طفیل احمد
ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک مشتعل ہجوم نے محمد اخلاق نامی شخص کو اس لیے مار مار کر ہلاک کر دیا کہ اس پر الزام تھا کہ اس نے گائے ذبح کرکے اس کا گوشت کھایا ہے۔
سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کوئی نام و نشان نہیں تھا لیکن وہاں گائے ذبح کرنے پر پابندی تھی اور اس وقت بھی گائے کے گوشت پر جھگڑے ہوتے تھے اور پولیس گھروں کو چیک کرتی تھی۔
گائے کے گوشت کا مسئلہ ہندوستان میں کوئی نیا نہیں۔ مسلم دنیا میں گائے کہیں بھی ذبح نہیں کی جاتی لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے گائے ذبح کرنا اس لیے شروع ہوا تاکہ ہندوؤں کی توہین کی جا سکے کیونکہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔
فکر نو (نئی سوچ) پاکستانی مارکسسٹوں کا ایک میگزین ہے جس کے ایک شمارے میں گائے کے ذبیحہ سے متعلق تاریخ بیان کی گئی ہے۔ سولہویں صدی میں جب بی جے پی یا آر ایس ایس کا کوئی وجود نہیں تھا تو شہنشاہ اکبر نے گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ لیکن اس وقت کے مسلمان عالم شیخ احمد سرہندی نے مغل بادشاہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ آخر مسلمان بادشاہ کی حکومت میں مسلمان گائے ذبح کیوں نہیں کر سکتے۔
اکبر چونکہ ہندو اکثریت کے مذہبی جذبات کا احترام کرتا تھا جبکہ شیخ احمد سرہندی بطور مسلمان دوسرے مذاہب کے مذہبی جذبات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ مسلمان تو دوسرے مذاہب کے مذہبی رسوم کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔فکر نو کے مطابق پاکستان میں آج جہاں بھی گائے ذبح کی جاتی ہے اس کا رواج 1947 کے بعد ہندوستانی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے ڈالا ہے۔
دادری کا واقعہ اترپردیش (یوپی) کے ایک علاقے میں پیش آیا جہاں اکھیلش یادو کی سوشلسٹ نظریات رکھنے والی جماعت برسر اقتدار ہے۔ ہمارے سیکولر دانشوروں نے اکھلیش یادو کو تنقید کا نشانہ بنانے یا اسے مجرموں کے خلاف سخت کاروائی اور انہیں عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنا غصہ مودی پر نکالنا شروع کر دیا۔
یکم اکتوبر کو بھارت کی نامور لکھاری شوبھا ڈی نے ٹویٹ کیا ’’ میں نے گوشت کھایا ہے آؤ اور مجھے مار دو‘‘۔ بائیں بازو اور آج کل لبرل لکھاری پرتاپ بھانو مہتہ ( پی بی مہتہ) نے تین اکتوبر کو اپنے کالم میں اکھلیش یادو کی سوشلسٹ حکومت کو مجرموں کے خلاف کاروائی کرنے کے مطالبے کی بجائے مودی کو نشانہ بنایا۔
میرے نزدیک کنزرویٹو سماجی حقیقتوں کا زمینی حقائق کے مطابق جائزہ لیتے ہیں جبکہ لبرل سماجی حقیقتوں کو اپنے نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ لندن کے بائیں بازو کے میگزین نیو سٹیٹسمین کے ایڈیٹر جان لائڈ نے لکھا تھا ’’ لبرل لوگوں کو کہتے ہیں تمہار ے تجربے کی کوئی اہمیت نہیں صرف پہلے سے طے شدہ طریقوں پر چلو‘‘۔
ُآج ہندوستان کو جس انتہا پسندی کا سامنا ہے اس میں پی بی مہتہ اور شوبھا ڈی جیسے جیسے سیکولر اور نام نہاد لبرل لوگوں کی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ 80 کی دہائی میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بھارتی مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے تھے تو آپ اس کی حمایت کر رہے تھے۔ مسٹر مہتہ آپ کے قبیلے نے شاہ بانو کیس میں مسلمانوں کے مطالبات کو تسلیم کیا جس میں عورت کا کردار ایک لونڈی کا سا ہے۔ ایودھیا کے تالے کھلوائے، اور سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات پر پابندی لگوائی۔ ابھی 2012 میں کانگریس کی’’ سیکولر‘‘ حکومت نے سلمان رشدی کو مسلمانوں کے احتجاج پر جے پور لٹریری فیسٹیول میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔ اس وقت آپ کے جذبات مجروح کیوں نہیں ہوئے تھے ۔
آپ کے سیکولر رہنما’’ گاندھی‘‘ نے علی برادران کے ساتھ مل کر خلافت تحریک کی حمایت کی جو سراسر مذہبی انتہا پسندی کی تحریک تھی جو 1947 میں ہندوستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔خلافت تحریک کا جدید ایڈیشن آج کل دولت اسلامیہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کی قیادت ابوبکر البغدادی کررہا ہے۔جب بھارتی مسلمان نوجوانوں کی بڑی تعداد آئی ایس آئی کی طرف راغب ہورہی ہے لیکن آ پ جیسے لبرل اور سیکولر لکھاری اس مسئلے پر بات نہیں کرتے۔لیکن جب ماؤسٹ دہشت گردوں کو پکڑا جاتا ہے تو انڈیا کے قوانیں ڈریکونین بن جاتے ہیں۔
سٹالن نے اپنی آئیڈیالوجی کے لیے دو کروڑ لوگوں کو مروادیا۔ ماؤ نے اپنے اقتدار کو قائم کرنے کے لیے ساڑھے چھ کروڑ لوگوں کا نذرانہ دیا۔ لیکن کوئی سیکولر یا لبرل اس کا ماتم نہیں کرتا۔ امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا تو پوری دنیا کے لیفٹسٹ جاگ گئے اور نام نہاد اینٹی وار بینر تلے مظاہرے شروع کردیئے اور جب سعودی عرب یمن پربمباری کرتا ہے تو ان کا ضمیر چین کی نیند سوتا ہے۔فلسطینی اسرائیل میں خود کش حملے کریں تو خاموشی اور اگر اسرائیلی فوج کسی کو گولی مار کر زخمی کردے تو لیفٹیسٹ پوری دنیا میں شورو غوغا شروع کر دیتے ہیں۔
سیکولر لکھاری اور صحافی دادری میں قتل ہونے والے محمد اخلاق کی موت پر تو ماتم کررہے ہیں لیکن انہیں اگست میں قتل ہونے والے فوجی جوان ودمترا چوہدری کا قتل بھول گیا جو وہ میرٹھ میں ایک لڑکی کو غنڈوں سے بچاتے ہوئے مارا گیا۔ مارچ میں ایک ہندو شخص کو حاجی پور، بہار میں اغوا کرکے ماردیا گیا کیونکہ اس نے مسلمان لڑکی سے شادی کی تھی۔ جو ن میں آندھرا پردیش میں ایک شخص کو ہجوم نے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ جون میں ہی ممبئی میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو قتل کر دیا ۔ بھارتی سیکولر اور لبرل دانشور اصل میں کلر بلائنڈ ہیں اگر کسی مسلمان کو مارا جائے تو انہیں سیکولر ازم خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔
غلام علی کا شو منسوخ ہونے پر شور و غوغا ہے ۔ کجریوال اور اکھیلیش یادو نے انہیں دہلی اور لکھنو میں شو کرنے کی آفر کی ۔لیکن جب 13 ستمبر کو دہلی میں آسکر انعام یافتہ موسیقار اے آر رحمن کا شو، بریلوی گروپ رضا اکیڈمی کی طرف سے جاری کردہ فتوے پر منسوخ کیا گیا تو آپ میں سے کوئی نہ بولا۔ نہ ہی کجریوال اور نہ ہی اکھلیش یادو نے انہیں اپنے ہاں کنسرٹ کی دعوت دی۔
آپ کا سیکولر ازم بھارتی مسلمان گلوکاروں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح وہ سلمان رشدی کو بھی پسند نہیں کرتا۔ بنگال کی سیکولر لیڈر ممتا بنر جی نے بھی غلام علی کی حمایت میں بیان دیا کہ موسیقی کی کوئی سرحد یں نہیں ہوتیں لیکن وہ تسلیمہ نسرین کی مسلمان انتہا پسندوں کی طرف سے مخالفت پر تحفظ نہیں دے سکتیں۔
انڈین سیکولر وکلاء ایک دہشت گرد یعقوب میمن کو پھانسی سے بچانے کے لیے آدھی رات کو سپریم کورٹ کے باہر جمع ہو گئے لیکن بے شمار بے گناہوں کی سزائے موت پر خاموش رہتے ہیں۔ یکم اکتوبر کو جب شوبھا ڈی نے ٹوئٹ کیا کہ میں نے گائے کا گوشت کھایا ہے آؤ اور مجھے قتل کرو ‘‘ کیا ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ دہلی میں حضرت محمدؐ کے خاکے بنائے؟
چار اکتوبر کو سیکولر جرنلسٹ ساگاریکا گوس نے لکھا’’ بھارتی شہریو ہمیں’’ چارلی ہم تمھار ساتھ ہیں‘‘ جیسی مہم چلانی چاہیے اپنا سر بلندکرو اور کہو ’’ میں گائے کا گوشت کھاتا ہوں‘‘ سوال یہ ہے کہ یہ سیکولر دانشور ، لکھاری اور صحافی دہلی کی جامعہ مسجد کے باہر چارلی جیسے کارٹون بنا ئیں گے؟
مسئلہ بیف یا کارٹون کا نہیں مسئلہ ان نام نہاد سیکولر لکھاریوں کے دہرے معیار کا ہے ۔ سیکولر این ڈی ٹی وی کہتا ہے کہ’’ ہمیں ٹائیگر بچانے ہیں ‘‘لیکن کیا وہ ’’ ہم نے گائے کو بچانا ہے ‘‘ کی مہم چلائے گا۔ بھارت ایک عظیم قوم ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ بالی ووڈ کے اداکار عامر خان نے فلم ’’پی کے‘‘ بنائی جس میں ہندوؤں کے ایک خدا’’شیوا‘‘ کو باتھ روم میں بند دکھایا گیا ہے جس پر اسے دھمکیاں ملیں جس کی مذمت کی گئی لیکن کیا عامر خان حضرت محمدؐ پر فلم بنا سکتا ہے؟
شیو سینا مودی کے دور میں ہی فعال نہیں ہوا یہ اس سے پہلے بھی تھا۔ بال ٹھاکرے ہر دور میں پاکستانی اداکاروں اور کھلاڑیوں کو دھمکیاں دیتا تھا۔ کانگریس کے دور میں بھی ایسی ہی دھمکیاں دی جاتی تھیں جیسا کہ مودی کے دور میں دی جارہی ہیں۔ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے مگر اس کا ذمہ دار مودی نہیں ہے۔
انڈیا میں سیکولر اور لبرل لکھاریوں اور انگریزی اخبارات کے نیوز روم سے فاشزم برآمد ہو رہا ہے ۔ان کی اکثریت پوش اپارٹمنٹس میں نہایت آرام دہ زندگی گذار رہی ہے ۔ ان کی بیگمات اخبارات کی ایڈیٹر ہیں۔ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ مودی کی پہلی ترجیح ٹوائلٹ کی تعمیر ہے تاکہ ہماری سڑکیں صاف رہ سکیں۔ وہ ٹیکنیکل تعلیم کو فروغ دے رہا ہے تاکہ لوگوں کو باعزت روزگار مل سکے۔انہیں بنیادی اور لمبی مدت کے منصوبے نظر نہیں آتے۔
انڈیا کے آئین اور جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے دلت کی حفاظت کی اور لاکھوں کی تعداد میں دلتوں کو معاشرے میں باعزت مقام پر فائز کیا لیکن سیکولر لیفٹسٹ نے ہمیشہ انہیں نظر انداز کیا اور اسے مارکسزم کا زہر پلایا۔ کئی سالوں سے انڈین لیفٹ نے دلتوں کو لیڈر شپ کا اہل ہی نہیں سمجھا۔ عام طور پر برہمن ہی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔
دانشورانہ بددیانتی کی انتہا یہ ہے جب عورتوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو ان کے مارکسی اصول الٹ جاتے ہیں کہ’’ معیشت انفراسٹرکچر ہے اور آئیڈیاز سماج کا سپر سٹرکچرہیں‘‘۔ آپ اس اصول کے تحت ذات پات سے انکار کر دیتے ہیں اور دلتوں کو لیفٹیسٹ جماعتوں میں کوئی قابل ذکر عہد ہ نہیں ملتا۔ لیکن اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کا معاملا ہو تو یہ اصول الٹ جاتا ہے اور انہیں اچھے عہدوں پر فائز کر دیتے ہیں۔
♣
http://indiafacts.co.in/indian-secularism-is-colour-blind-2/
http://indiafacts.co.in/indias-thought-cops-are-angry-with-modi/
One Comment