کہ ’’آج سگریٹ نہیں ملا‘‘ ایوب خان بہت برہم ہوئے اور انہوں نے بیٹ مین کو دو چار گالیاں دے دیں۔ بیٹ مین ایک خودار پٹھان تھا اور عمر میں ایوب خان سے بہت بڑا تھا اس نے کہا’’جناب آپ میرے افسر ہیں مگر میں آپ کو بدکلامی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ آپ پوری ڈویژن کو کمانڈ کر رہے ہیں اور آپ میں اتنا بھی صبر نہیں کہ آپ ایک دن سگریٹ نہ پینے کا دکھ برداشت کر سکیں‘‘ ایوب خان پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس دن سے انہوں نے سگریٹ پینا بند کر دیا‘‘۔ (صفحہ۴۱)۔
اور اب علمائے کرام کے باب میں ان کے ارشادات کی ایک جھلک۔ ’’منیر صاحب کی شہرت منیر کمیٹی رپورٹ سے بھی ہوئی۔ ہر چند علمائے کرام اس رپورٹ کو ناقابل قبول سمجھتے تھے۔ کمیٹی میں جسٹس کیانی ،منیر صاحب کے ساتھ تھے اور دونوں نے ان تمام علما کو بطورگواہ طلب کیا ،اسلامی معاملات میں جن کی رائے حرف آخر سمجھی جاتی۔ کمیٹی نے علما سے پوچھاکہ مسلمان کی تعریف کیا ہے ہر عالم نے مسلمان کی تعریف پیش کی جو دوسرے علماء سے متفق تھی۔جسٹس منیر اورکیانی نے کہااس صورت حال میں ہم نے اپنی طرف سے مسلمان کی کوئی تعریف پیش کی تو علما کی طرف سے ہمیں کافر قرار دیا جائے گا۔(صفحہ۱۰)۔
نواب کالاباغ کی’’کالاباغیوں ‘‘کے ضمن میں لکھتے ہیں’’ایک دفعہ کہنے لگے کہ میں تو کالاباغ میں کھیتی باڑی کیا کرتا تھا مگر علاقے کے دشمنوں نے میرے ظلم و ستم کے قصے بنانے شروع کر دئیے۔ نوبت بہ ایں جارسید کہ لوگ کالا باغ کے علاقے میں داخل ہونے سے گھبرانے لگے۔ ایک روز خبرآئی کہ عطا اللہ شاہ بخاری صاحب نے میانوالی میں ایک بہت بڑے جلسے میں میرے خلاف بڑی دھواں دار تقریر کی اور حاضرین سے حلف لیا کہ اگلے روز سب لوگ سر پہ کفن باندھ کر کالاباغ جائیں گے اور ظالم نواب کی خبر لیں گے۔
علاقے میں خوف پھیل گیا، بخاری صاحب کا ایک ساتھی میرے پاس یہ پیغام لیکر آیا کہ ’’ہزاروں لوگ سر پر کفن باندھے کل یہاں آئیں گے بہتر یہی ہے کہ آپ ان کے سامنے حاضر ہو کر معافی مانگئے اور خداوند کریم سے توبہ کی التجا کیجئے۔ میں نے اسی پیغام برسے کہا کہ بخاری صاحب سے میرا سلام کہنا اور میری طرف سے انہیں یہ بتادینا کہ اگر وہ سر پہ کفن پہنے ہوئے آئیں گے تو میں انشاء اللہ انہیں وہی کفن پہنا کر یہاں سے روانہ کر دوں گا۔بخاری صاحب کومیرا پیغام مل گیا ہو گا اس لئے دوسرے دن میانوالی سے کوئی جلوس کالاباغ کی طرف نہ آیا‘‘ (صفحہ ۹۲) ۔
بخاری صاحب حلف اٹھانے کے پرانے عادی تھے۔ استاذی المحترم ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ دلی میں بخاری صاحب نے جامع مسجد میں مسلمانوں پر پاکستان بننے کے نقاصات واضح فرمائے اور ان سے حلف لیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت نہیں کریں گے۔
’’مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب ہمارے فتویٰ فروش علماء نے حاکمیت کے نظریے کو ہر ظالم اور سفاک حکمران کے ا قتدار پھر غاضبانہ قبضے کو جائز ثابت کرنے کے لئے بلاخوف اور بار بار استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں آئینی تنازعات کے معاملے میں ہمارے علماء کا اکثر وبیشتر منفی کردار رہا۔ ان مباحث میں ان کا موقف کبھی ان کی کم سوادی کی نشاندہی کرتا کبھی ان کے مخصوص مفادات کی ترجمانی‘‘(صفحہ ۱۶۸)۔
’’احمدیوں کے خلاف تحریک ایک سیاسی تحریک تھی جو بہت جلد پنجاب کے مختلف شہروں میں پھیل گئی اور ہر طرف آتش زنی ،قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ علماء کا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ قرار دے کر ان کے ووٹوں کا انداراج ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا جائے۔ علما نے اس پر بھی اصرار کیا کہ احمدیوں کو نہ ملکی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق دیا جائے اور نہ ہی انہیں اہم سرکاری عہدوں پر فائز کیا جائے۔ جہاں تک احمدیوں کا کاروبار مملکت سے الگ رکھنے کا مطالبے کا تعلق تھا تو یہ مطالبہ شہریوں کے لئے یکساں اور مساوی حقوق کے تصور سے انحراف کے مترادف تھا۔ کمیشن نے اس ضمن میں قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے برابر کے شہری ہیں‘‘ علماء نے قائداعظم کے پیش کردہ نظریہ ریاست کو مسترد کر دیا اور جماعت اسلامی کے ایک رکن نے بیان دیا کہ’’ اس نظریے پر قائم ہونے والی ریاست شیطان کا کارنامہ ہوگا‘‘ (صفحہ ۲۱۲)۔
جناب الطاف گوہر یہاں تک تو آگئے اور آکر رک گئے ۔ کاش وہ یہ بیان بھی کر دیتے کہ انہی علماء کی شہ پر ایک ظالم جابر ڈکیٹٹر نے احمدیوں پر کاروبار مملکت میں شرکت تو محال کی ہی تھی، اس نے ان کے عقائد پر بھی ضرب کاری لگائی اور تاریخ میں اپنا نام سیاہ کاروں کی فہرست میں لکھوا کر انجام مکذبین کو پہنچا اور ابھی ہمارا ملک خدا معلوم کتنے اور مواقع پر علما کی تکذیب و تکفیر کا موردود مستلزم ٹھہرے گا۔
♣