سبط حسن
سونے کا سیب: جوفساد کی جڑ ثابت ہوا
بہت سال پہلے یونان کے لوگوں کا مانناتھا کہ ان کے دیو ی دیوتا، انھی کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے، ایک دوسرے سے حسد کرتے تھے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ وہ بالکل عام انسانوں کی طرح تھے اور انھی کی طرح اچھی اوربری باتیں کرتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکرہے ایک بادشاہ کی بیٹی کی شادی تھی۔ شادی میں سارے دیوی اور دیوتاؤں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ ایک دیوی ، جو فساد پیدا کرنے کی ماہر تھی کو شادی میں نہ بلایا گیا۔ اسے بہت غصہ آیا۔ جب سب لوگ شادی کی تقریب میں مصروف تھے تو فساد کی دیوی چپکے سے آسمانوں سے نیچے اتری۔ اس نے کسی کو بھی پتا نہ چلنے دیا اور شادی کے ہال کی ایک کھڑکی سے ایک سونے کا سیب اندر پھینک دیا۔ سیب کے ساتھ چھوٹے سے کاغذ پر لکھاہوا تھا:۔
’’یہ سیب سب سے خوبصورت دیوی کے لیے ہے۔۔۔!‘‘
شادی میں تین بڑی دیویاں کھڑکی کے پاس کھڑی تھیں: ایک نیکی کی دیوی تھی، دوسری محبت اور خوبصورتی کی اور تیسری عقل مندی کی۔ ان میں سے ہر ایک کاخیال تھا کہ سیب اسی کو ملنا چاہے کیونکہ وہ سب سے خوبصورت ہے۔ ان دیویوں نے آپس میں بحث شروع کردی ۔پھر جھگڑے کی صورت پیدا ہو نے لگی۔
جب معاملہ بگڑ گیا تو شادی میں شریک دیوتاؤں کو فکر ہوئی کہ کہیں یہ دیویاں آپس میں مارکٹائی نہ شروع کردیں۔ سب دیویوں اور دیوتاؤں نے مل کر اپنے سردار دیوتا، مشتری سے درخواست کی کہ وہ اس جھگڑے کا فیصلہ کردے اور سب سے خوبصورت دیوی کو سونے کا سیب دے دے۔
مشتری دیوتا نے سارے معاملے کو سمجھا۔ وہ حالانکہ بڑا سمجھدار دیوتا تھا مگر اس ساری صورت حال میں اس کا دماغ چکرانے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر ان تینوں لڑنے والی دیویوں میں سے کسی ایک کو سیب دے دیا تو باقی اس کے ساتھ ناراض ہو جائیں گی۔ اگر ان میں سے کسی کوبھی سیب نہ دیا جائے اور وہ اپنی بیوی کو سیب دے دے تو پھر یہ تینوں دیویاں اس کوکوسنا شروع کردیں گی۔ مشتری دیوتا کو لگا کہ وہ خود شاید فیصلہ نہ کر پائے گا۔
مشتری دیوتا نے اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ باقی تین دیویوں کواپنے پاس بلوایا اورانھیں کہا کہ وہ ٹرائے کے شہزادے پیرس کے پاس چلی جائیں۔ وہ جس دیوی کو سب سے خوبصورت سمجھے گا، اسے سیب عطاکردیاجائے گا۔
تینوں دیویاں اور خود مشتری کی بیوی پیرس کے پاس چلی آئیں۔ مشتری کی بیوی نے پیرس کو سمجھایا کہ اگر وہ اسے سب سے خوبصورت عورت قراردے دے تو وہ اسے دنیا کا سب سے امیر شخص بنادے گی۔ عقل مندی کی دیوی نے اسے پیش کش کی کہ اگر اسے سونے کا سیب مل گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے ہر جنگ میں اس کی فتح کو یقینی بنادے گی۔ خوبصورتی کی دیوی نے پیرس سے کہا اگر اسے سب سے خوبصورت عورت قرار دے دیاگیا تو وہ اس کے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کو اس کی بیوی بنادے گی۔
پیرس نے ان تینوں دیویوں کی طرف دیکھا ۔ اسے تینوں ہی بڑی خوبصورت دکھائی دیں۔ آخر اس نے بڑاسوچ کر فیصلہ کیا اور خوبصورتی اور پیار کی دیوی کوسب سے خوبصورت قراردے کرسونے کا سیب اسے دے دیا۔
اس وقت سپارٹا کے بادشاہ کی بیوی ہیلن سب سے خوبصورت عورت تھی۔ ایک دن پیرس، سپارٹا کے بادشاہ سے ملنے کے لیے گیا ۔ اس نے ہیلن کودیکھا ۔ اسے فوراًخوبصورتی کی دیوی کی پیش کش کاخیال آیا۔ اسے ہیلن اچھی لگنے لگی۔ خوبصورتی کی دیوی نے ہیلن کے دل میں بھی پیرس کے لیے پیار بھر دیا۔ وہ سپارٹا کے بادشاہ کو چھوڑ ، پیرس کے ساتھ چلی گئی۔ پیرس کاباپ اپنے بیٹے کی اس حرکت پر سخت ناراض ہوا۔
دوسری طرف سپارٹا کے بادشاہ کوجب اس بات کا علم ہو ا تو اس نے فوراًایک بڑالشکر تیار کیا اور ٹرائے پر حملہ کردیا۔ یہ جنگ دس سال جاری رہی۔ اس جنگ میں بے شمار لوگ مارے گئے۔لڑائی اس قدر خوفناک تھی کہ آسمانوں پر بیٹھے دیوی اور دیوتا بھی اس جنگ سے الگ نہ رہ سکے۔ ان میں سے کچھ سپارٹا کے ساتھ اور کچھ ٹرائے کے ساتھ مل گئے۔لڑائی میں پیرس کا بڑابھائی مارا گیا ۔ اس سے ٹرائے کے رہنے والوں میں سخت پریشانی پھیل گئی۔ وہ سب شہر کی دیواروں کے اندر قید ہو کررہ گئے۔
سپارٹا کے سپاہیوں نے ٹرائے کو شکست دینے کے لیے ایک چال چلی۔ انھوں نے لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا تیار کیا۔ یہ گھوڑا ایک بلند مکان سے کم بڑا نہ تھا ۔ بہت سے سپاہی اس گھوڑے کے اندر بیٹھ گئے ۔ گھوڑے کو ٹرائے شہر کے بڑے دروازے کے سامنے کھڑا کردیا۔ دوسری طرف سپارٹا کے سپاہی اور ان کے جہاز، ساحل سے ہٹ کر دورسمندر میں غائب ہوگئے۔
ٹرائے کے شہر یوں نے اگلی صبح ، شہر کے دروازے پر ایک بڑالکڑی کا گھوڑادیکھا تو سخت پریشان ہو گئے۔ وہ شہر کی دیوار سے جھانک جھانک کر اسے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ سپارٹا کے فوجی اور بڑے جہاز کہیں دو ردور تک نظر نہ آرہے تھے۔ سارا دن اسی طرح گزر گیا۔ سپارٹا کے سپاہیوں کاکوئی نام ونشان نہ تھا___صرف ایک گھوڑا ، وہ بھی لکڑی کا ، ایک بڑے گھر کی ماننددروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ ٹرائے کے شہری حیران تھے کہ آخر اچانک سپارٹا والے کہاں اور کیوں غائب ہوگئے۔
انھوں نے سوچنا شروع کردیا کہ شاید وہ اتنی لمبی جنگ سے تھک گئے ہوں گے اورانھوں نے اچانک یہاں سے چلے جانے کافیصلہ کرلیا۔ گھوڑے کے بارے میں سب کا یہی خیال تھا کہ سپارٹا والے ایک نشانی کے طورپرشہر کے دروازے پراسے چھوڑ گئے۔
اگلے دن ٹرائے کے شہریوں نے شہر کادروازہ کھولا۔ وہ لکڑی کے گھوڑے کودھکیلتے ہوئے، شہر کے اندر لے آئے۔ سب لوگ گھوڑے کے ارد گرد ناچ رہے تھے اور سپارٹا والوں کے جنگ سے بھاگ جانے کا جشن منا رہے تھے۔ سب لوگ اس لیے بھی خوش تھے کیونکہ ان کے خیال میں جنگ ختم ہو گئی تھی۔ سارادن پورے شہر میں جشن کاسماں رہا۔شام ہوتے ہی سب لوگ جو سارا دن ناچتے رہے تھے ،تھک ہار کرسوگئے ۔ رات ہوگئی۔ پورا شہر سویا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ٹرائے کی حفاظت کرنے والے سپاہی بھی سوگئے۔
رات ہوگئی۔ اندھیرا چھاتے ہی سپارٹا کے سپاہی اور ان کے جنگی جہاز ٹرائے شہر کی طرف لوٹ آئے۔ انھوں نے پھر سے ٹرائے شہر کامحاصرہ کرلیا۔ لکڑی کے گھوڑے میں موجود سپاہیوں نے ایک سوراخ کیا اور گھوڑے سے باہرنکل آئے۔ انھوں نے سب سے پہلے شہر کے دروازے سپارٹا کے سپاہیوں کے لیے کھول دیے۔ سپارٹا کی فوج شہر میں گھس آئی۔ اب ساراشہر سپارٹاکے ہاتھ میں تھا ۔ ایسی غارتگری اور قتل عام ہوا کہ اس کی مثال ملنابھی مشکل ہے۔
سپارٹا کابادشاہ محل میں آیا ۔ہیلن وہاں موجود تھی۔ اس نے ہیلن کو ساتھ لیا اور واپس سپارٹا چلاآیا۔ ٹرائے کی تباہی اور ہیلن کی واپسی کے بعد جنگ ختم ہوگئی۔