ھمل بلوچ
آپ بھی کیا ڈیسمنڈ ٹوٹو کی بات کرتے ہیں، عیسائی مشنری آئے اور آتے ہی چھا گئے، زمین جو پیداوار کا بنیادی محرک ہے اور انسان جو اسی پیداوار کو بڑھاکر، یا پھر اس میں کئی دیگر خوبیاں اضافہ کرکے اس کو اضافی قدر کی ایک اشیا میں تبدیل کرتا ہے یہ دونوں عیسائیوں یعنی انگریزوں کے ہاتھوں میں آگئے۔ زمین اس لیے گئی کہ انہوں نے با ئبل میں عافیت ڈھونڈی اور انسان اس لیے غلام ہوگئے کہ وہ بائبل کی سحر میں آکر سو گئے، یعنی سوچنے سے قاصر۔
جب کوئی انسان اپنی سوچنے کی عمل کو ہی آوٹ سورس کردے تو وہ ایک مشین کی محض ایک کل پرزہ ہی بن کر رہ جاتی جسے مالک اس کی کارکردگی کے مطابق چاہے کسی بھی مشین میں لگا دے۔وہ اسکریپ بننے تک چلتا ہی رہےگا بالکل اسی طرح جن لوگوں نے مارکس وادی کے نام پر جس طرح کے گورکھ دھندے کیے وہ تو شاید ہی یہ محسوس کرسکیں کہ وہ کچھ غلط کررہے ہیں ۔
کیونکہ ہم نے جہاں تک فینن سے لے کر سارتر تک کو پڑھا اور ان سے کچھ کشید کرنے کی کوشش کی تو اس میں یہی سمجھایا گیا کہ طاقت اصل میں تشدد کی جنم بھومی ہے جہاں تشدد کی سوچ ہمہ وقت اپنی جوبن پر ہوتی ہے وہاں استدلال ہمیشہ منہ کا جھاگ دکھائی دیتا ہے اور ایک صدائے آمرانہ سے چھپ ہونے کی تنبیہ کی جاتی ہے، بس برداشت کی گراف نقطہ انجماد کو چھوکر سکڑ جاتی ہے اور سامنے چاہے سقراط ہی کیوں نہ بیٹھا ہو اسے زہر کا پیالہ پینے کی فرصت ہی ملے گی۔
محض یہ مشرف تو نہیں تھا کہ جنہوں نے اسلام آباد کے بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے کھڑے ہوکر ہمیں وہاں سے ہٹ کرنے کہ دھمکی دے ڈالی جہاں سے ہمیں کچھ اتا پتہ بھی نہ رہے مگر ہمیں تو معلوم ہے، بقول شاعر
من اوں زاناں تو اوں زانے دراہیں دنیا سرپد انت۔ رہبرانی لاش مرگاپ ءَ کیا دور داتگ انت۔
ترجمہ: (مجھے بھی معلوم ہے، تمہیں بھی پتہ ہے اور ایک عالم جان چکی ہے،، کون ہمارے ہمارے رہبروں کی لاشیں مرگاپ میں پھینک گیا)،
یہ سوچ اس قلم کی نوک سے نکلتی ہے وہی ڈرانے اور دھمکانے والی سوچ کہ جسے طاقت کی حقیقی پشت پناہی کہیں نہ کہیں جاکر حاصل ہے، اور یہ وہی طاقت ہے جو قلم کی نوک سے بھی تشدد کو ابھارنے کے اسباب پیدا کررہی ہے۔
اور ہاں آپ نے تو سارتر کی بھی بات کی ہے
آپ بھی ناں، کیا بھولے بادشاہ ہیں
سارتر، ارے وہ تو فرانس تھا اس نے پتہ ہے کیا کہا؟
اس نے کہا میں سارتر ہوں، فرانس کو زبان لگ گئی تھی وہ بولتی تھی وہ چلا کر جب یہ بولی کہ میں سارتر ہوں تو چارلس ڈیگال کی کیا مجال تھی کہ سانس بھی لے،وہاں بھی میر تقی میر بولتے تھے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا۔
پتہ نہیں ڈیگال کو سیاست اور سیاسی رموز پر دست رس تھی یا پھر وہ فرنچ تہذیب کا حقیقی وارث تھا مگر وہ بات سمجھ گیا کہ سارتر فرانس کا بیٹا ہے اور میں بھلا ایک ماں کی ممتا سے کیسے لڑ سکتا ہوں اور وہ اپنی مطلق العنانیت کے سامنے ہی ڈھیر ہوگئی۔
تمھیں تو یہ بھی معلوم ہے کہ تم بلوچ ہو تو باالفاظ دیگر تم گنوار بھی ہو، جاہل بھی ہو، نا فنسق بھی اور قبائل ذہنیت کے موافق ایک ہیجان زدہ جذباتی بھی ہو، اور تمھاری باتیں استدلال سے زیادہ جھاگ سے اٹی پڑی ہیں، کیونکہ تم بلوچ ہو اور ایک ایسی سلطانہ سے تمھارا واسطہ ہے کہ جس کی جسم کے نوچنے پر تم ان راجہ گدھوں سے بس کچھ تلخ جملوں میں مخاطب ہو اور انہیں کہہ رہے ہو کہ نوچ لو مگر شائستگی سے، تہذیبی دائرے میں رہ کر۔
مگر بانو قدسیہ تو کہہ چکی ناں کہ راجہ گدھ کی اپنی فطرت کیا ہے، اور آپ ہیں کہ اب ان سے ظرف کی زبان سننے آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ الگ بات ہے جب عطا شاد ہے کہا تھا کہ:۔
عطا سے بات کرو چاندنی سے شبنم سی ۔ خنک نظر مگر دل الاو رکھتا ہے
اب ان مغموم و ملائم باتوں کا بلا متشدد زہنیت کے سامنے کیا کام؟ وہ کہیں گے تمھارا ثقافت ہیچ ہے، کیونکہ تم طاقت نہیں رکھتے، تم نیچ ہو کیونکہ تم قوت سے عاری ہو، تم مدلل نہیں ہو کیونکہ تمھاری باتیں حقیقت اور تند و تلخ لب لہجے کے حامل ہیں، ان کو بس ہاں میں ہاں چاہیئے۔ یہ تمھاری حقیقت پسندانہ سوچ اور یہ تلخی کے رس میں گھولی ہوئی باتیں تم کو اور کیا دے سکتی ہیں؟؟
تمھیں بس چار گولی دو منٹ کی تڑپ اور چارے کندھوں کا سہارا کسی ویران گلی کے نکڑ پر صبح سویرے کوئی بچہ اسکول جاتے ہوئے واپس بھاگ کر گھر آئے گا اور باپ کا دامن کو پکڑ کر اسے اشاروں میں ہی سمجھا دے گا ابو ابو وہاں کوئی لاش پڑی ہے ذرا دیکھو تو کون ہے بیچارہ شہید!!!! لیکن میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ہم ابھی تک صبا دشتیاری کی داغِ مفارقت کو رو رہے ہیں، آپکی یہ سچی اور کھری باتیں ہماری سر آنکھوں پر مگر اس سماج میں رہ کر کیا کھری اور سچی باتیں کرنا کہ جہاں خون تھوکتے ہوئے جون ایلیا نے کہا تھا
نسبت ِ علم ہے بہت حاکم ِ وقت کو عزیز۔ اس نے تو کار ِ جہل بھی بے علماء نہیں کیا
مجھے یقین ہے اگر سارتر کو پتہ ہوتا کہ اس کا سابقہ ایک ایسے دشمن سے پڑا ہے کہ جس کا تہذیبی وراثت سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں اور کم ظرفی کا یہ عالم ہے کہ اس کے نمک سے لے کر خارجی و داخلی پالیسی واشنگٹن اور بیجنگ کے ایوانوں کے گرد گھومتی ہو تو وہ بھی ایک لمحے کو رکتے اور سوچتے کہ مجھے الجزائر کی ڈنکے کے چوٹ پر حمایت کرنے کی بجائے اس طرح سے حمایت یا مدد کرنا ہوگا تاکہ انہیں فائدہ ہوسکے
اب منٹو ہی لے لیں اس نے صرف یہ کہا کہ میں پستان کو پستان ہی لکھوں گا اور جانگیے کو جانگیا، وہ حرف انکار بلند کرتا تھا جو گلی سڑی معاشرتی قید و بند اس پر غیر اعلانیہ نافذ تھے وہ ان سے باغی ہوگیا انہوں نے تو کہا کہ آپ عورت کو چکلے پر ضرور بٹھائیں گے مگر اسے گدھا گاڑی نہیں چلانے دیتے، یہی وہ معاشرہ ہے جہاں معاشرتی پدرسری صرف معاشرت تک محدود نہیں بلکہ وہ پیداواری عمل میں بھی عورت کو اسکی حقوق دینے پر راضی نہیں۔
میرے محترم آپکو سمجھنا ہوگا کہ کالی شلوار کے نام پر کچھ اوراق سیاہ کرنے کے بعد منٹو کو کئی مہینوں تک عدالتوں میں بری طرح گھسیٹا گیا، وہ اسی ذلالت میں اس دنیا سے کوچ کر گئے، ان سے کیا امید رکھنا ویسے بھی آپ کو یاد تو ہوگا کچھ مارکس وادی 70کی دہائی میں بھی ہمارے دکھوں کے مداوا کرنے آئے تھے مگر آج وہ اسی مملکت کے ساتھ بیٹھ کر میرے زمین کی بہتر انداز میں استحصال کرنے کے واسطے حکمت عملیاں بنا رہے ہیں۔
چھوڑ دو مقبول سیاست کی گندگی کو اور ان راہوں کو تلاش کرو جہاں سے اس درد کا کچھ مداوا ہوسکے، وجاہت مسعود، عطاالحق قاسمی یا پھر ہارون رشید ان کو بس ذرا سی چنگاری کی ضرورت ہے، جن کے ہاتھ بندوق کے ٹریگر پر ہے وہ گولی داغ دے گا، اور جن کے ہاتھوں میں قلم ہے وہ تمھیں تمھارے غیر سنجیدہ پن، دریدہ دہنی اور کم مائیگی کا درس دیں گے۔
اگر ان دونوں کو کالونئیل نفسیات کے تحت پرکھیں تو فرانز فینن رہ رہ کے یاد آتے ہیں۔ بہرحال آخر میں آپ سے پھر گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ابھی تک محترم صبا دشتیاری کو رو رہے ہیں، باقی جہاں تک رہی میری شناخت کا مسئلہ تو شاید مجھے یہ تسلیم کرلینا چاہیئے کہ میں ڈر پوک ہوں یا پھر میری ذمہ داریوں نے مجھے ڈر کی اہمیت کا اندازہ لگانا سکھا دیا ہے۔