پاکستانی شخصیتوں کے خلاف جارحانہ روش اختیار کرتے ہوئے شیوسینا کارکنوں نے آج آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن ( او آر ایف ) سربراہ سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پوت دی کیونکہ انھوں نے سابق وزیر خارجہ پاکستان خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رسم اجراء تقریب منسوخ کرنے سے انکار کیا تھا ۔
مختلف سیاسی جماعتوں نے شیوسینا کی اس کارروائی کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا ۔
شیوسینا کے پرتشدد احتجاج کی پرواہ کئے بغیر او آر ایف نے طئے شدہ پروگرام جاری رکھا اور انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کے درمیان کتاب کی رسم اجراء انجام دی گئی ۔
شیوسینکوں کے اس گروپ نے خارجہ پالیسی تھنک ٹینک او آر ایف صدرنشین کلکرنی کی کار کو آج صبح متونگا میں واقع اُن کے گھر کے باہر روک دیا اور اُن کے چہرے پر سیاہی پوت دی گئی ۔ اس کے باوجود کلکرنی نے کہاکہ وہ ایسی حرکتوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ۔
انھوں نے طئے شدہ پروگرام کے مطابق شام میں قصوری کی کتاب کی رسم اجراء انجام دی ۔ اس موقع پر نہرو سنٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہم اور آپ ایسی مذموم حرکتوں کے آگے جھکنے والے نہیں ہے۔
یہ تقریب لاکھوں ممبئی کے عوام کے جذبات کی آئینہ دار ہے جو رواداری اور کثرت میں وحدت کے اقدار کا دفاع کرتے ہیں۔ کلکرنی نے کہاکہ انھیں مرہٹہ ہونے پر فخر ہے۔ ممبئی مہاراشٹرا کا ہے لیکن اس سے پہلے یہ قومی اور بین الاقوامی شہر بھی ہے ۔ یہاں رواداری ، آزاد خیالی ، جمہوریت اور کثیرمذاہب کے لوگ آباد ہیں ۔
خورشید محمود قصوری نے شہر میں قیام کے دوران انھیں تحفظ فراہم کرنے پر چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فرنویس کا شکریہ ادا کیا ۔ سدھیندر کلکرنی کے چہرے کو سیاہی پوتنے کے واقعہ پر سیاسی جماعتوں بشمول بی جے پی نے شدید تنقید کی ۔ لیکن شیوسینا نے اس کارروائی کی مدافعت کی ۔
پارٹی نے کہاکہ یہ احتجاج کی معمولی سی شکل ہے ۔ چہرے پر سیاہی پوتنا جمہوری احتجاج کی معمولی شکل ہے ۔ اگر سیاہی پھیل جائے تو پھر کوئی نہیں بتاسکتا کہ عوامی برہمی کا کیا عالم ہوگا ۔ وہ صرف سیاہی پوتنے پر اس قدر برہم ہیں تو پھر اندازہ کیجئے کہ جب ہمارے سپاہی ہلاک کئے جاتے ہیں اور اُن کا خون بہایا جاتا ہے تو اُس وقت ہمارا کیا حال ہوتا ۔یہ سیاہی نہیں بلکہ ہمارے سپاہیوں کا خون ہے ۔
شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے قصوری پر تمام مخالف ہند انتہاپسند تنظیموں کو یکجا کرنے کا الزام عائد کیا تاکہ پاکستان کے کشمیر ایجنڈے کو پورا کیا جاسکے ۔ مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے شیوسینکوں کے احتجاج کی مذمت کی اور کہا کہ ہر شخص کو احتجاج کی آزادی حاصل ہے لیکن کسی کو جسمانی طورپر ضرر نہیں پہونچایا جاسکتا ۔
شیوسینا نے حال ہی میں منتظمین کو پاکستانی غزل گلوکارغلام علی کا پروگرام ممبئی اور پونے میں منسوخ کرنے کیلئے مجبور کیا تھا ۔ قصوری کی کتاب کی رسم اجراء تقریب کو درہم برہم کرنے کی دھمکی کے بعد کلکرنی نے شیوسینا سربراہ اُدھو ٹھاکرے سے کل رات ملاقات کی اور اُنھیں بتایا تھا کہ اس تقریب کو منعقد کیا جانا چاہئے کیونکہ کارگل لڑائی یا 26/11 حملوں کے دوران قصوری پاکستان کے وزیر خارجہ نہیں تھے ۔
انھوں نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ شیوسینا کا کوئی نمائندہ شہ نشین پر موجود رہ سکتا ہے اور اُسے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس کے باوجود شیوسینا لیڈر نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
روزنامہ سیاست حیدر آباد انڈیا