بہت ہی اہم وقت پر وزیراعظم امریکہ سدھار رہے ہیں۔ خیر ہے بھی اور خیر نہیں بھی ہے۔ خاص طور پر افغانستان پر معاملات ایک نیا اور فیصلہ کن موڑ لینے جا رہے ہیں اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر گاجر بھی تیار ہے اور ڈنڈا بھی۔ رہی بات بھارت کی پاکستان میں مداخلت کی، تو امریکہ دو طرفہ دخل اندازی کے بند کئے جانے پر اصرار کر سکتا ہے۔ سفارت کاری باریک بین لین دین ہے۔ اس بار معاملات پر کھل کھلا کر بات ہونی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر دو اطراف سبھی معاملات پر سارے پتے نہ کھلیں اور ایک نیا مذاکراتی سلسلہ چل نکلے۔
نائن الیون کے بعد یہ کہنا غلط ہے کہ ایک فون پہ پاکستان امریکہ کے پائوں پڑ گیا تھا۔ زخمی بیل کے سامنے کھڑا ہونا کہاں کی عقلمندی ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے دوہرا کھیل دبا کے کھیلا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 50,000 سے زائد جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود اتحادی خوش نہیں تو اس کی بڑی وجہ وہ جانتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے تُرپ کے پتے ابھی بھی پاکستان کے پاس ہیں۔
پالیسی ساز چاہتے تو تھے کہ امریکہ افغانستان کا بوجھ اُٹھائے رکھے، لیکن کر کچھ اور رہے تھے۔ افغانستان، پاکستان کی پشت ہے اور کون ہے جو اسے نہتا چھوڑ سکتا ہے؟ مشرق (بھارت) سے خطرہ ہے، تو شمال مغرب (افغانستان) سے غفلت کیسے برتی جا سکتی تھی؟ یہ تھا لب لباب گزشتہ 13 برس کی حکمتِ عملی کا۔
ہمارے جیسے کم عقلوں کو حکمت کی اس گہرائی کا کیا پتہ ہو سکتا ہے۔جب صدر اوباما نے 2016 ءتک افغانستان سے تمام فوجیں نکالنے کا اعلان کیا تو ہمیں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ ختم ہونے پر تنہا افغان ملبہ اُٹھانے کی تلخ یاد نے آن ستایا۔ کہ ابھی پہلی افغان جنگ کے خمیازے ختم نہیں ہو پائے تو طالبان کے خلاف دوسری جنگ کا ملبہ بھی کہیں سارے کا سارا ہمارے سر نہ آن پڑے۔
بگڑتے حالات کو بھانپتے ہوئے، سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف ایک تاریخی حملہ کر دیا تاکہ امریکیوں کے جانے سے پہلے ہمارے سرحدی علاقے شورش سے پاک ہو جائیں۔ بعد از خرابیٔ بسیار، یہ ایک زبردست فیصلہ تھا جس کی قوم منتظر تھی۔ اپنی ہی زمین پر پائوں کمزور ہوں تو دوسرے کی زمین سے آنے والی آندھی کے سامنے کیسے کھڑا ہوا جا سکتا ہے؟
اب جبکہ صدر اوباما نے 2016ءمیں تمام فوجوں کو نکالنے کا فیصلہ بدل دیا ہے اور 9,500امریکی فوجیوں کو 2016ءتک اور اسکے بعد بھی 5,500فوجی رکھنے کا اعلان کیا ہے تو پالیسی سازوں کی پیشانی سے پریشانی کی چھایہ چھٹتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ افغانستان پھر سے غیرمستحکم نہ ہو جائے اور طالبان پھر سے قندوز میں ناکامی کے باوجود اور صوبوں پہ قابض نہ ہو جائیں۔ بڑا خطرہ افغان افواج کے بکھر جانے کا ہے جیسا کہ سوویت یونین کی بنائی سپاہ کیساتھ ہوا تھا۔
افغان ریاست بنتے بنتے نہیں بن پا رہی۔ پہلے سوویت یونین کے بنائے ریاستی ڈھانچے کی تباہی بڑی غلطی تھی اور اب تمام آزاد دُنیا کی مدد سے بنائی گئی ریاست کی توڑ پھوڑ اُس سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔ جس کا ازالہ کسی کیلئے ممکن نہ ہوگا۔ ہماری اپنی حالت ایسی اطمینان بخش نہیں کہ افغان ریاست پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ ہوش کے ناخن لینے میں ہی ہے عافیت۔
افغانستان پر وزیراعظم کے سامنے دو مطالبے رکھے جانے ہیں۔ پاکستان میں افغان طالبان کی مبینہ کمین گاہیں بند اور اُنہیں مذاکرات کی میز پر لا کر کسی قابلِ عمل سیاسی تصفیے پر راضی کیا جائے۔ مشکل اس میں یہ ہے کہ بیک وقت اُن کے خلاف بڑی کارروائی کرکے اُنہیں مذاکرات کی میز پر لانے پرکیسے راضی کیا جائے؟ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے: جنگ بندی، مذاکرات اور باہمی سیاسی تصفیہ۔ مصالحتی عمل کامیاب ہو جائے تو طالبان کا یہ مطالبہ کہ غیرملکی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں، پورا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کیلئے جیت کا راستہ ہوگا۔
مگر افغانستان کی دلدل سے بچ نکلنے کی تاریخ بہت ہی مایوس کن ہے۔ باہم جنگ پرآمادہ وحشی قبائل کو راہِ راست پر لانا کوئی آسان کام نہیں۔ اِس حوالے سے پھر سے امریکہ کو پاکستان کی بہت ضرورت ہے کہ وہ افغانستان سے مطمئن ہو کر سدھارے (اور طالبان بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ جائے) پاکستان، اگر امریکہ جو تعاون مانگ رہا ہے، دینے پر تیار ہو تو اس کے تین مُدوں پر امریکہ ہمنوائی پر شاید تیار ہوگا۔ یعنی افغانستان مستحکم ہو اور دوست ہمسایہ رہے۔ پاک مخالف دہشت گردوں کو وہاں پناہ نہ ملے اور وہاں بھارت پاکستان کی سلامتی کے خلاف قدم نہ جما پائے۔
امریکہ اس بار پاکستان کے جوہری پروگرام پر بڑے سوال پوچھنے والا ہے اور وزیراعظم بھی مطالبوں کی فہرست لے کر جا رہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی سلامتی و حفاظت پر تو دونوں ملک تعاون پر راضی ہی ہیں۔ امریکہ اب اس پر بھی کچھ کچھ راغب لگتا ہے کہ کسی طرح پاکستان جوہری عالمی دائرے میں آ جائے۔
ہماری خواہشات کی بھی بڑی فہرست ہے کہ پاکستان کیساتھ بھی امریکہ بھارت جوہری معاہدے کی طرز پر معاہدہ کیا جائے، ہمیں جوہری رسدکاروں کے گروپ میں شامل کیا جائے اور پُرامن جوہری پروگرام میں اعانت کی جائے۔ پاکستان اب بھارت کے کولڈاسٹارٹ کے نظریہ، روایتی ہتھیاروں میں عدم توازن اور سہ طرفہ زمینی، فضائی اور بحری جوہری استعداد کے جواب میں محدود اسٹریٹیجک روک سے ہمہ طرفہ جوہری روک کی جانب بڑھ چکا ہے۔
اس میں بھارت اور مغربی دُنیا کیلئے چبھن کا باعث وہ تدبیری جوہری ہتھیار ہیں جو تھوڑے فاصلے (60کلومیٹر) پر نصر میزائل کے ذریعے چلتی گاڑی پہ نصب دونالی لانچز سے داغے جا سکتے ہیں۔ جس سوال کا ہمیں دُنیا کو جواب دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا اب ہم روایتی جنگ کے توڑ کیلئے تدبیری جوہری ہتھیار میدان میں اُتاریں گے اور اس کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا ہمارا جوہری اسلحہ اب بھارتی خطرے کو روکنے سے بھی آگے تو نہیں پھیل رہا؟ اس بارے میں مغرب میں بہت شور ہے کہ دس پندرہ برس میں پاکستان تیسری بڑی جوہری قوت بن سکتا ہے۔
دُنیا میں یہ تنقید بھی عام ہے کہ بھارت کا جوہری نظریہ واضح نہیں ہے اور پاکستان کا جوہری پروگرام تو ہے ہی بھارت کا ردِعمل۔ خوش قسمتی سے یہ جوہری پروگرام کو دُنیا سے قبول کروانے کا بہترین وقت ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو محفوظ حدود میں منوا کر ہم مستقبل میں ان خطرات سے بچ سکتے ہیں جس کا سامنا ایران کو کرنا پڑا۔ دُنیا نے اسرائیل اور بھارت کے جوہری پروگرام سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ نظر ہے تو پاکستان کے جوہری پروگرام پر۔
راقم کا دل و دماغ تو دُنیا بھر کے جوہری اسلحہ کے خلاف ہے اور اسے جنگ کا ہتھیار سمجھنا انسان دشمنی ہی نہیں، خرد دشمنی بھی ہے۔ برصغیر میں جوہری اسلحہ چلا تو کچھ نہ بچے گا۔ نہ فاتح نہ مفتوح، نہ لوگ اور نہ زمین۔ یہاں تو جوہری قیامت کی آفت ٹوٹ پڑنے کا وقت بھی چند منٹ سے زیادہ نہیں۔ یہ معاملہ بہت سنجیدگی کا حامل ہے۔ پاکستان کو سلامتی چاہئے اور جنوبی ایشیا کو بھی۔ اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
وزیراعظم بھارتی مداخلت کے خلاف ایک بڑا کیس لے کر واشنگٹن جا رہے ہیں اور سنا ہے چوہدری نثار صاحب نے خوب ہوم ورک کر لیا ہے۔ صدر اوباما ہماری بھارتی مداخلت و دہشت گردی کے ثبوتوں کے جواب میں ہمارے خلاف شواہد بھی پیش کرنیوالے ہیں۔ اور بات وہیں پہنچے گی جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی کی دہشت گردی کے بعد ٹوٹی تھی۔
جوہری ہتھیار ہوں، یا دہشت گردی یا کشمیر اور ایک درمیانے سائز کے ملک کو ایک بڑے ہمسایہ ملک سے امکانی خطرہ، معاملات دو طرفہ بات چیت سے ہی طے کئے جانے ہیں۔ اور یہ صدر اوباما بھی کہنے والے ہیں۔ دہشت گردی کے معاملے میں اب بھارت ہم پلہ ہے تو کیوں نہ دونوں ملک اس پر قابو پانے کی کوشش کریں اور یقیناً امریکہ، چین اور روس اس کیلئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں اور پاکستان اپنی ترقی اور دہشت گردی سے خلاصی کی جدوجہد میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اُسے پاکستان سے معاملات طے کرنا ہوں گے، زیادہ گرم و سرد نظریے بگھارنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز امریکہ کی خاتونِ اول کی مہمان ہوں گی تاکہ دونوں خواتین کی تعلیم و صحت کے مسائل کے حل میں ہاتھ بٹا سکیں۔ وزیراعظم خیر سے سدھاریں اور خیر لے کر آئیں، اِسی میں سب کی بھلائی ہے اور اس سے بہتر وقت پھر شاید ہی آئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ، لاہور