امریتا سین
مفکرین کے درمیان اس امر پر مباحثہ ہوتا رہا ہے کہ قحط کا باعث انسان ہوتے ہیں یا اس کا سبب قدرتی عوامل ہیں؟ اس کی وجہ ماضی کے وہ واقعات ہیں جن میں لوگ سیلاب یا خشک سالی کے ہاتھوں قحط کے شکار ہوئے یا ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ دونوں عناصر نہ ہونے کے باوجود بھی انسانوں کو قحط کا شکار ہونا پڑا ۔ یقینی طور پر قحط کی ان دو اقسام میں تفریق ممکن ہے، جہاں ایک میں کوئی طبعی محرک کار فرما ہوتا ہے تو دوسرے میں سماجی تبدیلیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر ۱۹۴۳ء کے قحط بنگال کا سبب قدرتی آفات سے زیادہ جنگی حالات اور ناموافق سرکاری پالیسیاں تھیں۔ اس کے مقابلے میں۔۷۳۔۱۹۲۷ء میں ایتھوپیا کے’’ وولو صوبے میں پڑنے والے قحط کا سبب خشک سالی تھی۔
بہت حد تک قحط کو ایک سماجی عمل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں بہت سے لوگوں کی نااہلی اس وقت ظاہر ہوتی ہے، جب وہ اپنے معاشرے میں خوراک کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہمیں اس امر کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ قحط کا سبب چاہے خشک سالی ہویا سیلاب، لوگوں پر اس کے اثرات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی کتنا منظم ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی ملک کانہری نظام بہت وسیع اور مربوط ہو تو وہاں خشک سالی کے اثرات بہت کم مرتب ہوں گے، اس ملک کے مقابلے میں جہاں نہری نظام وسیع اور مربوط نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر زرعی پیداوار میں کمی ہو چکی ہو یا آمدنی کے عمومی ذرائع بھی متاثر ہوئے ہوں، تب بھی قحط پڑنے یا یہ نہ پڑنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ معاشرے میں خطرے سے دو چار لوگوں کے تحفظ کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ مثلاً کیا سرکاری ملازمتیں فراہم کی جارہی ہیںیا خوراک کی تقسیم کا سرکاری نظام بنایا جارہا ہے وغیرو وغیرہ۔
سیلاب اور خشک سالی جیسے واقعات کے پس پشت سماجی اور معاشی پالیسیاں بھی کار فرماہو سکتی ہیں۔ دنیا میں کئی صحرا انسان کی ناعاقبت اندیشانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، افریقہ کے استوائی خطوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کو قحط اور خشک سالی کا ایک سبب تصور کیا جاتا ہے مگر افریقہ کی روایتی بھوک کو سطحی انداز میں دیکھتے ہوئے، تجزیہ نگار عموماً دو غلطیاں کرتے ہیں۔ اولاً ان کے خیال میں موسمیاتی تبدیلیاں معاشرے کی گرفت یا کنٹرول سے آزاد ہوتی ہیں اور ثانیا قحط کے اثرات جانچتے ہوئے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ لوگ کتنی پیداوار یا خرچ کر رہے ہیں۔
قحط اور خشک سالی کے لیے قدرت کو الزام دینا یقیناًآسان اور دل خوش کن ہے۔ صاحبان اختیار اور اقتدار کے لیے تو یہ جواز ویسے بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ پر سکون بے عملی کی عموماً بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، جو اکثر دوسرے لوگ ادا کرتے ہیں، جس میں کبھی کبھی جانوں کا سودا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت، قحط اور خشک سالی جیسے واقعات میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ اتنی اہم بھی نہیں کہ فوری سرکاری ردعمل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، صرف اسی پہلوپر توجہ مرکوز رکھی جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں قحط سے بچاؤ کے انسانی راستے موجود ہیں۔ کئی ممالک، جن میں غریب ممالک بھی شامل ہیں، قحط سے بچنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب لوگ مرتے ہیں تو یہ سماج کی ایک بڑی ناکامی کی دلیل ہوتی ہے۔(ہو سکتا ہے ان کے آغاز میں قدرتی عوامل کا کردار بھی ہو)۔ سماج کی اس ناکامی کو بہت گہرائی اور توجہ کے ساتھ پر کھا جانا چاہیے اور اس سے صرف نظر نہیں کرنی چاہیے۔
قحط تب پیدا ہوتے ہیں جب سماج کے ایک بڑے حصے کو اس کا حق نہ مل سکے۔ وہ لوگ جو زندہ رہنے کے لیے درکار خوراک کی ضروری مقدار بھی حاصل نہ کر سکیں، صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ چنانچہ قحط کی روک تھام کے لئے سب سے ضروری پہلو، حقوق اور سہولتوں کی دستیابی و فراہمی ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ بات بہت سادہ نظر آتی ہے لیکن کسی مغالطے سے بچنے کے لیے چندوضاحتیں ضروری ہیں۔
مثال کے طور پر قحط کے عالم میں، جب لوگ بھوک کا شکار ہوں تو بہت سے افراد خوراک کی قلت سے نہیں نلکہ ان بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں جو قحط کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ ہر چیز کھا جانے پر تلے ہوتے ہیں۔ صحت وصفائی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے او ر بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کرتے ہیں تو چھوت کی بیماریوں کا سیلاب بہت سے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قحط سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ وبائی امراض سے لوگوں کومحفوظ کیا جائے، اگرچہ ان کی مشکلات کا بنیادی سبب بہر حال خوراک کی عدم یا محدود دستیابی ہی ہو۔
چنانچہ جہاں کہیں بھی خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گی تو لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ وہاں امراض سے بچاؤ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح عوام کی محرومی کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جا سکے گا جو صرف خوراک کی محرومی سے ہی تعلق نہیں رکھتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جب قحط پڑتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عوام کو خوراک فراہم کرنے والا نظام ناکارہ ہو چکا ہے، جس سے وبائی امراض نے جنم لیا ہے۔ لہٰذا اگر عوام کو پہلے مرحلے میں ہی خوراک فراہم کر دی جائے تو آئندہ بھی بہت سی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔
قحط کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں خوراک کی اوسط دستیاب مقدار کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ غذا کی دستیابی، قحط کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔ نیز منصوبہ بندی میں کئی امکانات کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ مثلاخطرے سے دوچار لوگوں تک خوراک پہنچانی ہوگی، گو کہ ان کے لیے کم ازکم غذائی معیا رکے مطابق خوراک فراہم کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
قحط کے دوران لوگوں کی محرومی دور کرنے کا عمل، قلیل اور طویل المدتی ہو سکتا ہے۔ قلیل المدت حکمت عملی کے تحت، خطرے سے دو چار لوگوں کو قحط سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر سہولتیں اور حقوق فراہم کیے جاتے ہیں تاہم طویل المدتی منصوبہ بندی میں ان گنت پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ خطرے سے دوچار لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے،تاکہ ان کی عمومی خوشحالی، معاشی عدم تحفظ اور آمدنی کے معقول و مستقل ذرائع کو ممکن بنایا جا سکے۔
طویل المدت منصوبہ بندی میں بھی ایسے نظام کی تشکیل ضروری ہے۔ جس کے ذریعے لوگوں کوان کے حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کی ضمانت دی جا سکے۔ یقینی طور پر، اکثر ملکوں میں ایسا کرنا تقربیاً ممکن ہے کہ لوگوں کا عدم تحفظ دورکر کے انہیں مکمل طور پر خطرات سے محفوظ کر دیا جائے۔
لوگوں کے حقوق کے تحفظ کو، قحط میں ہونے والی امدادی سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے دیکھنا چاہیے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد صرف بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی روک تھام ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مربوط، منظم، موثر اور پائیدار نظام کی تشکیل جو عوام کے حقوق اور سہولتوں کی حفاظت کر سکے، زیادہ وسیع تر کام ہوتا ہے۔ حقوق اور سہولتوں سے محرومی دیہی علاقوں میں کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔قحط سے نمٹنے کے لئے کوئی حکمت عملی بھی اس خیال سے خالی نہیں ہونی چاہیے کہ لوگ نہ صرف زندہ رہیں بلکہ اپنا طرززندگی بھی بحال کرنے میں کامیاب رہیں۔
درحقیقت یہ نکتہ صرف خوشحالی سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ ترقیاتی عمل سے بھی وابستہ ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ میں غذائی بحر ان کو ہی لیجیے۔ افریقہ میں قحط کا ایک بڑا سبب، پورے خطے میں زراعت کو درپیش مشکلات بھی ہیں۔ زمینداروں اور کاشت کاروں پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے اجناس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی اپنی زندگی خطرے میں ہو تو وہ کیسے بچت، جدت اور خوشحالی کے عادی ہو سکتے ہیں؟ پیداوار، صلاحیت اور وسائل کی تقسیم پر بھی قحط کے طویل عرصے برقرار رہنے والے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر افریقہ میں حقوق اور سہولتوں کو تحفظ دیا جاتا تو نہ صرف لوگوں کی زندگیاں بہتر بنائی جا سکتی تھیں بلکہ دیہی معیشت کو بھی مضبوط بنایا جا سکتا تھا۔ امداد اور ترقی کے درمیان بہت فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قحط سے بچاؤ اور ترقیاتی عمل کے درمیان تعلق کے مثبت پہلوؤں پر زیادہ توجہ دی جائے۔
جب ہم قحط کو حقوق سے محرومی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا نتیجہ تصور کرتے ہیں تو پھر ہمارے سامنے اس سے نمٹنے کے کئی ذرائع بھی سامنے آتے ہیں۔اگر حقوق اور سہولتیں کئی طریقوں سے خطرے کی زد میں آتی ہیں تو کئی طریقوں سے انہیں محفوظ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ خوراک درآمد کر کے اسے مستحقین میں تقسیم کرنا، ایک حل ہو سکتا ہے۔ افریقہ میں صحافتی اور علمی حلقے اس خیال کے حامی ہیں کہ قحط کی صورت میں خوراک اور امددی اشیاء تقسیم کی جانی چاہئیں،جو اس نظریے کی مقبولیت ظاہر کرتا ہے۔ تاہم قحط سے تحفظ کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ وسیع اور متنوع حکمت عملیاں موجود ہیں۔
پیشگی اطلاع اور عمل
قحط کے موضوع پرتاریخی اور موجودہ دور کی دستاویزات میں پیشگی اطلاع اور عمل پر بار ہازور دیا گیا ہے۔ نقل مکانی کے دوران آبادی کے بڑے حصے کی سلامتی ، وبائی امراض کی روک تھام، خاندانوں کی یک جہتی کو ممکن اور قحط کے اندازوں کو غلط ثابت کرنا صرف پیشگی اطلاع کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ تمام کوششیں اس وقت ہی اہم ثابت ہو سکتی ہیں جب ہم قحط کی روک تھام کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو صرف زندگیاں بچانے تک محدود نہ رکھیں بلکہ زندگی کو رواں اور پیداواری وسائل کو محفوظ رکھنے تک وسیع کر دیں۔
پیشگی عمل کی مخالفت کوئی ہوش مند شخص نہیں کر سکتا کیونکہ کسی کو بھی قحط کی روک تھام کے لیے تاخیر سے ہونے والے اقدامات کی خواہش نہیں ہوتی۔ تاہم غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پیشگی عمل کے لیے کون سا راستہ اختیار کیاجا رہا ہے اور اس کے لیے کون سے دوسرے شعبوں میں توجہ میں کمی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ہنگامی صورت حال میں غذائی اور امدادی مراکز اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن پیشگی اطلاع کے زمرے میں یہ ناکافی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ لوگ اس وقت تک ان مراکز کا رخ نہیں کرتے، جب تک بہت ہی زیادہ ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چار نہ ہو جائیں۔
کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سارا الزام اس نکتے پر آتا ہے کہ اس ہنگامی صورت حال کے بارے میں متعلقہ حکام تک اطلاع تا خیر سے پہنچی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کئی ملکوں نے نظام وضع کیے ہیں تاہم قحط سے بچاؤ کے سلسلے میں اس نظام نے کچھ زیادہ اہم کردار ادا نہیں کیا ہے۔
قحط کے بارے میں قبل ازوقت خبردار کرنے والے نظام کا ایک ستم تکنیکی سہولتوں کی کمیابی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یقینی طور پر اس امر میں بحث کی گنجائش ہے کہ لوگوں کو حقوق کی عدم فراہم میں تکنیکی سہولتوں کی غیر موجودگی نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک وزراعت (ایف اے او) مختلف ممالک کی غذائی صورت حال پر نظر رکھتا ہے اور اگر انہیں خوراک کے نظم ونسق میں مشکلات کا سامنا ہو تو وہ ان کی معاونت کرتا ہے۔ قحط سے پیشگی نمٹنے میں خوراک کی فراہمی بھی اہم ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں فصلوں کی تباہی سے بھی قحط پڑتا ہے۔ اگر اس پر نظر رکھی جائے تو قحط کی صورت حال پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایک اہم پہلو خوراک کی قیمتیں بھی ہیں۔ جب غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھنے لگیں تو یہ بھی قحط کی آمد کا ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔
تاہم قحط کے بارے میں پیشگی خبردار کرنے کا سب سے اچھا طریقہ سماجی اور معاشی تجزیہ ہوتا ہے۔ غذائی توازن، فصلون کا تخمینہ، اجناس کی قیمتیں، تنخواہوں کی سطح اور آبادیوں کی نقل وحرکت کے علاوہ دیگر کئی ایسے مفید اشارے ہیں، جن کے ذریعے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قحط آنے والا ہے یا نہیں۔ ادھر یہ تصور کرنا بھی حقیقت سے خالی ہو گا کہ پیشگی خبردار کرنے کا نظام صرف حکومت کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔اطلاع کا عمل پورے سماج میں ایک قبل ازوقت تیاری کے سلسلے کو آگے بڑھانے والا ہونا چاہیے۔
اطلاع کے ذریعے صرف اعدادوشمار کا تجزیہ اور اسے جمع کرنے کاکا م ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے ذریعے اطلاع کو مزید آگے بڑھانے اور دباؤ میں اضافے کاعمل بھی ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ (میڈیا) کاکردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے، جسے نہ صرف اطلاع رسانی بلکہ عوام کی رائے سازی اور پیروکاری میں بھی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ دیگر اہم فریقوں میں سیاسی جماعتیں، رضا کار تنظیمیں وغیرہ شامل ہیں۔ کبھی کبھی اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر تنقید اور ہنگامی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔
♣