جرمنی کے اتحاد کا سلور جوبلی جشن

جرمنی سے مکتوب: عرفان احمد خان

11
تین اکتوبر کو مشرق و مغربی جرمنی کو دوبارہ متحد ہوئے یعنی نئے جرمنی کو معرض، وجود میں آئے 25 سال کا عرصہ گذر گیا ہے۔ مجھے ابھی یہ کل کی بات لگتی ہے جب نومبر 1989 میں دونوں ملکوں کو متحد کرنے کے راستے ہموار ہونے شروع ہوئے تھے۔ بیک دورڈپلومیسی تو نہ جانے کب سے کام کر رہی تھی لیکن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا پہلا منظر نومبر 1989 میں ابھرا۔ جب مشرقی جرمنی کے ہزاروں لوگ پراگ کی جرمن ایمبسی میں جمع ہوئے جن کو مظلوم بنا کر ٹرینوں کے ذریعے مغربی جرمنی لایا گیا ۔ مغربی جرمنی کے عوام نے اپنے مظلوم بھائیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ماحول کا نئے نئے سیاسی بیانوں سے گرمایا جا رہا تھا۔ ہر دن کا سورج ئی خبر لے کر طلوع ہوتا، آزادی کی آوازوں میں شدت آ رہی تھی ۔

جب چانسلر ہلمٹ کوہل نے دس نکات پر مشتمل تقریر کر ڈالی تو بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ اندرون خانہ اتحاد کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ کوہل کی تقریر کے چند دن بعد مشرقی جرمنی کے لوگوں کو بغیر سفری دستاویزات کے جرمنی آنے کی اجازت مل گئی تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں کہ کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ اور آزادی کے دن تو بہت قریب آچکے ہیں۔

جرمن چانسلر کی تقریر میں بیان کردہ اشاروں کے مطابق مارچ 1990 میں مشرقی جرمنی میں آزاد الیکشن ہوئے تو کمیونسٹوں کی جگہ کرسچین ڈیموکریٹ نے مشرقی جرمنی میں میدان مار لیا۔ دیوار برلن کے دونوں طرف ایک ہی نام کی پارٹی کے برسر اقتدار حاکموں نے اکنامکس اور کرنسی پر بات چیت کا آغاز کیا ۔

فارن سیکیورٹی پالیسی میں امریکہ، برطانیہ ، روس اور فرانس بات چیت کا حصہ بنتے رہے۔ اندرون خانہ بڑی طاقتوں کی موجودگی میں ہونے والی گفتگو کے اصل ماخذ سے عوام ابھی ناآشنا تھے کہ مشرقی جرمنی نے اپنی کرنسی کو ختم کرکے جرمن مارک کو اپنی کرنسی بنانا قبول کر لیا۔مشرقی جرمنی کے عوام نے برلن کے بینکوں پر دھاوا بول کر اپنی جمع پونجی کو جرمن مارک میں بدل لیا ۔ کیمرے کی آنکھ نے جب یہ سمونا شروع کیا کہ بظاہر بدحال نظرآنے والے مشرقی شہریوں کا اصل وزن کیا ہے تو مغربی عوام میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں ۔

دوسری جنگ عظیم کی بربادی سے متاثرہ لوگ اپنے برے وقت کو یاد کرکے کرنسی کی تبدیلی پر کھل کر تنقید کرنے لگے۔ مغربی حصہ جرمنی میں اتحاد کی خوشیاں وقتی طور پر ماند پڑتی نظر آئیں ۔ اس سارے ڈرامے کا آخری سین اگست 1990میں دونوں ملکوں کے ایک ہو جانے کے معاہدہ پر دستخط کی صورت میں دنیا نے دیکھا۔ جذبات سے مغلوب ولی برانت کے منہ سے نکلا بے ساختہ فقرہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ ہو گیا کہ ’’ ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا‘‘۔

دوبارہ اتحاد کے اسی تاریخی معاہدہ میں اتحادد کی سرکاری تاریخ 3 اکتوبر مقرر ہوئی۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ متحدہ جرمنی کا دارلحکومت برلن ہوگا۔ا تحاد کے معاہدے کے وقت کس کو معلوم تھا کہ معاشی و اقتصادی طور پر ختم ہوجانے ولے والا مشرقی جرمنی آئندہ 25 برس میں مضبوط مغربی جرمنی کی سیاست پر غالب آجائے گا۔ آج جبکہ متحدہ جرمنی کی سلور جوبلی کو خصوصی شان و شوکت سے منایا جارہا ہے تو ملک کے حکمران چانسلر اور صدر جرمنی دونوں کا تعلق مشرقی جرمنی سے ہے۔

یوں تو اتحاد کی سالگرہ پورے جرمنی میں پورے ذوق و شوق سے منائی جاتی ہے لیکن سرکاری تقریب ہر سال ایک دوسرے شہر میں ہوتی ہے کیونکہ ہر شہر سرکاری طور پر جوبلی منانے کے لیے بہت سے شہر خواہشمند تھے۔ فیصلہ کرنے والوں نے اس بات کو اہمیت دی کہ ایوان بالا یعنی سینٹ کی چئیر مین شپ اکتوبر میں صوبہ ہیسن کے پاس ہے۔ اس لیے اتحاد کی سالگرہ کی سلور جوبلی سرکاری تقریب اس کے سب سے بڑے شہر یعنی فرینکفرٹ میں منعقد ہو گی۔

چنانچہ صوبہ ہیسن کی حکومت نے 3.5 ملین یورو اور فرینکفرٹ کی لوکل گورنمنٹ نے 1.5 ملین یورو خرچ کرکے اتحاد کے جشن کا حق ادا کردیا۔ فرینکفرٹ میں سرکاری طور پر تین روز جشن منایا گیا ۔ ۲،۳،۴ اکتوبر کو شہر کا سنٹرعام ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا ۔چودہ لاکھ افراد نے فرینکفرٹ کے سرکاری جشن میں شرکت کی ۔ ریلوے نے تین روز کے لیے خصوصی ٹکٹ نکالا تاکہ پورے جرمنی سے لوگ جشن میں شرکت کر سکیں۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے بعد سیدھے فرینکفرٹ تشریف لائیں۔ فرینکفرٹ میں ہونے والے جشن اتحاد میں چانسلر کے علاوہ جرمن صدر، اسمبلی کے سپیکر ، سینٹ کے چئیر مین اور دوسرے حکومتی عہدیداروں نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مسٹر گاوک نے کہا کہ آج 25 سال بعد ہمیں دوبارہ انہی حالات کا سامنا ہے لاکھوں مہاجرین ہماری سرحدیں عبور کرکے ہمارے ملک میں داخل ہورہے ہیں ۔ جرمن عوام کو ان سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کوشش کریں ۔۔ ہر کوئی جو مدد کر سکتا ہے کرے اور کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔ عوام ساتھ دیں تو ہم اس چیلنج پر پورا اتریں گے۔ آج ہم صرف اتحاد نہیں بلکہ اعتماد کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم نے جس اعتماد سے مہاجرین بے گھر لوگوں کو قبول کیا ہے ہم اس اعتماد پر پورا اتریں گے۔

چودہ لاکھ انسانوں کے جشن کے لیے فرینکفرٹ میں دیکھنے کے لیے تاریخ کے حوالے سے بہت کچھ تھا۔ جگہ جگہ قد آور سکرینیں لگائی گئی تھیں جن پر 1914 سے 2015 تک کے حوالے سے نیشنل سوشلزم، جنگ عظیم دوم ، صنعتی انقلاب اور آج کا جرمنی کے عنوان کے چلنے والی دستاویزی فلمیں دیکھ کر ایک گھنٹہ میں انسان جرمنی کی پوری تاریخ سے متعارف ہو جاتا ہے۔

جرمن پارلیمنٹ نے وسیع و عریض رقبہ پر اپنے خیمہ لگائے ہوئے تھے جہاں پارلیمنٹ کی کارگردگی اور کام کرنے کے طریق کار پر معلومات مہیا کی جارہی تھیں۔پارلیمنٹ کا ڈائس بھی موجود تھا جس کے سامنے کھڑے ہو کر ہر کوئی تصویر اتروا سکتا تھا۔ ایک خیمے میں باقاعدہ نیشنل اسمبلی بنائی گئی تھی جہاں سیٹوں کی ترتیب سیاسی پارٹی کی نسبت سے رکھی گئی تھی ۔ آپ کا تعلق جس پارٹی سے ہے اس کے لیے مخصوص کردہ سیٹ پر بیٹھ کر کاروائی میں حصہ لیں۔

ذرا فاصلے پر سینٹ والوں نے اپنا خیمہ لگایا ہوا تھا جہاں نوجوان نسل اور ان کے مسائل پر بحث ہو رہی تھی۔ حکومت کی تمام وزارتوں نے اپنے اپنے دفاتر قائم کیے ہوئے تھے جہاں لوگوں کو کام کے بارے میں بریف کیا جارہا تھا۔صوبوں کے سٹالز اس کے علاوہ تھے۔

دریائے مائن کے دونوں کناروں پر میوزک گروپوں کا قبضہ تھا ۔ جہاں بچے بوڑھے جوان سب متحرک تھے۔ رات کو ٹاؤن ہال کے سامنے میوزک کنسرٹ میں دنیا کی نامور شخصیات کو مدعو کرکے ان کے شو جاری تھے۔لائٹ شو، میوزک شو اور آتشبازی نے ایک عجیب رنگ باندھ دیا ۔ جرمن ساری رات فرینکفرٹ کی سڑکوں پر گاتے بجاتے رہے۔

غرض جرمنوں نے دوبارہ اتحاد کی سلور جوبلی کو قومی جذبہ کے ساتھ متحد ہو کر منایا۔ برلن میں ہر سال لاکھوں کا اجتماع ہوتا ہے اور امسال بھی ایسا ہی ہوا۔ تین اکتوبر کو جرمنی کا کوئی شہریا قصبہ ایسا نہ تھا جہاں سلور جوبلی کو منانے کا اہتمام نہ ہو۔ جرمن بینک نے سلور جوبلی کے موقع پر 25 یورو کا چاندی کا سکہ جاری کیا ہے جو بینک سے خریدا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.