لیاقت علی ایڈووکیٹ
مسلمانوں کی تجارت پیشہ برادریوں میں اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف فرقے (بر صغیر کے تناظر میں بوہرے اور آغا خانی )اپنے مخصو ص دینی عقائد، منفرد سماجی تنظیم،رواداری اور معاشی ومعاشرتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے کے باعث خصوصی مطالعہ کے مستحق ہیں۔اسماعیلی کمیونٹی زیادہ تر جنوبی ایشیا ،شام،سعودی عرب، یمن ، چین، تاجکستان ،افغانستان اور مشرقی افریقہ میں رہتی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں سے اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کاروبار اور روزگارکی تلاش میںیورپ اور شمالی امریکہ میں بھی بس گئے ہیں ۔حتمی طور پر تو نہیں کہا جاسکتا کہ دنیا بھر میں اسماعیلیوں کی کل کتنی تعداد ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق دنیا کے چالیس سے زائد ممالک میں موجود اسماعیلیوں کی تعداد ڈیڑھ سے دوکروڑ نفوس پر مشتمل ہے ۔
پاکستان میں اسماعیلی کمیونٹی (جو دادؤی بوہروں اورنزاری آغا خانی خوجوں میں منقسم ہے ) کی کل کتنی آبادی ہے اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ خودکمیونٹی کی طرف سے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کئے جاتے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسماعیلی پاکستان کی کل آبادی کا چھ فی صد ہیں جب کہ اس تعداد سے اختلاف رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی چھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔اس کمیونٹی کی اکثریت تجارت ، صنعت، بینکنگ، انشورنس، میڈیسن اورسیاحت کے علاوہ معاشی زندگی کے متعدد شعبوں سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبوں میں اسماعیلیوں کاحصہ اپنی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے ۔
اسماعیلی تحریک کی ابتدا، ارتقا اور اس کے پھیلاؤکے بارے میں ایک سے زائدنقطہ ہائے نظر ہیں ۔وہ محقق اور مورخ جو تاریخ کے سازشی نظریے پر یقین رکھتے اور اسلام کو خالص عربی روایات میں محدود دیکھنا چاہتے ہیں اسماعیلی تحریک کو’ ’اصل اسلام ‘‘ کے خلاف’ ’ عجمی سازش‘‘قرار دیتے ہیں لیکن محققین کا وہ گروہ جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی تال میل سے مذہب پر مرتب ہونے والے اثرات کو ایک بدیہی حقیقت سمجھتا ہے اسماعیلی تحریک کو جزیرہ نما عرب سے باہرشمال اور جنوب مغربی افریقہ، ایران ،وسطی ایشیا اور ایشیا کوچک کے ممالک میں اسلام کے پھیلاؤ کا لازمی نتیجہ خیال کرتا ہے ۔
مسلمان عربوں کے ہاتھوں مفتوح ہونے کے بعد چند ہی عشروں میں ان خطوں کے عوام نے سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی وجوہات کی بنا پر جوق در جوق اسلام قبول کرلیا تھا۔ تاہم قبول اسلام کے اس عمومی رحجان کے برعکس بعض صورتوں میں تبدیلی مذہب کایہ عمل تقریباً ایک صدی تک جاری رہا ۔
نسلی اور ثقافتی اعتبار سے متنوع قبائل اور گروہوں کے قبول اسلام نے کثیر الجہتی سیاسی چیلنجوں اور فکری رحجانات کو جنم دیا۔ متنوع ثقافتوں اور نسلوں کے باہمی اختلاط اور اقتدار کے حصول کی کشمکش کے نتیجے میں مسلمانوں میں جو اختلافات پیدا ہوئے ان کی نوعیت محض فرقہ ورانہ نہیں تھی بلکہ ان اختلافات کے پس پشت سماجی ،سیاسی ،ثقافتی اور معاشی عوامل کارفرما تھے کیونکہ یہ عوامل سیاسی خیالات اورفلسفیانہ نظریات کی تشکیل اور ترویج میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لئے ان کا تجزیہ کئے بغیر معروضی نتائج مرتب کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اس عہد میں سیاسی اختلاف کا اظہار چونکہ مذہبی محاورے میں ہوتا تھا اس لئے اس دور میں سیاسی اور نظریاتی اختلاف کی بدولت ایسے متعدد فرقے پیدا ہوگئے تھے جو باہمی اختلافات کے اظہار کے لئے مذہبی عقائد کاسہارا لیتے تھے ۔ اس صورت حال کو ایک یورپین مورخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو شخص موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی قیادت کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے وہ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ مشرق میں ایسے اشخاص اپنی سیاسی خواہشات اور مقاصد کو مذہبی جذبات میں تبدیل کرکے نئے نئے فرقے اور مذاہب قائم کرلیتے ہیں ۔
مسلمانوں میں سب سے پہلا اور اہم ترین اختلاف جو پیدا ہوا وہ مسئلہ خلافت تھا ۔اس اختلاف کے نتائج مسلمانوں کے لئے نہایت دیرپا اور اور مہلک ثابت ہوئے ۔ ابھی حضرت محمد صلعم کا جسد مبارک قبر میں استراحت بھی کرنے نہ پایا تھا کہ مسلمان ان کی جانشینی کے لیے آپس میں مناقشہ کرنے لگے ۔لیکن اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ جانشینی کا تعین ایک ناگزیر سوال تھا کیونکہ اسلام کے حوالے سے ایک ابتدائی ریاست قائم ہوچکی تھی اور یہ ناممکن تھا کہ اس ریاست کو بغیر رہنمائی اور محافظت کے چھوڑ دیا جائے ۔
حالات کا اقتضا تو یہ تھا کہ مسلمان اس مسئلے کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرلیتے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اورخلافت کا جو تصفیہ ہوا اس پر تمام مسلمان متفق نہ ہو سکے ۔ابتدائی طور پر تو اس اختلاف نے کوئی ناگوار صورت اختیار نہیں کی لیکن بعد میں یہ مسلمانوں کے انتشار اور خانہ جنگی کا موجب ہو گیا ۔حضرت محمد ؐ کی جانشینی سے پیدا ہونے والا یہ سیاسی اختلاف رفتہ رفتہ مذہب میں جگہ پا گیا اور معتقدات کی ذیل میں شمار ہونے لگا۔
خلیفہ کی تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والے اس اختلاف کے نتیجے میں مسلمان دو فرقوں سنی اور شیعہ میں منقسم ہوگئے لیکن یہ پیش آمدہ واقعات کی محض سادہ توجیح ہے۔ تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس سے مطمئن نہیں ہوگا اور اسلامی تاریخ کے اس پہلے اختلاف کے پس پشت جو سیاسی اور معاشی عوامل کارفر ماتھے ان کی چھان بین کرنا ضروی سمجھے گا ۔ ان محرکات کے بارے میں تحقیق کرنے کاقطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعات کی ترتیب و تشکیل میں مذہبی عقیدے کی اہمیت کو کم یا نظر انداز کیا جائے ۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم جسے روحانی یا مذہبی مظہر خیال کرتے ہیں اس کے پس پشت بھی سماجی اور معاشی عوامل مصروف کار ہوتے ہیں اور ان عوامل سے صرف نظر کرکے کسی سیاسی اور مذہبی مظہر کی درست تفہیم اور ادراک ممکن نہیں ہے ۔
مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والی اس پہلی نظریاتی تفریق اور ان کی سیاسی زندگی میں آئندہ آنے والے تغیرات کے سیاسی اور سماجی پہلووں کی درست تفہیم کے لئے ان کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے ۔جہاں تک اسماعیلی تحریک کا تعلق ہے اس کوبھی ہم اسی وقت ہی درست طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم اس کی ابتدا،ارتقا اور پھیلاؤ کے پس پشت معاشی ،سماجی اور سیاسی محرکات کو پیش نظر رکھیں بصورت دیگر ہم فرقہ ورایت کی بھول بھلیوں میں کھو جائیں گے ۔
ٹائن بی شیعوں کو اسلام کا بیرونی اور خوارج کو اندورنی پرولتاریہ قرار دیتا ہے ۔ شیعہ زیادہ تر غیر عرب (ایرانی) جبکہ خوارج عرب نژاد بدو تھے ۔عرب مسلمانوں نے جب ایران،کوفہ اور عراق کو فتح کرنے کے لئے فوجی دستے بھیجے تو جنگی حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت ان علاقوں میں فوجی چھاونیاں بھی بنانا پڑیں۔ ان فوجی چھاؤنیوں میں بہت سے غیر عرب نسلوں خاص طور پرایرانی النسل فوجیوں کو رکھا جاتا تھا۔
بعض مورخین کا اندازہ ہے کہ کوفہ کی نصف سے زائد آبادی غیر عربوں پر مشتمل تھی۔وہ زیادہ ترغلام، گھریلو ملازمین یا چھوٹے موٹے دستکار تھے ۔ ان میں اکثریت ان افراد کی تھی جنھیں جنگ کے دوران گرفتار ی کے بعد غلام بنا لیا گیاتھا ۔یہ غیر عرب اپنے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے حکمرانوں سے ناخوش اور ناراض تھے ۔وہ حکمرانوں کے برے سلوک ہی کے شاکی نہ تھے وہ عربوں کو ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے بھی اپنے سے حقیر جانتے تھے ۔
حکمران عرب اشرافیہ اور محکوموں کے مابین پائے جانے والے اس تضاد کو بنو امیہ کی ناقص اور جبر پر مبنی سیاسی اور انتظامی پالیسیوں نے مزید تیز کردیاتھا ۔ بنو امیہ کی پالیسیوں کی مخالف شیعہ قیادت کو سیاسی حمایت غیر عرب ایرانیوں سے ملی۔بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایرانیوں کی طرف سے حضرت علیؓ کی حمایت کی ایک وجہ ان کے ہاں پائے جانے والا بادشاہت کا ادارہ بھی تھا۔قیادت کے انتخاب کے لئے باہمی صلاح مشورہ عرب روایت تھی جب کہ ایرانی اس ضمن میں وراثت پر یقین رکھتے تھے ۔
یہ ایرانی اثرات ہی کا نتیجہ تھا کہ عرب مسلمانوں میں بھی خلافت کو مورثی حق خیال کرنے کا تصور پیدا ہوا۔ ان (ایرانیوں )کے نزدیک چونکہ حضرت محمد صلعم کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی اس لئے حضرت علی ان کے داماداور چچازاد ہونے کی وجہ سے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے اولین حقدار تھے ۔یہ اور بہت سے دیگر سیاسی ،معاشی اور ثقافتی عوامل نے شیعت کو اہل ایران میں مقبول بنایا ۔
اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ یا امام(امامت کی اصطلاح خلافت کے مقابلہ میں زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہے) کا تعین عوام کی رائے پر منحصر نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ نص قطعی سے عمل میں آتا ہے ۔امامت کو وہ لوازمات دین میں تصور کرتے ہیں اور توحید و رسالت کی مانند ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔شیعہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ہر امام کا ایک وصی ہوتا ہے اور اس وصی کا تقرر بالنص یا منجانب اللہ ہوتا ہے۔
اسماعیلی فرقے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب چھٹے امام( اسماعیلیوں کے نزدیک پانچویں امام کیونکہ وہ حضرت علی کو امام نہیں مانتے بلکہ انھیں وصی قرار دیتے ہیں) حضرت امام جعفر صادق 148 ہجری (765ء)فوت ہوئے ( ایک روایت کے مطابق انھیں زہر دیا گیا تھا)اور ان کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہوا تو شیعہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل جو اپنے والد کے انتقال سے چند سال قبل (755ء) وفات پاچکے تھے امام منصوص یا مامور من اللہ ہیں اور دوسرے گروہ نے ان کی بجائے ان کے دوسرے بیٹے سیدنا موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیا ۔
پہلا گروہ حضرت اسماعیل کے نام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتا ہے اور وہ دھڑا جس نے امام موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کرلیا اثنا عشری کہلایا اور جمہور شیعہ کا تعلق اسی فرقے سے ہے۔ یہ فرقہ امامت کی ابتدا حضرت علیؓ سے کرتاہے اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہے اور بارہویں امام کو مستور خیال کرتا ہے ۔
اسماعیلیوں کے نزدیک دیگر شیعہ فرقوں کی طرح امام کا تعین نص قطعی سے عمل میں آتا ہے اس لئے امام کو اس کے منصب سے ہٹانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے ۔ موروثی حق ہونے کے باعث امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ عقیدہ بہت بعد میں متشکل ہوا کیونکہ اگر اس اصول کو سختی سے پیش نظر رکھا جائے تو بہت سے ایسے افراد بھی امامت کے منصب پر فائز ہوئے جو اس اصول پر پورے نہیں اترتے تھے اور اسماعیلی ریکارڈ میں اس انحراف کا کوئی جواب بھی موجود نہیں ہے ۔
سنہ1094 میں اسماعیلی کمیونٹی میں اٹھارویں امام مستنصر کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کے مسئلے پران کے بڑے بیٹے نزار اور سب سے چھوٹے بیٹے اکیس سالہ مستعلی کے درمیان جانشینی کے سوال پر مناقشہ ہوگیا اور اسماعیلی ایک دفعہ پھر دو دھڑوں نزاری اور مستعالین میں منقسم ہوگئے ۔ مشرق میں یعنی ایران کے اسماعیلی نزار اور اس کی اولاد کو امامت اور خلافت کا مستحق خیال کرنے لگے لیکن مغرب یعنی مصر اور یمن میں مستعلی اور اس کی اولاد کو امامت کا مستحق سمجھا گیا ۔اول الذکر آغاخانی خوجے اور موخرالذکر بوہرہ کہلاتے ہیں۔ایک دفعہ پھراقتدار کی کشمکش کو مذہبی اختلافات کا رنگ دے دیا گیا اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ قرون وسطیٰ کی مجبوری بھی تھی کیونکہ اس عہد میں سیاسی اختلافات کے اظہار کا موجود ذریعہ مذہب ہی تھا ۔
اسماعیلی تحریک اسلامی عقائد اور یونانی فلسفہ کا امتزاج تھی۔ اس کا آغاز ایک واضح سیاسی مقاصد کی حامل تحریک کے طور پر ہوا تھا جس میں معاشرتی عدل و انصاف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔ سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لئے سرگرم عمل اسماعیلی تحریک کا رحجان ابتدائی اشتراکیت کی طرف تھا یا کم ازکم اس کے مخالفین کا اس کے بارے میں یہی کہنا تھا کیونکہ اس تحریک سے وابستہ افراد وسائل کو عوام کی ضرورتوں کے مطابق تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔
اسماعیلی تحریک کے نزدیک اقتدار حاضر امام کا حق تھا۔ اس لئے اس تحریک کو اس انداز میں منظم کیا گیا تھا کہ جب بھی موقع ملے ’’غاصبوں ‘‘کو ایوان اقتدار سے باہر کر کے حاضر امام کو مسند اقتدار پر بٹھادیاجائے ۔ اس تحریک کے لئے کھلے طور پر عباسی حکمرانوں کو چیلنج کرناتو ممکن نہ تھا اس لئے اس کی تنظیم خفیہ بنیادوں پر کی گئی تھی اور اس تحریک کو ان علاقوں میں بطور خاص منظم کی گیا تھا جہاں عباسی سلطنت کے کنٹرول کی نوعیت کمزور تھی ۔ جوں جوں اس تحریک کا اثر و نٖفوذ بڑھا تو اس کے کار پردازوں نے اقتدار کی سیاست کو اپنا مطمع نظر بنالیا اور ان کی توجہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہٹ گئی اور وہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں لگ گئے ۔
اسماعیلی عقائد کے مطابق امام زمانہ کو دین اور دنیاوی امور میں اختیار کلی حاصل ہے اس لئے اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ یا حاکم نہیں ہوسکتااور جوکوئی ایسا کرے گا وہ غاصب ہوگا ۔اسماعیلی کمیونٹی اپنی خفیہ تنظیمی سرگرمیوں اور اپنے رہنماؤں کی قابل عمل سیاسی حکمت عملیوں کی بدولت عباسی سلطنت کے لئے ایک حقیقی خطر ہ بن کر ابھری۔ کئی عشروں پر محیط انڈر گراونڈ سیاسی کا م کی بدولت وہ بغداد میں قائم عباسی خلافت (750-1258)کے مقابل اپنے امام کی قیادت میں فاطمی خلافت (909-1171 )قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
اس سلطنت میں تیونس سے لے کر فلسطین تک کے علاقے شامل تھے ۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ اور وہاں جامعہ الآزہر کی بنیا د بھی اسماعیلیوں نے رکھی تھی۔ فاطمی خلافت مصر میں 567ھ تک قائم رہی اس کا خاتمہ صلاح الدین ایوبی نے بغداد کی عباسی خلافت کے عملی تعاون سے کیا تھا ۔
11ویں صدی میں اسماعیلی تحریک میں جو اختلاف پیدا ہوا اس نے اسماعیلی دعوت کو دو مراکز میں منقسم کردیا ۔مشرق میں ایران کو نزار کے پیروکاروں نے اپنا مسکن بنایا جب کہ مغرب میں یمن میں مستعلی کے ماننے والوں نے اپنا مرکز قائم کیا۔ ابتدائی طور پر حصول اقتدارکی جنگ نے دومستقل مذہبی فرقوں ( اسماعیلی بوہرہ فرقہ اور نزاری اسماعیلی فرقہ )کو جنم دیا جو آج تک موجو دہیں ۔ اسماعیلوں کا داؤدی بوہرہ فرقہ مستعلی سلسلے کے 21 ویں امام طیب کو امام مستور خیال کرتا ہے ۔
اگرچہ اس وقت سے آج تک بیعت ان کے نام پرہی لی جاتی ہے۔ بوہرے امام طیب کی امامت کے پیرو کا ر ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام آخر الزماں یعنی امام مہدی امام طیب کی اولاد سے ہوں گے ۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امامت کا سلسلہ ان کی نسل میں جاری وساری ہے۔بوہروں کے نزدیک امام طیب کی اولاد میں سے ہر زمانہ میں ایک امام مستور ہوتا ہے ۔ اب اس فرقے کے رہنما داعی مطلق کہلاتے ہیں اور انھیں دادؤ ی بوہرے امام مستور کا نائب یا باب خیال کرتے ہیں ۔ داعی مطلق امام کے باب یا نائب کی حیثیت میں جماعت کے تمام دینی اور دنیادی امور پر کلی اختیار رکھتا ہے ۔96سالہ سیدنا محمد برہان الدین اس فرقے کے 52 ویں داعی مطلق تھے اور ممبئی بھارت میں رہتے ہیں۔ پچھلے سال ان کی وفات کے بعد ان کی جانشینی پر بھی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے اور معاملہ ممبئی کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔
برصغیر میں اسماعیلی دعوت کیسے پہنچی اس بارے میں تاریخی حقائق اور دیو مالائی قصے ایک دوسرے میں اس قدر گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ اس بارے میں واقعات اور شخصیات کی معروضی ترتیب مشکل امرہے۔ایک روایت کے مطابق 958 ء میں سندھ کے کچھ حصوں میں ، جن کا مرکز ملتان تھا اسماعیلی اقتدار قائم ہوچکا تھا۔ان علاقوں کے بہت سے ہندو اسماعیلی دعوت کے زیر اثر مسلمان ہوگئے تھے ۔1005 میں اسماعیلی اقتدار کا یہ مرکز تو ختم ہوگیا لیکن جہاں تک اسماعیلی افکار و نظریات کا تعلق تھا انھیں ختم نہ کیا جاسکا۔
گیارھویں صدی میں ایک دفعہ پھر یمن سے اسماعیلی داعیوں کا ہندوستان میں ورود شروع ہوا۔ یمن سے جو پہلے اسماعیلی بغرض تبلیغ ہندوستان آئے ان کے ناموں کے بارے میں بھی ابہام پایا جاتا ہے ۔ پہلے اسماعیلی داعی کانام محمد تھا یا احمد اس بارے میں مورخ متفق نہیں ہیں ۔ لیکن قطع نظر اس بات کے پہلے داعی کا نام کیا تھا ایک بات پر سبھی متفق ہیں کہ اسماعیلیوں کی بوہرہ شاخ کے داعیوں کی جنوبی ہندوستان میں آمد کا سلسلہ 11 ویں صدی ہی میں شروع ہوا۔
ان اسماعیلی داعیوں کی ہندوستان آمد کی ایک وجہ وہ تجارتی روابط بھی بنے ہونگے جو یمن اور ہندوستان کے درمیان صدیوں سے چلے آتے تھے ۔ اسماعیلی داعیوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہاں کی ہندو تجارت پیشہ برادریوں کوبنایا ۔بوہرہ لفظ بیوہار سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی تاجر ہیں ۔ اس نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسماعیلی داعیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کی بدولت زیادہ تر ہندووں کی تجارت پیشہ برادریوں کے افراد اور دستکار ہی مسلمان ہوئے تھے۔
21 ویں امام کے مستور ہونے کے بعد اسماعیلی تحریک کے ایک حصے کامرکز چونکہ یمن منتقل ہوگیا تھا اس لئے سولہویں صدی کے نصف اول تک تحریک کا مرکز وہیں رہا اور 23 ویں داعی مطلق محمد عزالدین تک تمام مطلق داعیوں کا تعلق یمن ہی سے تھا لیکن24ویں داعی مطلق سیدنا یوسف نجم الدین نے جن کا تعلق سدھ پور گجرات سے تھا اپنا مرکز ہندوستان منتقل کرلیا اور آج تک وہیں قائم ہے ۔ان کے بعد داعی مطلق کے منصب پر ان کے خاندان کے افراد ہی فائز ہوتے چلے آرہے ہیں ۔
بوہروں کی بڑی تعداد بھارت کی ریاستوں گجرات ، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں رہتی ہے ۔ بھارت کے علاوہ بوہرے دنیا کے 31 ممالک میں آبادہیں۔ بوہروں کی اکثریت(50 فی صد)گجرات میں رہتی ہے اور بھارت سے باہر سب سے زیادہ کراچی میں ہیں۔بوہرے زیادہ تر تجارت پیشہ ہیں ۔ چند ایک کو چھوڑ کر جیسا کہ پاکستان میں ولیکا اور بھارت میں پریم جی(بھارت کے امیر ترین شخص) یہ کہیں بھی بڑے بزنس مین نہیں ہیں ،یہ چھوٹے چھوٹے دوکاندار ہیں،سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں اور ان کی مذہبی قیادت بھی سیاست سے دور رہنے کی حوصلہ افزائی اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
کیونکہ بوہرہ مذہبی قیادت سمجھتی ہے کہ کمیونٹی میں سیاسی آگاہی اور شعور ان کے اپنے اقتدار کے لئے چیلنچ بن سکتاہے ۔دو تین عشرے قبل کچھ بوہرہ دانشوروں نے سیدنا اور ان کے خاندان کی مالی بد عنوانیوں ، سماجی اور مذہبی بے ضابطگیوں کے خلاف ایک مہم چلا ئی تھی لیکن اصلاحات کی اس تحریک کو عام بوہروں میں بہت کم پذیرائی ملی۔ اس تحریک جس کے روح رواں بھارت کے معروف دانشور اصغر علی انجینئرتھے کا کہنا ہے کہ بوہروں کی اکثریت ان کے اصلاحات کے پروگرام کی حامی ہے لیکن سیدنا اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے عام بوہروں پر جو سخت سماجی کنٹرول قائم رکھا ہے اس کی موجودگی میں انھیں یہ ڈر اور خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر انھوں نے اصلاحات کی تحریک کا ساتھ دیا تو سیدنا ان کا سماجی بائیکاٹ( بوہری محاورے میں سلام بند) کروا دے گا اس لئے وہ تحریک کا ساتھ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔
بوہرے چونکہ مقامی ہندووں کی تجارت پیشہ برادریوں ہی سے مسلمان ہوئے تھے اس لئے ان میں ابھی تک اپنی سابقہ ذاتوں کی معاشرتی اور سماجی رسوم اور ادار ے موجود ہیں۔ بوہرے دیوالی جوش و خروش سے مناتے ہیں اور اپنی حساب کتاب کی کتابوں کی شروعات اسی دن سے کرتے ہیں۔ اس دن بوہرے خیر و برکت کے لئے سیدنا یا ان کے نمائندے سے اپنی اکاونٹس بکس پر بسم اللہ لکھواتے ہیں۔ اس موقع پر بوہرے سیدنا کو نقد رقم سلام کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
بوہرے دیگر اسلامی فرقوں کی طرح اسلامی مہینے کا آغاز چاند دیکھ کر نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے فاطمی عہد میں بنے کیلنڈر پر عمل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بوہرے عام مسلمانوں کی بجائے ایک دودن بعد عید کا تہوار مناتے ہیں۔ بوہرے مردے کو دفن کرتے وقت اس کے کفن میں ایک کاغذ کا ٹکڑا رکھتے ہیں جسے بوہر ہ محاورے میں رقعہ چٹھی کہا جاتا ہے اور یہ رقعہ چٹھی سیدنا یا ان کا مجاز مقامی نمائندہ جاری کرتا ہے ۔ کوئی بوہرہ یہ چٹھی حاصل کئے بغیر مردے کو دفن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔بوہرے کھانے میں مچھلی نہیں لیتے کیونکہ ان کے نزدیک مچھلی مردہ ہوتی ہے اس لئے اسے کھانا جائز نہیں ہے ۔روایتی بوہرے مچھلی اسی وقت کھائیں گے جب انھیں یہ یقین ہو کہ اس کو کسی بوہرے نے پکڑا تھا اور اس پر جب وہ زندہ تھی تکبیر پڑھی تھی ۔
پاکستان کی تاریخ اور معیشت کے حوالے سے اسماعیلیوں کا ایک دوسرا فرقہ نزاری بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس فرقے کے پیروکاروں کوعرف عام میں خوجے یا آغاخانی بھی کہا جاتا ہے ۔ اسماعیلیوں کی اس شاخ کے امام جب بھی پاکستان آتے ہیں توحکومت خواہ کوئی بھی ہو ان کو سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملتا ہے ۔ ہاورڈ کے تعلیم یافتہ پرنس کریم آغاخاں چہارم اس فرقے کے انچاسویں امام ہیں ۔ پرنس کریم آغا خان پیرس کے نواح میں واقع دو سو ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں رہتے ہیں ۔ان کی اس رہائش گا ہ کانام’’ عقابوں کا نشیمن‘‘ ہے۔ دراصل یہ وہی نام ہے جو فارسی زبان میں البروز پہاڑی سلسلے میں واقع ان کے مرکز کا ہو اکرتا تھا۔ اسماعیلی نزاریہ کا وہ مرکز 1090میں قائم ہوا تھا اور اسے منگولوں نے 1256میں تباہ کردیا تھا ۔
اسماعیلیوں کا نزاری فرقہ حاضر امام پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے نزدیک کوئی عہد اپنے امام موجود سے خالی نہیں ہوتا ۔ موجودہ امام پرنس کریم آغا خان اپنا سلسلہ نسب حضر ت محمدؐ سے جوڑتے ہیں ۔حسن علی شاہ آغا خان اول سے قبل اسماعیلی فرقے کے امام کو آغا خان کے لقب سے نہیں پکارا جاتا تھا۔ ایران میںآغا خان کا لقب ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جو مال گزاری کے سلسلے میں واجبات وصول کرنے کے مجاز ہوتے تھے ۔
نزاریوں کی سرکاری تاریخ کے مطابق حسن علی شاہ کو ایران کے بادشاہ نے 1817میں آغا خان کا لقب عطا کیا جب کہ آغا خاں کے مصنف مہیر بوس کا کہنا ہے کہ حسن علی شاہ نے پر اسرار حالت میں یہ لقب اپنے لئے مخصوص کر لیا تھا ۔ آغاخان اول انیسویں صدی کے ایرانی دربار میں ہونے والی اتھل پتھل اورسازشوں سے مجبور اور ہندوستان میں موجود انگریز انتظامیہ سے مراعات کے لالچ میں ہجرت کرکے اگست 1841 میں قندھار آگئے جو ان دنوں انگریزوں کے زیر کنٹرول تھا ۔ آغا خان اول نے سندھ فتح کرنے میں چارلس نپئیرکی مد د کی جس کے صلے میں انھیں پنشن اور سندھ اور بمبئی جہاں انھوں نے1848ء میں اپنا مرکز بنایا میں جائداد یں دیں گئیں ۔ان کے پوتے سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوئم نے یہ ہیڈ کوارٹر بمبئی سے جنیوا منتقل کر لیاْ ۔
برصغیر میں نزاری دعوت کا سب سے پہلا مبلغ نورالدین تھا جس نے مقامی آبادی سے رسم و راہ کی خاطر’’ ست گر‘‘ کا لقب اختیار کرلیاتھا ۔روایت کے مطابق اس کا اصلی نام سعادت تھا اور اس کی ہند وستان میں آمد کا زمانہ گیارہویں صدی تھا ۔ ایک غیر مستند روایت کے مطابق وہ نزار کی اولاد میں سے تھا لیکن اس کی شخصیت اور تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں ۔اس کی تبلیغی مساعی کا مرکز گجرات اور کاٹھیاوار کا علاقہ رہا اور وہ فوت بھی وہیں ہوا ۔اس کے پیروکار وں کی جماعت ست پنتھی کہلاتی ہے اس گروہ کے عقائد ہندو اور اسلامی رسوم و عقائد کا مرکب ہیں لیکن یہ آغا خاں کو اپنا امام تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنا ایک علیحدہ روحانی پیشوا اور تنظیم رکھتے ہیں۔خوجوں کا نزاری سلسلے میں منسلک کرنے والے پیر صدر الدین تھے جو پنجاب کے شہر اوچ شریف میں مدفون ہیں ۔
صدرالدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا پڑاؤ پنجاب کا قصبہ بڑا گھر تھا لیکن فی الواقعہ وسطی پنجاب کے مقابلہ میں اس کی تبلیغ کے آثار سندھ اور جنوبی پنجاب میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نزاریوں کی پہلی بستی ملتان میں قائم ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کا عمل گیارہویں صدی میں ہوا۔ اس دور میں ایران میں موجود امام نے داعیوں کو جو پیروں کے روپ میں آتے تھے بغرض تبلیغ ہندوستان بھیجا ۔ان پیروں نے ہندووں کی بہت سی برادریوں بالخصوص تجارت پیشہ برادریوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا ۔
نزاریہ روایت کے ایک داعی پیر صدر الدین نے ہندووں سے مسلمان ہونے والے ان افراد کو خوجہ کا نام دیا اور مرور زمانہ سے خوجے ہندووں میں موجود ذات پات کے نظام کے حوالے سے خود ایک ذات بن گئے ۔پاکستان کے نزاری اسماعیلیوں کے مطابق خوجہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ہندو سے مسلمان ہوا ہو اور اپنے ساتھ اپنی سابقہ ذات اور مذہب کی بہت سی رسوم و رواج لے کر آیا ہو ۔پاکستان میں نزاری اسماعیلیوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ہندووں سے اسماعیلی فرقے میں شامل نہیں ہوا ۔ یہ لوگ پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت،چترال اور ہنزہ وغیرہ میں رہتے ہیں ۔
نزاری اسماعیلیوں کی اس کمیونٹی پر وسط ایشیا ئی اسلامی روایت کی چھا پ بہت گہری ہے۔ نزاری خوجوں کی کتاب ’’دس اوتار‘‘ پیر صدرالدین کی تصنیف خیال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذہبی تصانیف جنھیں گنان کہا جاتا ہے ان سے منسوب کی جاتی ہیں ۔پیر صدر الدین کے علاوہ اور بھی اسماعیلی داعی اس زمانہ میں ہندوستان میں وارد ہوئے تھے ان میں سے ایک حسن کبیر الدین تھا جس کی قبر بہاولپور میں ہے اس سے بھی خوجوں کی مذہبی کتب گنان منسوب کی جاتی ہے ۔خوجوں کی تعلیم و تربیت زیادہ تر پیر صدر الدین اور حسن کبیر الدین کی سعی کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان دونوں سے زیادہ دل چسپ شخصیت پیر شمس الدین تبریزی ہیں جو ملتان میں مدفون ہیں اور جنھیں ملتان اور پنجاب کے لوگ شمس تبریز کہتے ہیں۔
نزاریوں کے عقائد دیگر اسماعیلی فرقوں سے اس حد تک مختلف ہیں کہ ان میں خوجوں کے سابقہ ہندو ذاتوں کے عقائد کا بہت گہرا اثر پایا جاتا ہے۔۔خوجوں کی مذہبی کتابیں دس اوتار ، گنان ،مومن چتاونی وغیرہ جو پیر صدرالدین ،حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی داعیوں سے منسوب ہیں گجراتی زبان میں ہیں۔خوجے اپنے عقائد کے بارے میں وہ شدید اخفا نہیں برتتے جو بوہروں کا خاصہ ہے ۔ تکوین عالم ، نبوت وامامت کے بارے میں خوجے عام اسماعیلی روش و خیال کے پابند ہیں لیکن اپنے عقائد کا اظہار ہندو پیر ایہ میں کرتے ہیں۔
تمام عقائد اور تعلیمات کا ماحصل امام وقت کی اطاعت و خدمت ہے ۔خوجے کسی مستور امام کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے امام ان کے درمیان موجود ہیں۔ موجود امام پرنس کریم آغاخاں نزاری سلسلے کے انچاسویں امام ہیں۔ مغرب میں اسماعیلی امام کی شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں جو چاہے چھپتا رہے، اپنے پیروکاروں کے نزدیک وہ روحانی بلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں ۔ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے نزدیک قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی ذات کے بارے میں بحث مباحثہ ان کے نزدیک گناہ کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
جمہور مسلمانوں کے برعکس نزاری عبادت، نماز نہیں دعا ہے اور یہ دن میں پانچ وقت کی بجائے تین دفعہ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ علی الصبح اور باقی دو دفعہ غروب آفتاب کے بعد۔ ہر اسماعیلی کے لئے یہ دعا فرض ہے جو اسے جماعت خانہ میں جاکر کرناہوتی ہے۔ جماعت خانہ میں اذان نہیں ہوتی۔ نزاری عقائد میں امام کے فرمان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے امام وقت جو فرمان جاری کرتا ہے، ہر اسماعیلی کا فرض ہے کہ اس کی پابندی کرے اور اپنی شخصی اور سماجی زندگی کو امام کے فرامین کی روشنی میں ترتیب دے ۔
ویسے تو تمام مذاہب میں دولت کے عنصر کو بہت زیادہ اہمیت نہ صرف ماضی میں حاصل رہی ہے بلکہ فی زمانہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن نزاری عقیدہ میں تو مذہبی عقائد اور دولت کا یہ اتصال کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے ۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ اسماعیلی نزاری عقیدہ میں دولت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔جو چیز اسماعیلیوں کو بالعموم اور نزاری اسماعیلیوں کو بالخصوص دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ اپنے مقامی مکھیوں کی وساطت سے آغا خاں کو دولت پیش کرنے کے اصول کے گرد گھومتا ہے ۔
نزاری عقائد میں مرکزی حیثیت چونکہ حاضر امام کو حاصل ہے اس لئے ہر اسماعیلی اپنی آمدن کا کم ازکم دسواں حصہ جسے دسوندھ(گجراتی میں دسواں) امام کو دیتا ہے۔ آغا خاں اپنے فرامین میں اکثر اپنے پیروکاروں کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ دسوندھ کو ان کے عقیدے میں کلیدی مقام حاصل ہے ۔
اسماعیلی یہودیوں اور پارسیوں کی طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لئے فی زمانہ ان کے فرقے نسلی گروہ بن چکے ہیں۔یہ فرقے زیادہ تر تجارت اور کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس لئے رواداری ،لچک اور حالات سے مفاہمت کرنا ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔
اسماعیلیوں نے معیشت کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں میں قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ،آغاخاں فنڈ برائے معاشی ترقی،آغا خاں فاؤنڈیشن،آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر، آغا خاں رورل سپورٹ پرو گرام ، آغا خاں میڈیکل کالج و ہسپتال اور اس کے تحت چلنے والے دیگر ادارے تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں میں پاکستان کے عوام کی بلا تفریق مذہب وعقیدہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
♣
کتابیات
۔1۔The Bohras by Asghar Ali Engineer,Vikas Publishing House New Delhi
۔2۔مسلمانوں کی خفیہ اور باطنی تحریکیں از مرزا سعید دہلوی مثال پبلشنگ اردو بازار لاہور
۔3۔آغا خان از مہیر بوس ترجمہ حمید اختر جمہوری پبلیکیشنز لاہور.
۔4۔The Ismailis and Islamization in Pakistan by Bruce Borthwick, National Institute of Historical and Cultural Heritage Islamabad
۔5۔دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ ،ہز ہائی نس پرنس کریم خاں از سید آصف جاہ جعفری ،پرنس اکیڈمی ملتان
12 Comments