حسین حقانی
قوموں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو زیر بحث نہ لائیں اور بجائے اس کے انہیں آگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ امریکی پسند نہیں کرتے کہ ان کے غلامی کے دور کو زیر بحث لایا جائے یا ان کے آباو اجداد نے مقامی امریکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔برطانوی اپنے کالونیل دور کی زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ترک آج بھی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ عثمانی خلافت میں آرمینیوں کو قتل عام کیا گیا تھا۔
کچھ قومیں انتہائی غیر منطقی انداز میں اپنی شان و شوکت کا تذکرہ کرنا چاہتی ہیں جیسا کہ زیادہ تر پاکستانیوں کا اصرار ہے کہ ان کا ماضی اور حال نہایت شاندار ہیں۔
گوروں کی طرف سے امریکہ کے مقامی افراد پر ظلم و ستم ڈھانا یا کالوں کو غلام بنانا عام طور پر زیر بحث نہیں لایا جاتا لیکن اس کے متعلق مضامین لکھے جاتے ہیں، کتابیں شائع ہوتی ہیں اور فلمیں بنتی رہتی ہیں۔ برطانوی دانشوروں کی کولونیل ازم اور اس دوران ہونے والی زیادتیوں پر تحقیق نہ صرف چھپتی ہے بلکہ پڑھائی بھی جاتی ہے۔اور ان پر کبھی غداری کا لیبل نہیں لگتا۔
اپنے گریبان میں جھانکنا اپنی کمزوریوں اور خامیوں یا تاریخی غلطیوں کا جائزہ لینے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے غدار قراردے دیا جائے۔ جبکہ پاکستان میں ایسا سوچنے کی قطعاً اجازت نہیں اگر کوئی ایساکام کرے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستانی ریاست ایک لمبے عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنا مخصوص بیانیہ لوگوں پر ٹھونسے۔جو دانشور اور لکھاری یا اساتذہ اس سے اختلاف کر نے کی کوشش کرتا ہے انہیں لعن طعن کی جاتی ہے ۔ ہم مخصوص حقائق اور اس کی تشریح کے ذریعے اپنی قومی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے متبادل حقائق اور سوچ بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہے جسے عام طور پر پاکستان مخالف سوچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تاریخ اور تاریخی واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور حب الوطنی کو پرموٹ کرنا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس تناظر میں ہم ان باتوں پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں جو پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک پاکستانی ، پاکستان کے متعلق بری خبر سن کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔
ہم کرکٹ اور ہاکی کے میچ جیتنے پر خوشی مناتے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کسی بین الاقوامی جریدے میں ہماری ریاست پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے ۔ہم معاشی ترقی کے حکومتی دعوؤں کو دہراتے ہیں لیکن ایسے اعداد و شمار پر توجہ دینے کوتیار نہیں جو ان دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کنوئیں کا مینڈک۔ اگر ہم مثبت سوچیں تو سب ٹھیک ہے اگر غیر ملکی ماہرین کے ان تجزیوں کو زیر بحث لائیں جن میں ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہو تو ہمیں غصہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ دلیل کہ ہمیں پاکستان کی مثبت رائے کو فروغ دینا چاہیے درست ہے مگر کیا پہلے سے موجود بری رائے کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
سترہ دسمبر 1971 کو جب پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں بھارتی جنرل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالے تو اگلے دن کسی پاکستانی اخبار نے ہتھیار پھینکنے کی خبر نہ دی۔ ریڈیو پاکستان نے چار دن پہلے اعلان کیا تھا پاکستانی فوجی اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہاد یں گے مگر ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
جبکہ سرکاری طور پر 27 الفاظ کا ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ’’ تازہ رپورٹوں کے مطابق بھارت اور پاکستان کے کمانڈروں کے درمیان ایک مفاہمت طے پائی ہے جس کے مطابق مشرقی پاکستان میں لڑائی ختم کر دی گئی ہے اور بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہے‘‘۔
قوم یہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی کہ اس ملک کی آدھی آبادی اور آدھا حصہ ہمیشہ کے لیے گنوا دیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت ملک کی قسمت پر قابض حکمران بری خبریں بھی انتہائی اچھے انداز میں دے رہے تھے ۔ جب دوسرے معاملات میں لوگوں کو درست حقائق کا پتہ نہیں چل سکتا ۔ بری خبروں کو دور رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے قومی مورال اور عزت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
حقائق کا سامنے کرنے سے ہم اپنے ملک کی خدمت زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ قوموں کے مورال کو بلند رکھنا چاہیے لیکن اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کو منفی پراپیگنڈہ کہہ کر ریاست دشمن قرار دینا کسی طور درست نہیں۔ اس طرح کے رویوں سے کوئی بھی قوم اپنی اصلاح نہیں کر سکتی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والا ملک ہیں لیکن جی ڈی پی کی شرح انتہائی کم ہے۔ ہم دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی قوت ہیں اور آٹھویں بڑی فوج رکھتے ہیں جبکہ ہماری رینکنگ گلوبل فائر پاور میں سترویں اور ملک کے غیر فوجی اشاریے انتہا ئی کمزور ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ( صحت ، تعلیم اور معیار زندگی) میں پاکستان دنیا کے کل 187 ممالک میں146 ویں نمبر پر ہے ۔
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا پرائمری ایجوکیشن میں 144 ملکوں میں 134 واں نمبر ہے۔ ہائر ایجوکیشن میں144 ممالک میں سے 104 نمبر پر ہے۔ ڈی ایچ ایل گلوبل رابطے کے حوالے سے 140 میں سے 114 واں نمبر ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا دوسرے ممالک سے رابطہ بہت کمزور ہے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو بھی زیر بحث لائیں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔
♣
One Comment