بے وقوفی اور عقل مندی میں جانوروں کی درجہ بندی

فرحت قاضی

donkeys1_543

ایک کوئے نے صدا لگائی تو اس کے آس پاس موجود وہاں کئی کوئے پہنچ گئے اور پھر جلسہ شروع ہوگیا۔

اسی طرح رات کی تاریکی میں ایک کتا بھونکتا ہے تو مشاعرے کی محفل جم جاتی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جانور بھی اپنی بولیاں رکھتے ہیں اور اپنے عزیز واقارب کو آگاہ اور اپنے مدعا کا اظہار اسی ماں بولی میں کرتے ہیں البتہ ان کے الفاظ کا ذخیرہ محدود ہونے کے باعث انسان نے ان کو بے زبان قرار دیا ہوا ہے۔

ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں یہ امتیازانسانوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے مابین بھی رکھا گیاہے چنانچہ اسی بنیاد پر اردو دان طبقہ عرصہ دراز تک خود کو اہل زبان کہتا رہا جس سے نہ صرف اس کے مفادات کو آگے بڑھنے کے مواقع ملتے رہے بلکہ دیگر قوموں میں احساس کم تری کے منفی جذبات نے بھی جنم لیا اس حقیقت کے باوجود کہ عالمی سطح پر قوموں کی مادری زبان کا حق تسلیم کیا گیا ہے اس جارحانہ رویے کا اظہار اپنی ماں بولی کے ساتھ قومی کی پخ لگاکر تمام عوام پر اسے تھوپنے سے بھی کیا گیا ۔

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ایک قوم کا ذخیرہ الفاظ، اس کی تہذیب و تمدن اورآثار قدیمہ اس کے ماضی سے پردہ سرکاتے ہیں عربی لغت میں ایک ہی چیز کے لئے کئی الفاظ سے اسی حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عرب سرزمین ازمنہ قدیم میں بھی ادب عالیہ ، علوم اور فنون سے بہرہ ور تھی۔ افغانستان، پشتو اور پشتون کا بھی یہی حال ہے اس کے آثار قدیمہ،صدیوں پر محیط قبل اور بعد از اسلام تاریخ ،سولہ جلدوں پر مشتمل پشتو زبان کی ضخیم لغت ،عقل و دانش پر مبنی محاورات ،ضرب الامثال اورلوک داستانیں اس کی عظمت رفتہ پر دلالت کرتے ہیں۔

قوموں اور طبقات میں تقسیم انسانوں نے یہ تفاوت و تفریق اپنے مابین ہی نہیں رکھی ہوئی ہے اور ایک قوم اپنے کو برتر کہلوانے کے زعم میں مبتلا دیگر قوموں کے رہن سہن،عقائداور زبان کو کم تر ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے بلکہ انسان نے طبقات پر قائم استحصالی نظام کو تقویت پہنچانے اوراپنی ضرورت کے تحت جانوروں کی بھی اسی طرح درجہ بندی کی ہوئی ہے۔

چنانچہ ہمیں ان کی صفات اور عادات کے باعث بے وقوف، عقل مند، بہادر ، ڈرپوک،صابر، حریص،انسان دوست و انسان دشمن، کینہ پرور،پاک اور نجس میں درجہ بندی ملتی ہے جانوروں کے ماضی اور حال کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کھانے پینے ،گرم و سرد اورمخصوص حالات کے باعث ان کی عادتوں اور رویوں میں جارحانہ پن، محصومیت اور لاابالیانہ پن پیدا ہوا ۔علاوہ ازیں انسانوں کی مانند وہ بھی اپنا بچاؤ اور بقاء چاہتے ہیں مگر انسان ان ہی خصوصیات کا اطلاق اپنے سماج پر بھی کرتا ہے چنانچہ اس کے نزدیک گائے اور گدھا بالترتیب سادہ اور بے وقوف، شیر اور بھڑیابہادر اور خونخوار، گیدڑ اور لومڑ ڈرپوک اور چالاک اور اونٹ اور کتا صابر اورحریص جانور ہیں۔

جانوروں کی ان صفات کی درجہ بندی کرکے اس نے ان کو سماج میں طبقات پر لاگو کردیا تھا تاہم اس سے ہمیں قدیم سماجوں کو سمجھنا نسبتاً آسان ہوگیا کہ ان میں ان گنت پیشوں سے وابستہ انسانوں کو کس نکتہ نگاہ سے دیکھا اور لیاجاتا تھایا بالادست طبقہ انہیں کیابنانا چاہتا تھا۔

طبقات میں بٹے ہوئے اس قدیم سماج میں ایک جاگیردار کو محنت نہ کرتے ہوئے بھی اپنا سماجی قد و قامت اہلیان علاقہ سے بلند و بالا رکھنا مقصود ہوتا تھا چنانچہ اس میں محنت کو تو اعلیٰ درجہ ملا مگر محنت کرنے والے کو بنظر حقارت دیکھا جاتا تھا۔کھیت مزدور کو شب و روز محنت میں مصروف رکھا جاتا تھااور ساتھ ہی گدھا کہہ کر بلایا بھی جاتا تھا۔ اسی طرح ایک سپاہی بادشاہ کے سلطنت کی توسیع کے لئے یکے بعد دیگرے ممالک فتح کرتا ہوا بڑھتا تھا تو اسے شیر اور شاہین سے تشبیہ دی جاتی تھی اور جان کے خوف سے دم دباکر میدان سے بھاگ جانے والے کو گیدڑ اور لومڑی کے نام سے یاد کرکے اس کامذاق اڑایا جاتا تھا۔

ازمنہ قدیم میں شیر و شاہین کی تعریف وستائش اور گیدڑ و لومڑی کا مذاق اڑانے کے ذریعے رعایا کی تعلیم و تربیت بھی ہوتی رہتی تھی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حاکم اپنی رعیت اور مالک اپنے کھیت مزدورکو ہمہ وقت محنت و مشقت میں جتا ہوا تو ساتھ ہی اس کا سر بھی جھکا ہوادیکھنا چاہتا تھا۔ اسی لئے خاموشی سے شب وروز محنت ومشقت اور لب وزبان سے فریاد نہ کرنے والا گدھا بیوقوف جانور بھی مشہور کیا گیا تھا۔

وہ سپاہی کو شیر بناکر رکھنا چاہتا تھا
اور چوکیدار میں کتے کی خاصیت وفاداری دیکھنے کا متمنی رہتا تھا

اس حوالے سے انسان نے محاورات اور ضرب الامثال بھی بنائے ہوئے ہیں

’’اپنا الّوسیدھا کرنا،الّوبنانا،اپنے منہ میاں مٹھو بننا،بگلا بھگت،خواب خرگوش،طوطی بولنا،طوطا چشمی کرنا،کاٹھ کا الّو،گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا،،

بادشاہ کے خلاف لکھنا اور اس پر تنقید کرنامروجہ قانون کے تحت ممنوعہ ہوتا تھا چنانچہ جو شاعر اور ادیب رعیت کی تعلیم و تربیت کا خواہاں ہوتا تھا تووہ بھی جانوروں کی اس درجہ بندی سے فائدہ اٹھاتا رہا اور قصہ کہانیوں میں وہ کچھ کہہ گیا جس سے آج بھی ہم لطف اندوزاور مستفید ہوتے ہیں ان لکھاریوں میں یونان کے ایسوپ کا نام یقیناً سب سے زیادہ قابل عزت و تعریف ہے۔

سنہ1917ء کے انقلاب روس کے دوران ایک ناول لکھا گیا تھا جس میں زار شاہی کی افواج اور سوشلسٹ انقلابیوں کو سور اور کتے سے تشبیہ دی گئی تھی جسے بعدازاں ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا۔

انسان خصوصاً بالادست طبقہ جانوروں کو جو بھی سمجھتا رہا ہو مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان ہی جانوروں میں ایسے بھی تھے جنہیں قدیم مذاہب میں تقدس کا مقام بھی دیا گیا جس محنت کش جانور کو ہمارے ادھر احمق ترین سمجھا جاتا ہے یہی گدھا امریکہ کی ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان بھی ہے۔ الّو کو مشرق اور مغرب میں الگ الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ چارلس ڈارؤن نے تو ایپ کو انسان کے قریب ترین آبا واجداد ثابت کرنے کی سعی کرکے حد ہی کردی ہے۔

ہمیں ان تصورات سے اتفاق ہو یا نہ ہو مگر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ زمین پر انسان کے قریب ترین ہمسایہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھی بھی ہیں انسان صدیوں سے ان سے ہل چلانے، ڈھونے، سواری، چوکیداری اور حفاظت سمیت کئی کام لیتا رہا ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے بغیر ہماری زمین کا حسن بھی ادھورا ہے چونکہ یہ بچوں کی مانند معصوم ہوتے ہیں لہٰذا اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ان کی حفاظت بھی ہماری ہی ذمہ داری بنتی ہے۔


انسانی لاعلمی ، لالچ اور جہالت کی وجہ سے کرہ ارض پر جانوروں کی کئی نسلیں ناپید اور فناہوچکی ہیں لہٰذا باقی ماندہ کے بچاؤ کے لئے شعور و آگہی کی اشد ضرورت ہے۔

Comments are closed.