عظمٰی اوشو
پاکستانی سیاست کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات تمام شک وشبہ سے بالا ترہے کہ پاکستان میں سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا ۔
پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے مسلم لیگ یاایک آدھ اور پارٹی ہوا کرتی تھی جو کہ زیادہ فعال نہ تھی رہی بات مسلم لیگ کی تو وہ ایک مخصوص طبقہ کی پارٹی سمجھی جاتی تھی جس پہ نوابوں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری تھی۔
اس دوران ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی یہ ایک نظریاتی پارٹی تھی جس نے مزدور کو آواز دی ،کسان کی بات کی جس سے عام آدمی سیاسی عمل میں شامل ہوا اور پھر پاکستان میں باقاعدہ سیاست کا آغاز ہوا ۔عوام میں پارٹی کی مقبولیت کی بڑی و جہ سیاست کو ڈرائینگ روم سے نکال کر گلی،محلے،اور تھڑوں تک لانا تھا ۔بھٹو کی شخصیت میں ایک ایسا جادو تھاکہ بہت جلد لوگ ان کے عشق میں مبتلا ہوتے گئے۔
بھٹو نے لوگوں کو زبان دی ایک مزدور سڑک پر آکر سرمایہ دار کو للکارنے لگا ایک کسان جاگیردار سے اپناحق مانگنے لگا ،دیکھتے ہی دیکھتے بھٹو شاعر اورادیبوں کا رہنما بن گیا اور یوں بڑے بڑے دانشور بھٹو ازم کی محبت کا شکار ہو گئے۔
سنہ70 کے الیکشن کا جائزہ لیا جا ئے تو ذوالفقار علی بھٹوعام لوگوں کے ساتھ میدان میں اترا اور پھر بنا سرماے کے بڑے بڑے لیڈروں کو زیرکر دیا جس کی ایک مثال چوہدری انورعزیز کی شکست تھی جن کے مد مقابلہ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملک سلیمان تھے اور پھر اسی شکست نے چوہدری انور عزیز کو جھنجھوڑا اور ان نے اس اعتراف کے ساتھ کہ بھٹوایک بڑی سیاسی سچائی ہے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔
اس الیکشن میں ایسے لوگوں نے جن کے پاس گاڑی تو دورکی بات سائیکل تک نہ تھی نے بڑے بڑے نوابوں اور چوہدریوں کی ضمانتیں ضبط کروادیں ۔بھٹو کے جلسوں میں لوگ عقیدت کے ساتھ آتے تھے ان جلسوں میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے نہ پٹواریوں کی مدد لی جاتی تھی اور نہ تھا نیداروں کی ۔لوگوں کو ادراک تھا کہ پی پی پی قومی سطح پر عوامی رنگ رکھنے والی واحد لبرل پارٹی ہے۔
اس پارٹی نے انتہائی نا مساعد حالات میں بھی چارانتخابات میں کا میابی حاصل کی اس کے علاوہ بھٹو خاندان پا کستان کی سیاست میں وہ واحد خاندان ہے جس نے اس ملک کی سیاست کوچار قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا اور پارٹی کے تقریبا تمام لیڈروں نے قیدو بند کی صعوبتیں کا ٹیں ،جس کی وجہ شاید پارٹی کا نظریاتی ہونا ہے۔
پیپلز پارٹی سے بے پناہ اختلاف رکھنے والے بھی کبھی یہ کہتے نہیں سنے گئے کہ پی پی پی کسی کی آشیر باد سے وجود میں آئی ،دوسری طرف پی ایم ایل(ن) کے قائد میاں نواز شریف کو جنرل ضیا الحق ،غلام جیلانی ،اور حمید گل کا منظور نظر سمجھاجا تا ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کو جنرل پا شا سمیت کئی وردی والے مہربان میسر آے ،موجودہ دور کا جائزہ لیاتو پیپلز پارٹی بیک فٹ پہ نظر آرہی ہے جس کی وجہ جہاں پارٹی کے کچھ غلط فیصلے تھے وہاں جنرل الیکشن سے لے کر اب تک پارٹی کے لیے ناسازگار حالات پیدا کرنا تھا ایسی پارٹی جس کا خاصہ ہی یہ تھا کہ وہ گلی گلی محلہ محلہ میں اپنے جیالوں سے رابطہ بحال رکھتی تھی وہ رابطہ کمزور کر دیا گیا جس کا نقصان پارٹی کہ شکست کی صورت اٹھانا پڑا۔
اس وقت مضبوط اور مستحکم جمہوریت کے لیے پی پی پی کا میدان میں آنا انتہائی ضروری ہے۔پی پی پی ایک واحد سیاسی جماعت ہے جس کا بنیادی نظریہ لبرل ازم ہے۔ بیرونی اور اندرونی سازشوں کے علاوہ پارٹی قیادت سے خود بھی کچھ غلط فیصلے ہوئے جن کاازلہ آئندہ بہت ضروری ہے۔ خصوصاً پنجاب کی قیادت پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں جس پر نظر ثانی کی اشدضرورت ہے اور پارٹی لیڈر شپ کا جیالے کے ساتھ اپنا وہی رابطہ دوبارہ بحال کرنا ہوگا جو بھٹو صاحب اور بینظیر نے قائم کیا تھا ۔
بھٹوایک سیاسی لیڈر ہی نہیں ایک ازم کا نام تھا بھٹو ازم میں مبتلا لوگوں نے یہ عقیدت اور محبت کا رشتہ بھٹو کے بعد بینظیر سے جوڑ لیا ۔اور بینظیرنے بھی یہ رشتہ خوب نبھایا ۔ بی بی کا اپنے جیالوں سے ایسا رشتہ تھا کہ وہ ان کے نام تک یاد رکھتی تھیں اور اس رشتے کونبھاتے نبھاتے ا نھوں نے اپنی جان اس مٹی پر قربان کر دی۔
پارٹی کے عقیدت مند آج بھی بھٹو ازم میں مبتلا ہیں انہیںآج بھی بھٹو خاندان کی قربانیاں یاد ہیں ان میں آج بھی وہی جذبہ مو جود ہے جو ایم آر ڈی کی تحریک کے وقت موجود تھا جو کہ پاکستان کی سیا سی تاریخ کی سب سے بڑی اور موثر تحریک تھی ،بس ضرورت جیالے کے ساتھ رشتے کی تجدید کی ہے اور پارٹی قیادت کو اپنے کچھ فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔۔
باقی بھٹو ازم زندہ تھا اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔۔
♥