عظمیٰ اوشو
آرمی پبلک سکول کے سانحہ نے پاکستان کی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا اس تبدیلی میں قوم نے کیا کھویا کیا پایا اس کا اندازا شایدآنیوالے چند برسوں میں ہو پائے ہاں البتہ ایک فائدہ ہوا کہ خودکش د ھماکوں میں کمی واقع ہوئی ہے مگر کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پاکستان واقع ہی ایک پر امن راہ پر گامزن ہو چکاہے ؟یاامن کا بسیرا محض سائبریا کے ساحلوں سے آنے والے پرندوں کی طرح کچھ عرصہ کا ہے ۔
سولہ دسمبر کے افسوسناک سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا ۔شروع میں مجھ سمیت ہر پاکستانی یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ نیشنل ایکشن پلان صرف دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے مگر دھیرے دھیرے یہ تاثر دم توڑگیا جب نیشنل ایکشن پلان کے شکنجہ میں بہت سے ادارے اور شخصیات آناشروع ہو گئیں کچھ کو اس شکنجہ میں جکڑا گیا اور کچھ نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں اور چاپلوسی کی لوٹ سیل لگاد ی۔ا ورایسے ایشوز جن پر خاموشی اختیار کرنے پر قوم کونا قابل تلافی نقصان اٹھاناپڑئے گا ان ا یشوز پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت کچھ ایسے اقدامات بھی اٹھائے گئے جس سے اس کی حیثیت متنازعہ ہو گئی ۔بہرحال نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اگر اس کامقصد محض دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہوتا اور یہ کام بلا تفریق کیا جاتا مگر نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ سب سے پہلے کر پشن کو جوڑا گیا اس میں کو ئی شک نہیں کہ کر پشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے مگر کرپشن کو نیشنل ایکشن میں شامل کرنا سوائے خوف کی فضا قائم کرنے کے کچھ بھی نہیں۔
اس کی گرفت میں سب سے پہلے سیاستدانوں کو لایا گیا جبکہ میر ی ناقص رائے کے مطابق کر پشن کاروباری برادری میں بھی بہت ہو رہی ہے اور ہمارے مقدس ادارے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں سیاسی جماعتوں کا احتساب کم اور پروپیگنڈ زیا دہ ہوا ا س سے نہ صرف ملک اور سیاسی جماعتوں بلکہ جمہوری اداروں پر سوالیہ نشان لگ گیا۔پھر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے عدلیہ پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔اسی نیشنل ایکشن پلان کے تحت این جی اوز کا ٹرائل شروع کیا گیا اور پھر سائبر کرائم بل پر زور شور سے کام شروع ہو گیا ۔
پاکستان میں کافی عرصہ سے سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے جامع قوانین کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔مگر ساتھ ہی ساتھ ہی اس بات کی بھی امید تھی کہ قوانین بناتے وقت بنیادی انسانی حقوق کو بھی مد نظر رکھا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس قوانین بنانے والوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ ایسے غیر انسانی قوانین کی زد میں ایک دن و ہ یا ان کے پیارے بھی آسکتے ہیں۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر ا نوشہ رحمن کی سر براہی میں ا س بل کی ڈرافٹنگ کی گئی ۔
محترمہ انوشہ رحمن نے اس حقیقت سے تہی دامن کا مظاہرہ کیا کہ ان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور جماعت کے نصیب میں تا حیات اقتدار نہیں ہوتا آج کے حکمران کل کی اپوزیشن ہونگے اور اپوزیشن کو سب سے زیادہ ضرورت اظہار رائے کی ہوتی ہے ۔موجودہ سائبر کرائم بل میں اظہاررائے پر مکمل پابندی ہے اور ان قوانین کو بناتے وقت بین الااقوامی قوانین جو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں کو بھی مکمل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں اور بڑوں کے لیے مختلف سزائیں ہیں مگر سائبر کرائم بل میں وہ ہی سزا 13 سالہ بچے کہ بھی دی جا سکتی ہے جو کسی بڑے کے لیے تجویز کی گئی ہے ۔یہ بل جس سے امید تھی کہ وہ الیکٹرانک کرائم کہ کنٹرول کرئے گا سب سے زیادہ صحافی ،سیاسی ورکر،اور سول سوسائٹی کو متاثر کرئے گا ۔مگر افسوس کے اس بل کے خلاف آواز اٹھانے والے بہت کم لوگ ہیں سیاسی جماعتوں میں سوائے پیپلز پارٹی کے کسی بھی جماعت نے اپنے موقف کا کھل کر اظہار نہیں کیا ۔
صحافتی تنظیمیں اور صحافی مکمل خاموش ہیں ،شاید اس کی بنیادی وجہ اس بل کی سنگینی اور ہیبت سے وہ ابھی تک بے خبر ہیں اکثر اینکرز کو محترمہ انوشہ کے موقف کی تائید کرتے دیکھا گیا ہے جس سے ان کی لا علمی کا اندازا ہوتا ہے ہاں البتہ سول سوسائٹی نے بل کی موجودہ حالت کی مخالفت کی ہے اور اپنا موقف بغیر لگے لپیٹے بیان کیا ہے مگر سول سوسائٹی بھی اس بل کے خلاف کوئی منظم تحریک چلانے میں تا حال ناکام نظر آتی ہے ۔
اگرایسی صورت میں یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات سماج پر انتہائی برئے اثرات مرتب ہونگے اور پھر یہ قانون توہین رسالت کے قانون کی طرح محض ذاتی عناد رکھنے والے بھی آسانی سے استعمال کر سکیں گے ،اس بل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لا محدود اختیارات دینا بھی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل کوسنجیدگی سے لیا جائے خاص طور پر صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اظہارئے رائے کے اس قاتل بل کی مخالفت کریں ۔
One Comment