انگریزی سے ترجمہ: عابد محمود
محترم وزیراعظم:۔
مشرقی پاکستان کے پسماندہ ہندوؤں کی ترقی کے اپنے زندگی بھر کے مشن کی ناکامی پر میں آزردہ خاطر اور نراس ہو کر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ آپ کی کابینہ کی رکنیت سے استعفیٰ دوں۔ مناسب یہ ہے کہ مجھے برصغیر پاک وہند کے اس اہم موقع پر تفصیلاً ان وجوہات کی وضاحت کر دینی چاہئے جنہوں نے مجھے اس فیصلے کی تحریک دی۔
۔(1)اس سے پہلے کہ میں اپنے استعفیٰ کی دورازکار اور فوری وجوہات بیان کروں،شاید لیگ کے ساتھ میرے تعاون پر محیط اس مدت کے دوران رونما ہونے والے اہم واقعات کا پس منظر بیان کرنا کار آمد ہو۔ فروری1943ء میں بنگال لیگ کے چند معروف قائدین کی جانب سے رابطہ کئے جانے پر، میں ان کے ساتھ بنگال قانون ساز اسمبلی میں کام کرنے پر رضا مند ہوگیا۔ مارچ1943ء میں فضل الحق وزارت کی برطرفی کے بعد، اکیس اچھوت ذات(آدھی واسی یعنی شیدولڈ کاسٹ) ایم ایل اے کے ساتھ ہیں اس وقت کی مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے قائد خواجہ ناظم الدین جنہوں نے اپریل1943ء میں کابینہ تشکیل دی کے ساتھ تعاون پر رضامند ہوگیا۔ ہمارا تعاون چند شرائط کے ساتھ مشروط تھا، جیسے کہ تین اچھوت ذات کے وزراء کی کابینہ میں شمولیت، اچھوت لوگوں کی تعلیم کے لئے سالانہ پانچ لاکھ روپے کی مسلسل گرانٹ کی منظوری اور سرکاری ملازمتوں میں تقرری کے سلسلے میں فرقہ وارانہ تناسب کے ضوابط کا غیر جانبدارانہ اطلاق۔
۔(2)ان شرائط سے قطع نظر حقیقی مقاصد جنہوں نے مجھے مسلم لیگ کے ساتھ اشتراک عمل پر آمادہ کیا، ان میں سے پہلا یہ تھا کہ عموماً بنگال میں مسلمانوں کے معاشی مفادات ویسے تھے جیسے اچھوت ذاتوں کے۔ زیادہ تر مسلمان کا شتکار اور مزدور تھے اور ایسے ہی اچھوت ذاتوں کے افراد بھی تھے۔ مسلمانوں کا ایک گروہ ماہی گیر تھا، ایسا ہی گروہ اچھوت ذاتوں کا بھی تھا، دوسرا یہ کہ اچھوت ذات اور مسلمان دونوں ہی تعلیمی لحاظ سے پسماندہ تھے۔ میں یہ باور کررہا تھا کہ لیگ اور اس کی وزارت کے ساتھ میرا تعاون وسیع پیمانے پر قانون سازی اور انتظامی معاملات کی ضمانت کی طرف لے جائے گا، جو بنگلہ آبادی کی اکثریت کی باہمی بہبود اور وابستہ اغراض واستحقاق کی بنیادوں کی بیخ کنی کرتے ہوئے مزید امن اور ہم آہنگی کاباعث ہوگا۔ یہاں اس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین نے اپنی کابینہ میں تین اچھوت ذات وزیر لئے اور میری کمیونٹی کے افراد میں سے تین پارلیمانی سیکرٹری مقرر کئے۔
سہروردی وزارت:۔
۔(3) مارچ1946ء میں منعقدہ عام انتخابات کے بعد مسٹر سہروردی مارچ1946ء میں لیگ پارلیمانی پارٹی کے قائد بن گئے اور اپریل1946ء میں لیگ کی وزارت بنالی۔ میں واحد اچھوت ذات ممبر تھا جو فیڈریشن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوا۔ مجھے مسٹر سہروردی کی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ اس سال16اگست کو مسلم لیگ نے کلکتہ میں عملی احتجاج کا دن (ڈائریکٹ ایکشن ڈے) منایا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ ایک قتل عام پر منتج ہوا۔ ہندوؤں نے لیگ وزارت سے میرے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ میری زندگی کو خطرہ لاحق تھا۔ تقریباً ہر روز مجھے دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے لگے۔ لیکن میں اپنی پالیسی پر ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے،میں نے اپنے رسالہ ’’جاگاراں‘‘کے ذریعے اچھوت ذات لوگوں کے نام اپیل شائع کی کہ وہ خود کو کانگریس اور مسلم لیگ کی مابین اس خونریزخانہ جنگی سے علیحدہ رکھیں۔
کچھ او رنہ سہی کم ازکم میں اس حقیقت کا ممنونیت کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے میری ذات کے ہندوہمسایوں نے اشتعال زدہ ہندو ہجوم کے غضب سے بچایا۔ کلکتہ کی خونریزی اکتوبر 1946ء میں’’نوخیلی کے بلوہ‘‘ پر منتج ہوئی، جہاں ہندوؤں کو بشمول اچھوت ذاتوں کے قتل کیا گیا اور سینکڑوں کو مسلمان بنالیا گیا۔ ہندو عورتیں ریپ اور اغوا ء کی گئیں۔ میری برادری کے افراد کو بھی زندگی اور املاک سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان حادثات کے فوری بعد میں نے تیپارا اور فنی کا دورہ کیا او رچند فساد متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا۔
ہندوؤں پر پڑی خوفناک بپتانے مجھے ماتم زدہ کردیا، لیکن اس کے باوجود میں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی پالیسی جاری رکھی۔ کلکتہ قتل عام کے فوری بعد سہروردی وزارت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ یہ صرف میری کوششیں تھیں کہ اسمبلی کے چار اینگلوانڈین ممبرز اور چار اچھوت ذات ممبرز جوکہ ہنوز کانگریس کے ساتھ تھے مگر جن کے ذریعے وزارت گرائی جاسکتی تھی، کی حمایت حاصل کی جاسکی۔
۔(4)۔اکتوبر1946ء میں نہایت غیر متوقع طور پر مسٹر سہروردی کی وساطت سے مجھے انڈیا کی عبوری حکومت میں سیٹ کی پیشکش ہوئی۔ خاصے تذبذب اور حتمی فیصلے کے لئے دیے گئے محض ایک گھنٹے کے وقت کے بعد میں یہ پیشکش اس شرط پر قبول کرنے پر رضامند ہو گیا کہ مجھے استعفیٰ دینے کی اجازت صرف تب ملنی چاہئے جب میرے قائد ڈاکٹر بی آر امبیڈکر میری کسی کارروائی کو ردکریں۔ تاہم خوش قسمتی سے مجھے لندن سے بھیجے گئے ٹیلی گرام کے ذریعے ان کی منظوری مل گئی۔ اس سے پہلے کے میں بطور رکن قانون ذمہ داری سنبھالنے کے لئے دہلی روانہ ہوتا میں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ بنگال کو اس بات پر رضامند کرنے کے لئے مائل کیا کہ وہ اپنی کابینہ میں میری جگہ پر دو وزیرلیں اور اچھوت ذات وفاقی گروپ میں سے دو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کریں۔
۔(5)میں یکم اکتوبر1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہوا۔ تقریباً ایک ماہ کے بعد جب میں نے کلکتہ کا دورہ کیا، مسٹر سہروردی نے مجھے مشرقی بنگال کے کچھ حصوں خاص طو رپر گوپال گنج سب ڈویژن جہاں’’ نامہ شودروں‘‘ کی اکثریت تھی میں خاصے زیادہ فرقہ وارانہ تناؤ بارے آگاہ کیا۔ انہوں نے مجھ سے ان علاقوں کا دورہ کرنے او رمسلم اور نامہ شودر مجالس کو خطاب کرنے کی استدعا کی۔ حقیقت یہ تھی کہ ان علاقوں میں نامہ شودربدلہ لینے کے لئے تیاریاں کرچکے تھے۔ میں نے تقریباً ایک درجن بڑی مجالس کو خطاب کیا۔ نتیجتاً نامہ شودروں نے انتقام کا ارادہ ترک کردیا۔ چنانچہ یوں فرقہ وارانہ فتور کا ناگزیز خطرہ ٹل گیا۔
۔(6)چند ماہ بعد3جون1947ء کو برطانوی حکومت نے تقسیم ہند بارے چند سفارشات پر مشتمل بیان جاری کیا۔ تمام ملک بالخصوص سارا غیر مسلم انڈیا بھڑک اُٹھا۔ سچائی کی خاطر میں یقیناًیہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو جوابی مول تول( بارگیننگ )تصورکیا ہے۔ حالانکہ میں مخلصانہ طو رپر ہندوستان کے تناظر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان بحیثیت مجموعی، اپرکلاس ہندو شاونزم کے خلاف جائز وجہ ناراضگی رکھتے ہیں، اس کے باوجود میں اس نقطہ نظر پر مضبوطی سے قائم تھا کہ پاکستان کا قیام فرقہ وارانہ مسئلہ کو حل نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس یہ فرقہ وارانہ نفرت اور عداوت کو مہمیز کردے گا۔ مزید برآں میں اس بات پر قائم تھا کہ اس سے پاکستان میں مسلمانوں کی حالت میں سدھار نہ آسکے گا۔ ملک کی تقسیم کا ناگزیر نتیجہ دونوں ملکوں کے محنت کش عوام کی غربت، جہالت او رمفلوک الحالی کو اگر دوام نہ بھی بخشے تو طول ضرور دے گا۔ مجھے مزید یہ خدشہ تھا کہ پاکستان شاید جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک میں نہ ڈھل جائے۔
قرار داد لاہور:۔
میں یہ واضح کردوں کہ میری یہ رائے ہے کہ، جیسا حال ہی میں ہوا، پاکستان کو شریعت اور اسلام کے احکامات اور عقائد کی بنیاد پر ایک خالص اسلامی ریاست بنانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ میرا قیاس ہے کہ یہ لاہور میں23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کی منظور کردہ قرار داد کے خاکے پر سوچ بچار کرنے کے بعد تمام اساسات میں تشکیل پائے گی۔ یہ قرار داد بیان کرتی ہے۔
۔1۔’’جغرافیائی طو رپر متصلہ علاقہ جات کی ایسی علاقہ جاتی حد بندی کی جائے جو ایسے زمینی تصفیہ کی تشکیل کرے جس سے ناگزیر طور پر ایسے علاقے جس میں مسلمان عددی اعتبار سے اکثریت میں ہوں، جیسا کہ انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں کا گروپ بننا چاہئے، جو ایسی خودمختار ریاستوں کی تشکیل کرے، جن کی تشکیل اکائیاں خود مختار اور مقتدر ہوں‘‘ اور
۔2۔ان اکائیوں اور علاقوں کے دستور میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، تنظیمی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ان کی مشاورت سے مناسب، مؤثراور لازمی تحفظات کا اہتمام خاص طو رپر ہونا چاہئے‘‘۔
اس فارمولا کے کچھ مضمرات تھے
(ا) کہ شمال مغربی اور مشرقی مسلمان خطوں کو دو خودمختار ریاستوں میں متشکل کردینا چاہئے۔ (ب) کہ ان ریاستوں کی تشکیلی اکائیاں خود مختار اور مقتدر ہونی چاہئیں (ج) کہ اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے مفادات کی ضمانت بھی ہونی چاہئے اور اسے ان کی زندگی کے تمام معاملات تک پھیلانا چاہئے۔ اور(د) کہ اس سلسلے میں دستوری دفعات اقلیتوں ہی کی مشاورت سے بننی چاہئیں۔ اس قرار داد اور لیگ قائدین کے اقوال پر میرا یقین قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان سے مستحکم ہوا جس میں انہوں نے بطور صدر قانون ساز اسمبلی 11 اگست 1947کو ارشاد فرماتے ہوئے بلااختلاف ہندو ومسلم مساوی برتاؤ کی سنجیدہ ضمانت دی اور ان سے تقاضا کیا کہ یاد رکھیں۔ وہ سب پاکستانی ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر مکمل مسلمان یا ذمی میں تقسیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔(اسلامی ریاست اور مسلمان شہریوں کی دائمی نگہبانی میں رہنا) بظاہر آپ کے علم اور آپ کی منظوری سے قائداعظم کی خواہشات وجذبات اور اقلیتوں کی تذلیل اور گزنہ سے مکمل اغماض برتتے ہوئے ان میں سے ہر عہد کو برملا توڑا گیا۔
تقسیم بنگال:۔
۔(8) شاید یہ بھی ذکر کیا جاسکتا ہے کہ میں بنگال کی اس تقسیم کا مخالف تھا۔ اس سلسلے میں ایک مہم شروع کرتے ہوئے مجھے نہ صرف چاروں اطراف سے سخت مزاحمت بلکہ ناقابل بیان دشنام طرازی، اہانت اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت ہی تاسف کے ساتھ میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب برصغیر پاک وہند کے32کروڑ ہندوؤں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور مجھے ہندوؤں او رہندوستان کے دشمن کا لقب دیا لیکن میں پاکستان سے وفاداری پر دلیری اور استقامت کے ساتھ ڈٹا رہا۔ یہ مقام ممنونیت ہے کہ پاکستان کے70لاکھ اچھوت ذات لوگوں میں میری اپیل نے مستعد اور سرگرم ردعمل پیدا کیا۔ انہوں نے مجھے اپنے بے پناہ تائید، ہمدردی اور ڈھارس سے نوازا۔
۔(9) 14اگست1947ء کو پاکستان کے قیام کے بعد آپ نے پاکستان کی کابینہ بنائی جس میں، میَں شامل تھا اور خواجہ ناظم الدین نے مشرقی بنگال کے لئے صوبائی کابینہ بنائی۔ 10اگست کو میں نے کراچی میں خواجہ ناظم الدین سے بات چیت کی او رگذارش کی کہ مشرقی بنگال کی کابینہ میں دو اچھوت ذات وزراء لیں۔ انہوں نے کچھ مدت بعد ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ آگے چل کر اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ آپ، خواجہ ناظم الدین اور مشرقی بنگال کے موجودہ وزیراعظم نورالامین کے ساتھ ناخوشگوار اور مایوس کن عہدوپیمان کا ایک ریکارڈ ہے۔ جب میں نے محسوس کیا کہ خواجہ ناظم الدین اِدھر اُدھر کے حیلہ بہانہ سے معاملہ ٹال رہے ہیں تو میں مضطرب اوربرانگیختہ ہوگیا۔میں نے صدر پاکستان مسلم لیگ اور اس کی مشرقی بنگال برانچ کے ساتھ معاملہ پر مزید بحث وتمحیض کی۔
بالآخر میں معاملہ آپ کے نوٹس میں لایا۔ آپ اپنی رہائش گاہ پر میری موجودگی میں خواجہ ناظم الدین کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کرنے پر رضا مند تھے۔ خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ واپسی پر ایک اچھوت ذات وزیر لینے پر راضی ہوگئے۔ چونکہ مجھے خواجہ ناظم الدین کی یقین دہانی پر پہلے ہی شبہ تھا۔ میں متعینہ وقت کے بارے پر یقین ہونا چاہتا تھا۔ میں نے اصرار کیا کہ اس سلسلے میں وہ ایک ماہ میں عمل کریں جس میں ناکامی کی صورت میں میں استعفیٰ دینے میں آزاد ہوں گا۔ آپ اور خواجہ ناظم الدین دونوں نے شرط قبول کرلی۔ لیکن افسوس! آپ کا شاید وہ مطلب نہیں تھا جو آپ نے کہا۔ خواجہ ناظم الدین نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔
مسٹرنورالامین کے مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد، میں نے معاملہ دوبارہ ان کے روبرو اُٹھایا۔ انہوں نے بھی لیت ولعل کے وہی پرانے آز مودہ حربے اختیار کئے۔ جب میں نے1949ء میں آپ کے دورہ ڈھاکہ سے پہلے آپ کی توجہ دوبارہ اس معاملہ کی طرف مبذول کروائی تو آپ نے مجھے مشرقی بنگال میں اقلیتی وزارء کا تقرر کئے جانے کی یقین دہانی کروائی۔ اور آپ نے سوچ بچار کے لئے مجھ سے دو تین نام مانگے۔ آپ کی خواہش کی فوری تعظیم کے لئے ، میں نے مشرقی بنگال کی اسمبلی فیڈریشن گروپ او رمجوزہ تین ناموں کی تفصیل کے ساتھ ایک مراسلہ آپ کو بھجوایا۔ جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ڈھاکہ واپسی کے بعد کیا ہوا، آپ نے بہت بے اعتنائی برتی اور فقط اتنا کہا ’’نورالامین کو دہلی سے آلینے دو‘‘ چند دن بعد میں نے اس معاملہ پر دوبارہ مجبور کیا۔ لیکن آپ نے مسئلہ سے اجتناب کیا۔ میں پھر یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوگیا کہ نہ ہی آپ کا اور نہ ہی مسٹر نورالامین کا کسی اچھوت ذات کے وزیر کو مشرقی بنگال کی کابینہ میں لینے کا ارادہ ہے۔
اس سے قطع نظر میں دیکھ رہا تھا کہ مسٹر نورالامین اور مشرقی بنگال کے کچھ دوسرے لیگی لیڈران اچھوت ذات کی تنظیم کے ممبران کے درمیان انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ میری قیادت اور وسیع پیمانہ پر مقبولیت کو خطرہ سمجھا گیا تھا۔ میری صاف گوئی، بیدار نظری اور پاکستان میں عموماً اقلیتوں کے اور خصوصاً اچھوت ذات کے مفادات کے تحفظ کی میری مخلصانہ کوششوں کو مشرقی بنگال کی حکومت اور چند لیگی لیڈران کو برہم کرنے کے معاملے کے طو رپر دیکھا گیا تھا۔ بلا خوف وخطر، میں نے پاکستان میں اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کا اصولی موقف اپنایا۔
ہندودشمن پالیسی:۔
۔(10)جب بنگال کے بٹوارے کا سوال پیدا ہوا، اچھوت ذات لوگوں کو تقسیم کے متوقع خطرناک نتائج کی چتاؤنی مل گئی۔ ان کی طرف سے اس وقت کے بنگال کے وزیراعلیٰ مسٹر سہروردی کو عرض داشت پیش کی گئی جنہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے پریس کو یہ بیان جاری کیا کہ اچھوت ذات لوگوں کو آج تک عطا کردہ استحقاق اور مراعات میں تقسیم کے بعد کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی او ریہ کہ وہ نہ صرف موجودہ حقوق ومراعات سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ اضافی ثمرات بھی حاصل کریں گے۔ یہ یقین دہانی مسٹر سہروردی نے نہ صرف اپنی ذاتی حیثیت بلکہ لیگی وزارت کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی کروائی۔
مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑا ہے کہ بٹوارے کے بعد، خاص طور پر قائداعظم کی وفات کے بعد اچھوت ذاتوں کو کسی بھی معاملہ میں مناسب حصہ نہیں ملا۔ آپ یاد کریں کہ وقتاً فوقتاً میں اچھوت ذاتوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفیاں آپ کے علم میں لاتارہا۔ میں نے بارہا مشرقی بنگال کی نااہل انتظامیہ کی ساخت بارے آپ کو واضح کیا۔ میں نے پولیس انتظامیہ کے خلاف فاش الزامات لگائے میں آپ کے علم میں لغو بنیادوں پر پولیس کے وحشیانہ مظالم کے ارتکاب کے واقعات لایا۔ مجھے یہ آپ کے علم میں لاتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مشرقی بنگال کی حکومت خاص طور پر پولیس انتظامیہ اور مسلم لیگی قائدین کا ایک گروہ ہندو دشمن پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
چند سانحات:۔
۔(11)پہلا سانحہ جس نے مجھے دہلادیا، گوپال گنج کے قریب ڈیگارکل گاؤں میں رونما ہوا۔ جہاں ایک مسلمان کی جھوٹی شکایت پر مقامی نامہ شودروں پر وحشیانہ مظالم کئے گئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ایک مسلمان جو کہ کشتی میں جارہا تھا،نے مچھلی پکڑنے کے لئے اپنا جال پھینکنے کی کوشش کی۔ ایک نامہ شودر جو وہاں پہلے سے ہی اس مقصد کے لئے تھا نے اپنے مقابل جال پھینکنے کی مخالفت کی۔ اس پر توتکار شروع ہوگئی۔ مسلمان برہم ہوگیا اور قریبی مسلمان گاؤں جاکر جھوٹی شکایت کی کہ اس کی کشتی میں اس پر اور ایک مسلمان خاتون پرنامہ شودروں نے حملہ کیا ہے۔
اس وقت گوپال گنج کا ایس ڈی او رجوکہ ندی میں ایک کشتی پر گزر رہا تھا نے بغیر تفتیش کے شکایت کو سچ تسلیم کرتے ہوئے مسلح پولیس غاہ شودروں کو سزا دینے کے لئے موقع پر بھیج دی۔ مسلح پولیس آئی اور مقامی مسلمان بھی اس کے ساتھ ہولیے انہوں نے نہ صرف نامہ شودروں کے گھروں پر دھاوا بولا بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کو بے رحمی سے زد وکوب کیا، املاک کو تباہ کیا اور قیمتی اشیاء اٹھالے گئے۔ ایک حاملہ خاتون کی سنگدلانہ پیٹائی کے نتیجہ میں موقع پر ہی اس کا حمل گر گیا۔ مقامی حکام کی طرف سے کی گئی اس بے رحمانہ حرکت نے ایک وسیع علاقے میں کھلبلی مچادی۔
۔(12)پولیس کے جبر کا دوسرا واقع1949ء کے پہلے حصے میں پولیس سٹیشن گورندی کے تحت ڈسٹرکٹ باریسال میں رونما ہوا۔ یہاں یونین بورڈ کے ممبران کے دوگروہوں کے درمیان ایک جھگڑا ہوا۔ ایک گروہ جو پولیس کی نظر میں اچھا تھانے مخالفین کے کمیونسٹ ہونے کو عذر بناکر سازش کی ۔ تھانہ پر حملہ کے خدشہ کی اطلاع پر او سی گورندی نے ہیڈکوارٹر سے مسلح دستے طلب کرلئے۔ پولیس نے افواج کی مدد سے علاقے میں بے شمار گھروں پر چھاپہ مارا۔ قیمتی املاک لے اُڑے، حتیٰ کہ ان گھروں سے بھی جن کے مالکان وہاں نہ تو موجود تھے اور نہ سیاست میں اور نہ ہی ان کا کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق تھا۔
ایک وسیع علاقے سے بہت سے افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ بہت سے ہائی انگلش سکولوں کے اساتذہ اور طلباء مشتبہ کمیونسٹ تھے او رانہیں بے جا ہراساں کیا گیا۔ یہ علاقہ میرے آبائی گاؤں کے کافی قریب ہے لہٰذا میں اس سانحے سے آگاہ تھا۔ میں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس پی کو انکوائری کے لئے لکھا مقامی لوگوں کے ایک گروہ نے بھی ایس ڈی او کی انکوائری کے لیے استدعا کی۔ لیکن کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے نام میرے خطوط کی رسیدوصول تک نہیں دی گئی۔ پھر میں یہ معاملہ پاکستان کی اعلیٰ انتظامیہ بشمول آپ کے علم میں لے کر آیا لیکن بے سود۔
افواج کے لئے عورتیں:۔
۔(13)پولیس اور افواج کے معصوم ہندوؤں خاص طور پر ڈسٹرکٹ سلہٹ، حبیب گڑھ کے اچھوت ذاتوں پر روارکھے جانے والے مظالم تفصیل کے متقاضی ہیں۔ معصوم مردوں اور عورتوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ چند خواتین کی عصمت دری کی گئی، پولیس اور مقامی مسلمانوں نے گھروں پر دھاوا بولا اور املاک لوٹ لیں۔ علاقے میں فوجی ناکے لگائے گئے۔ فوج نے نہ صرف ان لوگوں پر جبر کیا اور ان ہندو گھروں کا سامان بزور اٹھالے گئے بلکہ ہندوؤں کو مجبور کیا کہ وہ رات کو فوجیوں کی نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لئے اپنی خواتین کیمپ میں بھیجیں۔ یہ حقائق بھی میں آپ کے علم میں لایا۔ آپ نے مجھے اس معاملے پر رپورٹ کی یقین دہانی کروائی لیکن بدقسمتی سے کوئی رپورٹ دستیاب نہ ہوئی۔
۔(14)پھر ایک سانحہ ناکولی ڈسٹرکٹ راج شاہی میں ہوا جہاں کمیونسٹوں کے انسداد کے نام پر نہ صرف پولیس بلکہ مقامی مسلمانوں نے بھی پولیس کی ملی بھگت سے ہندوؤں پر ظلم کیا اور ان کی املاک لوٹ لیں۔ سانتھل پھر سرحد پار کر گئے اور مغربی بنگال جاپہنچے۔ انہوں نے مسلمانوں او رپولیس کے کئے گئے ناحق مظالم کی داستانیں سنائیں۔
۔(15)کٹھور اور وحشیانہ سفاکی کی ایک اور مثال وہ واقعہ پیش کرتا ہے جو20دسمبر1949ء کو کلشیرہ، پولیس سٹیشن ملاریٹ ڈسٹرکٹ کھلنا میں پیش آیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ رات گئے چار کانسٹیبلوں نے چند مبینہ کمیونسٹوں کی تلاش میں گاؤں کلشیرہ میں جئے دیوبوھما کے گھر چھاپامارا۔ پولیس کے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی درجن نوجوان جن میں سے چند ہوسکتا ہے کہ کمیونسٹ ہوں، گھر سے فرار ہوگئے۔ پولیس کانسٹیبل گھر میں داخل ہوگئے اور جئے دیوبوھما کی بیوی کو پیٹ ڈالا، جس کی چیخ نے اس کے پتی اور چند ساتھیوں جو کہ گھر سے فرار ہوئے تھے کو متوجہ کیا۔
وہ بے چین ہوکر دوبارہ گھر میں داخل ہوگئے اور چاروں کانسٹیبلوں کو صرف ایک گن کے ساتھ موجود پایا۔ اسی بات نے شاید نوجوانوں کو جرأت دلائی، جنہوں نے مسلح کانسٹیبل کو ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ موقع پر ہی دم توڑگیا۔ پھر نوجوانوں نے ایک اور کانسٹیبل پر حملہ کیا جبکہ دوسرے دونوں بھاگ گئے اور آلارم بجادیا جس سے چند قریبی لوگ متوجہ ہوئے او ران کو نجات دلائی چونکہ یہ واقعہ سورج طلوع ہونے سے پہلے جب اندھیرا تھا اس وقت وقوع پذیر ہوا لہٰذا حملہ آور گاؤں والوں کے آنے سے پہلے لاش کے ساتھ بھاگ نکلے۔
اگلے دن سہ پہر کو ایس پی کھلنا فوجی دستے او رمسلح پولیس کے ساتھ موقع پر پہنچے۔ اس وقت تک حملہ آور فرار ہوچکے تھے اور دوراندیش ہمسائے بھی بھاگ گئے تھے۔ لیکن زیادہ تر گاؤں والے اپنے گھروں میں موجود تھے کیونکہ وہ مکمل طور پر بے گناہ اور وقوعہ کے نتائج سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس کے بعد ایس پی، ملٹری او رمسلح پولیس والوں نے تمام گاؤں کے بے گناہوں کو بے رحمی سے مارنا شروع کردیا، ہمسایہ مسلمان اس سے ترغیب پاکر ان کی املاک لوٹ لے گئے۔ کئی افراد مارے گئے اور مردوں اور عورتوں کا مذہب جبراً تبدیل کیا گیا۔ گھریلو دیوی دیوتاؤں کو توڑا او رپوجا پاٹ کے استھانوں کو بھر شٹ اور برباد کیا گیا۔ کئی عورتوں کی پولیس، ملٹری اور مقامی مسلمانوں نے آبروریزی کی۔
یوں نہ صرف کلشیر گاؤں میں جو کہ وسیع آبادی کے ساتھ ڈیڑھ میل لمبائی پر پھیلا ہے بلکہ اس کے ساتھ کئی ایک قریبی نامہ شودر دیہاتوں میں بھی ایک حقیقی قیامت برپا کردی گئی۔ کلشیرہ گاؤں انتظامیہ کی طرف سے کمیونسٹ سرگرمیوں کی جگہ کے طور پر کبھی مشتبہ نہیں رہا۔ جھالرونگانام کا ایک اور گاؤں جو کہ کلشیرہ سے تین میل کی دوری پر تھا،کمیونسٹ سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس گاؤں پر اس دن پولیس کے ایک بڑے دستے نے مبینہ کمیونسٹوں کے تعاقب میں چھاپا مارا، جن میں سے چند نے فرار ہوکر مذکورہ بالا گاؤں کلشیرہ میں پناہ لی، جسے وہ اپنے لئے محفوظ جگہ سمجھتے تھے۔
۔(16)میں نے28فروری1950ء کو کلشیرہ اور ایک دو قریبی دیہات کا دورہ کیا، ایس پی کھلنا اور ضلع کے چند ممتاز لیگی قائدین میرے ہمراہ تھے۔ جب میں کلشیرہ گاؤں پہنچا تو مجھے اس جگہ ویرانہ او رکھنڈرات ملے۔ مجھے ایس پی کی موجودگی میں بتایا گیا کہ اس گاؤں میں350مسکن تھے جن میں سے صرف تین کو بخشا گیا اور باقیوں کو مسمار کردیا گیا۔ نامہ شودروں کی کشتیاں اور ڈھور ڈنگر تمام لوٹ لئے گئے۔ میں نے یہ تمام حقائق مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور آپ کے گوش گزار کئے۔
۔(17)اس سلسلے میں شاید یہ بھی ذکر کرنا چاہئے کہ اس واقعہ کی خبر مغربی بنگال کے پریس میں چھپی اور اس نے وہاں ہندوؤں میں کچھ بے چینی پیدا کی۔ کلشیرہ کے متعدد مصیبت زدگان، مردوزن دونوں ہی، بے گھروبے دست وپا کلکتہ بھی پہنچے اور اپنی بپتا کی کتھائیں سنائیں جو مغربی بنگال میں جنوری کے اواخر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنیں۔
(جاری ہے)
Source: https://en.wikisource.org/wiki/Resignation_letter_of_Jogendra_Nath_Mandal