ذہنی زلزلہ

ارشد نذیربھٹہ

215102803745

کئی روز سے سوچ رہا تھا کہ ثقافت ، تہذیب ، سیاست اور اخلاقیات کو معاشیات پر ترجیح دینے والے دانشوروں کے سامنے چند بنیادی سوالات رکھوں تاکہ یہ جان سکوں کہ آخر معاشیات ، ثقافت، تہذیب، سیاسیات اور اخلاقیات کے درمیان تعلق میں وہ معاشیات کو کس درجے پر رکھتے ہیں۔

اس طرح اس بارے میں ان کے ہاں پائے جانے والے کچھ اہم تصورات اور خیالات سے براہِ راست آگاہی حاصل کر سکوں گا۔ اس بنیادی نکتہ پر ان کی فکر و تعمق سے استفادہ بھی کر سکوں گا۔ ان دنوں میں خود بھی اس بارے میں مطالعہ کر رہا تھا اور ملکی اور غیر ملکی دانشوروں کے اس بارے میں پائے جانے والے خیالات کا جائزہ بھی لے رہا تھا اور چلتے پھرتے کچھ نوٹس بھی تیار کررہا تھا ۔تسلسل سے یہ کام ہو نہیں پا رہا تھا۔

کبھی فکر روزگار تمام سوچوں کو مقدس غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیتی اور بچوں کی فیس ، گھر کے کرائے اور دیگر معاشی مجبوریاں جسم میں سب سے زیادہ باغی اور آزادی کا دعویٰ کرنے والی شئے جسے عرفِ عام میں ذہن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کے ساتھ برسرِ پیکار ہونے لگتیں اور ایسا لگتا کہ دو متضاد سوچیں لنگر لنگوٹ کَس کے اکھاڑے میں اتر آئی ہیں۔

معاشی مجبوریوں کی سوچ اس اکھاڑے میں اترتے ہی براہِ راست سینے پر دو چپیٹیں رسید کرتی او ر منٹوں سیکنڈوں میں دیگر تمام سوچوں کو ذہن کے اکھاڑے سے باہر کر دیتیں ۔ پھر ذہن پسپا ہو کر کوئی بیچ کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اکثر تو ذہن کا کچھ حصہ مقدمہ بازوں کو بطور وکیل بیچنے پر مجبور ہوتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھار ذہن کا کچھ حصہ بنیادی انسانی حقوق اور قوانین کو فروخت کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو بیچنے کے لئے مجبور ہو تا ہوں۔

مقدمہ بازی اور پیرا لیگل سروسز بیچنے والے دونوں شعبوں کی اپنی اپنی نوعیت کی مجبوریاں ہیں۔ مقدمہ بازی میں ’’معزز و محترم عدالتوں‘‘ جن میں معدلت اور قانون کی حکمرانی کی ہر روز نئی نئی مثالیں قائم کی جاتی ہیں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ مقدمہ بازوں ، ’’فاضل جج صاحبان‘‘ ، ’’قانون و انصاف کی حکمرانی ‘‘ اور حقیقی سماجی و معاشی مسائل سے براہِ راست آگاہی ہوتی رہتی ہے۔

دوسری طرف پیرالیگل سرگرمیوں کو بیچنے والی تنظیموں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ قانون اور سماج کے درمیان پائے جانے والے تعلق میں آپ جب تک ان کے ’’بیچنے ‘‘کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو نہیں ڈھونڈ نکالتے ۔ اگر آپ اس آرٹ کوجان گئے ہیں اور اُن کی ضرورت کے مطابق اپنے ذہن کا کچھ حصہ بیچنے کے لئے تیار ہیں، تو پاکستان میں اس سیکٹر میں آپ کو کبھی بھی بے روزگار ی کا سامنا نہیں ہو سکتا۔ دیگر شعبوں میں آپ کو بے روزگاری کا کرب کھا جائے گا۔

خیربات ذرا دور نکل گئی۔ ہم بات معاشیات ، تہذیب و ثقافت ، سیاسیات اور اخلاقیات کے تعلق کی کر رہے تھے۔ خیال تھا کہ اس پر جلدہی کچھ نہ کچھ لکھنے کے قابل ہو جاؤں گا۔ لیکن بیچ میں میری ذاتی معیشت آن دھمکی اس کے لئے معذرت۔ جی جناب! میں ابھی اپنے نوٹس مکمل نہیں کر پایا کہ دو روز قبل پاکستان میں آٹھ عشیاریہ ایک ریکٹر سکیل کا زلزلہ آ گیا۔ تمام تر سوچیں اس زلزلے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔

یکا یک میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر مذاہب اور ان کی بتائی ہوئی اخلاقیات معاشیات سے بالا تر ہے ، تو یہ زلزلے جسے یہ مذہبی لوگ براہِ راست عذابِ الہٰی سے جوڑتے ہیں، تو بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ ان کے اخلاق سنور جائیں گے ۔ سور ، کتے اور گدھے کا گوشت لوگوں کو نہیں کھلائیں گے۔ سور کے گوشت اور سرسید کے اسباب بغاوتِ ہند میں بھی جو سیاسی تعلق ہے ، اُس پر کسی دوسرے موقع پر بات ہو گی۔ ابھی ہم ان کے اخلاق سنورنے کے بات کر رہے ہیں۔

یہ لوگ خوفِ خدا سے رشوت لینا چھوڑ دیں گے۔ ماؤں بیٹیوں اور بہنوں کا حق مارنا ترک کر دیں گے۔ ظلم و زیادتی سے باز آ جائیں گے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور اخلاقیات اور اس کے پرچارک اس سے معاشیات پر فوقیت کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثابت کر جائیں گے۔ پھر میرا آوارہ ذہن یکا یک 2005 ء کے زلزلے کی طرف مڑا اور مجھے یادآیا کہ ابھی توچند لوگ اُس 2005 ء ہی کے زلزلے کو سیاسی اور سماجی طور پر کیش کرنے سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ یہ دوسرا زلزلہ آگیا ۔

مجھے وہ سارا منظر یار آنے لگا کہ کس کس طرح سے کن کن پہلوؤں سے 2005 ء کے اس زلزلے کو کیش نہیں کیا گیا۔ پھر خیال آیا کہ ماہرین موسمی تبدیلیوں اور ہمارے ماحول پر اس کے اثرات پر بات کر رہے ہیں ، ہم نے ان کے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ہمارے دانشوروں اور مفکروں میں تو معروض اور انسان کے درمیان قائم رشتے کو سمجھنے کی استعداد ہی نہیں ہے ۔

یہ سب کچھ سوچ کر ایک بار پھر دل بوجھ سا ہوتا جا رہا ہے ۔ قلم ساتھ نہیں دے رہا اور ذہن دوبارہ اپنے پہلے موضوع کی طرف لپکتا جا رہا ہے۔ دوستو! ابھی مجھے سوچنے دو۔

3 Comments