سابق برطانوی وزیر اعظم بلیئر کے مطابق داعش کے قیام کی وجہ صدام حکومت کے خلاف امریکی قیادت میں لڑی گئی وہ گزشتہ جنگ بھی بنی، جو بہرحال ’جائز‘ تھی۔ انہوں نے بعد از جنگ عراق سے متعلق کوئی پلاننگ نہ کرنے پر معافی بھی مانگی۔
برطانوی دارالحکومت لندن سے اتوار 25 اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ٹونی بلیئر نے صدام دور کے عراق کے خلاف گزشتہ جنگ اور بعد میں دولت اسلامیہ یا داعش کے قیام کو آپس میں مربوط قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کو فوجی ذرائع سے اقتدار سے علیحدہ کرنے کا عمل ’وہ درست قدم تھا، جس کا اٹھایا جانا ضروری تھا‘۔
ٹونی بلیئر نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان دعووں میں ’سچ کا عنصر موجود ہے‘ کہ یہ جنگ بعد میں عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے وجود میں آنے کا سبب بھی بنی۔
اتوار کے روز نشر ہونے والے اپنے اس انٹرویو میں ٹونی بلیئر نے کہا، ’’ظاہر ہے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنہوں نے 2003ء میں صدام حسین کو اقتدار سے الگ کیا، آج 2015ء میں نظر آنے والی صورت حال کے بالکل ذمے دار نہیں ہیں۔‘‘
سابق برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کئی عرب ریاستوں میں عشروں سے برسراقتدار حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریکوں کی صورت میں عرب دنیا ’عرب اسپرنگ‘ نامی جن تبدیلیوں سے گزری، وہ عدم استحکام کا باعث بھی بنیں اور اسی عدم استحکام سے اسلامک اسٹیٹ کے بنیاد پرست عسکریت پسندوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
امریکی قیادت میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف جنگ شروع کرنے کی واشنگٹن کی طرف سے ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ عراق کے پاس وسیع تر تباہی کا سبب بننے والے ہتھیار موجود تھے۔ ان دعووں کے بعد برطانیہ نے امریکا کے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن بعد میں عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے تمام امریکی دعوے غلط ثابت ہوئے تھے۔
اس جنگ میں ٹونی بلیئر کا امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ برطانیہ میں آج تک عوامی رائے کی تقسیم کی وجہ بنا ہوا ہے۔ عوامی رائے کی یہی تقسیم اور برطانوی ووٹروں کا یہی عدم اعتماد بعد میں اس بات کی وجہ بنے تھے کہ بلیئر کی جماعت لیبر پارٹی اگلے عام انتخابات میں بری طرح ہار گئی تھی اور تب سے آج تک وہ برطانیہ میں دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکی۔
سابق برطانوی سربراہ حکومت نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ صدام حسین اگر آج بھی اقتدار میں ہوتے تو دنیا زیادہ بہتر یا محفوط تر ہوتی۔ لیکن اس تناظر میں بلیئر نے، جیسا کہ وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں، ایک مرتبہ پھر معافی مانگی کہ تب صدام دور کے بعد کے عراق کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔
DW
2 Comments