رپورٹ: ڈیلی میل ، لندن و ڈوئچے ویلے
پاکستان کی طرف سے دوغلا رویہ اپنانے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف موثر کاروائی کرنے کے لیے روسی صدر پوتن سے فوجی امداد کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے ماسکو سے آرٹلری ، چھوٹے ہتھیار، اور ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹر مانگے ہیں۔
روسی حکام نے اس درخواست پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
یہ درخواست اس وقت کی گئی جب امریکہ اور برطانیہ نے پچھلے سال اکتوبر میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کیا تھا اور افغانستان میں فوجی تربیت دینے والے سٹاف کے رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ بھی اپنے فائٹر جیٹ طیارے واپس لے جاچکا ہے جس پر افغان فوج کا بہت زیادہ انحصار تھا۔
جب سے روس نے بشر الاسد کے باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے، اس کے امریکہ اور مغربی ممالک سے تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔
اگر صدر پوتن افغان حکومت کی مدد کو آتے ہیں تو امریکہ اور مغربی ممالک سے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کی توقع ہے۔ کیونکہ روس اس وقت دنیا میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنا رہا ہے ۔ ایک امریکی اہلکار نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ’’ روس موقع کی تلاش میں ہے‘‘۔
روس افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور اس بات پر فکرمند ہے کہ خراب صورتحال وسطی ایشیا کے ممالک کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ اسلامی انتہا پسندی اس کی سرحدوں تک پہنچ جائے گی۔
اس ماہ کے شروع میں قازقستان میں سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پوتن نے کہا تھا کہ خطے میں صورتحال خراب ہو رہی ہے اور انتہا پسندوں کا ان علاقوں میں اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے وسطی ایشیا کے دوسرے ممالک کے سربراہان کو کہا کہ ہم اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
افغانستان میں روسی سفیر الیگزنڈر منٹکی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت افغان درخواست کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے جس میں روس سے فوجی امداد طلب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امداد کریں گے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ روسی فوجی افغانستان میں آئیں گے۔آخر ہم ان مسائل کو بوجھ کیوں اٹھائیں جو امریکی اور نیٹو ممالک حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔
افغان نائب صدر عبدالرشید دوستم روس سے مذاکرات میں آگے آگے ہیں۔ دوستم نے ماسکو میں روسی وزیر دفاع اوردوسرے دفاعی حکام سے ملاقات کی ہے اور کہا ہے کہ روس افغانستان میں امن بحال کرنے میں اپنا کردار اد ا کرے۔ رشید دوستم نے روسی ریپبلک چیچنیا کے سربراہ سے بھی ملاقات کی ہے۔
شمالی افغانستان اور اس سے ملحقہ ممالک کو اس وقت اسلامی انتہا پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں ۔
داعش کی وسطی ایشیا میں مداخلت ممکن، روس کا انتباہ
دوسری طرف روس نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں اور مشرق وسطیٰ کے شام اور عراق جیسے ملکوں میں قدم جمانے والی جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے وسطی ایشیا کی طرف یلغار اور مداخلت کا خطرہ زیادہ ہو چکا ہے۔
شام میں داعش کی طرف سے لڑنے والے جہادیوں میں سینکڑوں کی تعداد میں روسی اور وسطی ایشیائی عسکریت پسند بھی شامل ہیں
روسی دارالحکومت ماسکو سے بدھ اٹھائیس اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں روسی خبر رساں اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ طالبان اور اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی طرف سے وسطی ایشیا میں مسلح مداخلت کا خطرہ کافی بڑھ چکا ہے۔
ان رپورٹوں میں روسی خفیہ ادارے کے سربراہ الیگزانڈر بورٹنیکوف کے بیانات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغانستان کے شمالی سرحدی علاقوں میں طالبان جنگجوؤں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باعث یہ ایک حقیقی خطرہ ہے کہ اسلام پسند جنگجو وہاں سے وسطی ایشیائی ریاستوں میں سرایت کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
الیگزانڈر بورٹنیکوف کے بقول اس خطرے کو اس پیش رفت کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کہ افغان طالبان کے کئی دھڑے اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے ساتھ اپنے تعلق اور وفاداری کے عہد کا اعلان کر چکے ہیں۔
اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ افغانستان کی سابق سوویت یونین کی جمہوریاؤں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ سرحدیں کئی مقامات پر ایسی ہیں کہ وہاں سے غیر قانونی آمد و رفت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ماسکو کے لیے ایک عرصے سے یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ انہی غیر محفوظ سرحدوں کے ذریعے روس میں منشیات کا ایک بڑا حصہ اسمگل کیا جاتا ہے۔
روسی خفیہ ادارے ایف ایس بی کے سربراہ کی آج کی تنبیہ سے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی گزشتہ ماہ کے آخر میں کہا تھا کہ افغانستان کی صورت حال ’نازک کے بہت قریب‘ پہنچ چکی ہے اور روس کے علاوہ سابق سوویت یونین کی دیگر جمہوریاؤں کو بھی افغانستان سے کیے جانے والے کسی بھی ممکنہ حملے کو مل کر ناکام بنانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔