جرمنی سے مکتوب: عرفان احمدخان
فرینکفرٹ میں ہرسال اکتوبر میں کتابوں کی عالمی نمائش منعقدہوتی ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا کتابوں کا میلہ کہا جا سکتا ہے۔ جرمن پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ ہے جس کا ایک صنعتی یونٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ اس ادارے نے کتابی میلوں کا آغاز فرینکفرٹ سے کیا تھا لیکن اب سال بھر میں بیس ممالک میں کتابی میلے باقاعدگی سے منعقد کیے جاتے ہیں ، فرینکفرٹ میں چودہ سے اٹھارہ اکتوبر تک جاری رہنے والی اس نمائش میں دنیا کے 104 ممالک سے سات ہزار ایک سو پبلشرز نے حصہ لیا۔
پہلے تین روز صرف بک سیلرز کے لیے مخصوص تھے ۔ ہفتہ اتوار کو نمائش سے افادہ عام کی اجازت تھی لیکن اس کے لیے داخلہ ٹکٹ 18 یورو خریدنا ضروری تھا۔ طالب علموں کے لیے ٹکٹ 12 یورو اور فیملی کے لیے 44 یورو تھا۔ ٹکٹ مہنگا ہونے کے باوجود تقریباً تین لاکھ افراد نے میلے کا وزٹ کیا۔ پہلے تین روز میں ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب دکانداروںں نے نمائش کو وزٹ کرکے اپنے آرڈر بک کروائے۔ دنیا بھر سے دس ہزار صحافی کتابی میلے کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ کتاب کی دنیا کے لوگوں کے لیے اکتوبر کے یہ پانچ دن ایک جشن کا سماں ہوتا ہے ۔ فئیر گراؤنڈ میں موجود دس بڑے بڑے دیو آدم ہالز کے علاوہ میدانوں میں بھی کتابوں سے متعلق علیحدہ علیحدہ پروگرام چل رہے تھے۔ جن کو دیکھ کر تھکے دماغوں کو تازگی کا احساس ہوتا تھا۔
ہر دس قدم پر پرانی کتابوں کو فروخت کرنے والے بھی اپنی منڈی سجائے نظر آتے تھے جن کی ان پانچ دنوں میں چاندنی ہو جاتی ہے۔ 48 ممالک کے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی میٹنگز کے علاوہ پبلشروں کے ساتھ پانچ ہزار ملاقاتیں کیں۔۔جرمن پبلشرز ایسوسی ایشن نے تیرہ ممالک سے 150ماہرین کو مدعو کر رکھا تھا جنہوں نے انٹرنیشنل پبلشنگ میں ہونے والی ڈویلپمنٹ پر اپنی ماہرانہ رائے دی۔ ایمازون پبلشر نے کتابوں کے تراجم کے لیے دس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ۔ گذشتہ دو سال میں ایمازون نے 18 زبانوں میں دو سو موضوعات پر لکھی جانے والی کتب کے تراجم کروا کر شائع کیے ہیں۔
کتاب میلے کا افتتاح تیرہ اکتوبر کو سلمان رشدی نے کیا جس کی بنا پر ایران نے بک فئیر کا بائیکاٹ کیا۔حکومتی فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے ایرانی پبلشرز نے بکنگ کروانے کے باجود سٹال نہ لگانے کو فیصلہ کیا۔
سنہ 1976 سے جرمن پبلشرز ایسوسی ایشن ہر سال کسی نہ کسی ملک کو خصوصی درجہ دے کر اس ملک کے پبلشرز کو خاص اہمیت دیتی ہے ۔ اس ملک کی حکومت بھی اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی ملک کی پبلسٹی کا خاص بندوبست کرتی ہے۔ امسال یہ درجہ انڈونیشیا کو حاصل تھا۔ اس نے بک فئیر سے ایک ماہ قبل ہی پورے جرمنی میں انڈونیشیا سے متعلق پانچ سو سیمینار منعقد کیے۔ سترہ ہزار جزائر پر مشتمل آبادی کی ثقافت، خوراک، سائنس، فکشن ، علاقائی ڈانس، رہن سہن سے اہل جرمنی کو متعارف کرایا۔ ان کے سٹال پر آنے والا اپنے آپ کو انڈونیشیا میں گھومتا ہوا پاتا تھا۔ انڈونیشیا کے وفد کے سربراہ پویلین میں آنے والوں کو انڈونیشیا سے متعلق بریف بھی کررہے تھے۔
بک فئیر میں 180 پبلشرز نے 850 انڈونیشین موضوعات پر کتب پیش کیں ۔ 71جرمن پبلشرز نے 142انڈونیشی کتابیں جرمن زبان میں شائع کیں۔38 کتابیں انڈونیشیا کی تاریخ اور سیاست سے متعلق تھیں جبکہ باقی ٹریول گائیڈز، آرٹ اور کھانوں سے متعلق تھیں۔ سہارتو دور پر تنقیدی جائزہ ، حقوق انسانی کی پامالی ، بالی عورتوں کی چار نسلوں کی تاریخ کے علاوہ بے شمار دلچسپ کتب موجود تھیں۔ سابق صدر حبیبی نے اپنی سوانح عمری کی تقریب رونمائی اسی میلے میں کی۔
انڈونیشیا سے شائع ہونے والے اخبارات کی کاپیاں اور ٹی وی چینلز سے متعلق معلومات پویلین کا حصہ بنیں۔ پندرہ انڈونیشی بٹلر پویلین میں آنے والوں کو تازہ کھانے بنا کر چکھا رہے تھے۔ انڈونیشیا کے وزیر ثقافت ہمہ وقت گفتگو کے لیے موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ بک فئیر نے ہمارے لیے گیٹ وے کا کام کیا ہے۔
انڈونیشیا 1600ء سے 1943ء تک ہالینڈ کی کالونی تھا ۔ اس حوالے سے ہر روز شام کو ایک سیمینار منعقد ہوتا جس میں انڈونیشیا اور ہالینڈ کے تاریخ دان اور ادیب اس حوالے سے گفتگو کرتے اور سوالات کے جواب دیتے۔ انڈونیشیا میں سالانہ 48.1 ملین یورو کی کتب فروخت ہوتی ہیں ۔گذشتہ سال چالیس ہزار موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں کی کل تعداد 34 کروڑ کے قریب تھی۔ ملک میں ایک ہزار تین سو پبلشنگ ادارے ہیں تین لاکھ دو ہزار لائبریریاں لوگوں کے استفادے کے لیے موجود ہیں ۔
انڈونیشیا کی شرح خواندگی 93فیصد ہے ۔ انڈونیشیا میں 2003 سے تعلیم کو بہت اہمیت دی جارہی ہے ۔ قومی بجٹ کا بیس فیصد تعلیم پر خرچ ہو تا ہے۔90 ملین کی آبادی میں پچاس فیصد افراد 32 سال سے کم عمر کے ہیں۔ مسلم دنیا کا تیس فیصد انڈونیشیا میں رہ رہا ہے ۔عوام میں اسلام سے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اسلامک کتب شائع کرنے والے اداروں کی تعداد گذشتہ چند سالوں میں بڑھ کرسو سے زیادہ ہو چکی ہے۔ 63 ملین انڈونیشی سوشل میڈیا میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ آبادی کا 45 فیصد مطالعہ اور تعلیمی ضروریات کے لیے الیکٹرانک سہولیات کو استفادہ کرتی ہے۔
اس عالمی میلے میں مختلف انعامات بھی دیئے جاتے ہیں ۔ یورپین بک سیلر فیڈریشن، یورپین رائٹرز کونسل اور فیڈریشن برائے یورپین پبلشرز نے مل کر’’ کری ایٹو یورپ‘‘ کے نام سے یورپین کلچر پر لکھی جانے والی کتاب کے لیے تیس ہزار یورو کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ امسال 37 ممالک سے 84 کتب جیوری کے سامنے پیش ہوئیں جن میں سے 12 کتب کو انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ ان میں جرمن ادیب شامل نہ تھا۔
آسٹریا کی خاتون ادیبہ کیرولین شوتی یورپ کی بہترین مصنفہ برائے 2015 قرار پائیں۔ انہوں نے جرمن فلاسفی میں ڈاکٹریٹ کرنے کے علاوہ انگلش اور امریکن سٹڈیز میں بھی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ یہ انعام 2009 میں شروع ہوا تھا۔
ایک انعام جرمن پبلشرز ایسوسی ایشن بھی دیتی ہے جس کی مالیت 25 ہزار یورو ہے۔ یہ صرف جرمن ادیبوں کے لیے ہے۔ پہلے مرحلے میں بیس ناول ، سات افراد کی جیوری کے سامنے پیش کیے گئے جن میں چھ انعام کے حقدار ٹھہرے۔فرینک فٹزل کا ناول ریڈ آرمی فنکشن کو 2015 کے بہترین ناول کا ایوارڈ ملا۔باقی پانچ ناول نگاروں کو 2500 یورو فی کس انعام میں دیئے گئے۔
سب سے زیادہ شہرت کا حامل انعام برائے امن ہے جو 1949 سے دیا جارہا ہے، اس کی مالیت بھی 25000 یورو ہے ۔ یہ انعام ایرانی نثراد جرمن ادیب نوید کرمانی کو دیا گیا۔نوید کرمانی 1967 میں جرمنی میں پید ا ہوئے تھے۔ امن کے حوالے سے ان کی لکھی گئی کتب کو بہت شہرت ملی ۔ 2009 سے2014تک اس کو چھ انعام مل چکے ہیں اور انعام برائے امن ساتواں انعام ہے جو ایک ہزار مہمانوں کی موجودگی میں جرمن پارلیمنٹ کے صدر نے نوید کرمانی کو دیا۔ کرمانی نے اپنی تقریر کے آخر میں دعا کروائی تو ایک ہزارسامعین احتراماً کھڑے ہوگئے۔