ایک بنگلہ دیشی پادری قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تین افراد اس کے گھر میں یہ کہہ کر آئے کہ وہ مسیحیت کے بارے میں جاننا چاہتے تھے لیکن گھر میں داخل ہو کر اس پادری پر چاقو سے وار شروع کر دیے۔
منگل چھ اکتوبر کے روز متاثرہ پادری اور پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ تین افراد نے مسیحیت کی تعلیم حاصل کرنے کے بہانے سے یہ حملہ کیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا ہے، جب گزشتہ ہفتے دو غیرملکیوں کو بنگلہ دیش میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے دونوں حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی تھی۔ ان واقعات میں زراعت کے شعبے سے وابستہ ایک جاپانی شہری اور ایک اطالوی امدادی کارکن مارے گئے تھے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کارروائیوں میں ملوث ہیں اور وہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
اس تازہ حملے میں 52 سالہ بنگلہ دیشی پادری لُوک سارکر پر حملہ کیا گیا، جس میں وہ معمولی زخمی ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ پیر کے روز 25 تا 30 برس کی عمر کے حملہ آور ملک کے شمال مغربی ضلعے پبنہ میں سارکر کے گھر میں داخل ہوئے اور انہوں نے اس کلیسائی شخصیت پر چاقوؤں سے وار کیے۔
’فیتھ بائبل چرچ‘ سے وابستہ اس پادری نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ ان افراد نے دو ہفتے قبل اسے فون کر کے مسیحیت سے متعلق تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملنے کا کہا تھا اور اس کے گھر آنے پر انہوں نے یکدم حملہ شروع کر دیا۔
اس پاردی کے مطابق یہ حملہ آور اس کا گلا کاٹنا چاہتے تھے، تاہم اس کے چیخنے پر اس کی بیوی پہنچ گئی اور یہ حملہ آور فرار ہو گئے۔ پولیس نے بعد میں اس پادری کے گھر کے قریب سے ایک مشتبہ موٹرسائیکل اپنے قبضے میں لے لی۔
پولیس کے مطابق فی الحال حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی، تاہم یہ افراد ممکنہ طور پر کسی شدت پسند گروہ کے ارکان ہو سکتے ہیں۔
دریں اثناء پولیس نے ہفتے کے روز جاپانی شہری کے قتل کے شبے میں چار افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔ اس جاپانی شہری کو شمالی بنگلہ دیش میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ڈوئچے ویلے