گفتگو: لیاقت علی ایڈووکیٹ ۔ شعیب عادل
شعبہ کشمیریات پنجاب یونیورسٹی کے بانی و سابق چئیرمین ڈاکٹر یوسف بخاری بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے اور شہر کے سب سے اعلیٰ سکول سینٹ جوزف میں تعلیم حاصل کی۔ اپنے زمانہ سکول کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس سکول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی تھی۔جن میں بحث و مباحثے کے علاوہ مختلف کھیلوں پر زور دیا جاتا تھا۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بعد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ مقبول بٹ بھی یہیں سے پڑھے تھے اور سابقہ جسٹس آزاد کشمیر بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں۔
زمانہ طالب علمی میں وہ کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم رہے۔ جس کی وجہ سے مختلف ایجنسیاں ان کے پیچھے لگی رہیں۔ 1963 میں بی اے کیااور اسی سال والدین کی وفات کے بعد پاکستان آگئے۔ یہاں ان کے دو بھائی پہلے سے ملازمت کررہے تھے ۔ ان کے سر پر کشمیر کو آزاد کرانے کی دھن سوار تھی اور ان کا خیال تھا کہ یہاں سے وہ کشمیر کی آزادی کے لیے بہتر طریقے سے کام کر سکیں گے لیکن پاکستان آکر انہیں مایوسی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان سے بھیجے ہوئے مجاہد صرف اس لیے پکڑے جاتے تھے کہ وہ کشمیری زبان اور رسوم ورواج سے قطعاً نابلد ہوتے تھے اور انہیں یہ سب دیکھ کر دکھ ہوتا تھا۔پاکستان آنے کے بعد ان کا خیال تھا کہ یہاں ایک ایسے ادارے کے قیام کی اشد ضرورت ہے جہاں طلبا کشمیری زبان کے ساتھ ساتھ وہاں کی ثقافت اور رسوم و رواج کو جان سکیں۔ وہ کشمیری زبان و ادب کو فروغ دینے کے خواہاں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی آزادی کے حق میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ لہذ اکشمیر کے متعلق جاننے کے لیے ایک ادارے کے قیام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار پنجاب یونیورسٹی کے حکام سے کیا تو انہیں جواب ملا کہ وہ محض گریجویٹ ہیں لہذا انہیں اس مقصد کے لیے یونیورسٹی میں ملازمت نہیں دی جا سکتی۔ 1968 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور انگلش کیا اور محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی ۔ 1977 میں کشمیری اور اردو زبان کے تقابلی جائزہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے دوبارہ یونیورسٹی حکام سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ یہاں کشمیریات سے متعلق کوئی شعبہ ہونا چاہیے لیکن کسی نے ان کے مشورے کو اہمیت نہ دی۔
سنہ 1973 میں ممتاز مسلم لیگی رہنما ابو سعید انور کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی ۔ ان کے سسر کی وفات پر جنرل ضیاء الحق تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے تو انہوں نے جنرل صاحب سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ کشمیر ی زبان و ثقافت کے متعلق کوئی ادارہ ہونا چاہیے۔ جنر ل ضیاء نے اس وقت کے پنجاب کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل جیلانی کے ذمہ ادارہ قائم کرنے کی ڈیوٹی لگادی۔
بہرحال 1982 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے کشمیری زبان سے متعلق ڈپلومہ کورس شروع کیا اور دوسال بعد سرٹیفیکیٹ کورس کا آغاز کیا۔اس دوران مختلف حلقوں کی طرف سے مخالفت بھی ہوتی رہی ۔ 1987 میں اس کو باقاعدہ شعبے کا درجہ دے کر ایم اے کلاسز کا اجراء کیا اور اب پی ایچ ڈی تک لے جایا گیا ہے۔ اس شعبے کے لیے تمام نصاب یوسف بخاری صاحب نے خود تیار کیا اور ریٹائر منٹ کے بعد آج کل بطور وزیٹنگ پروفیسر پڑھا رہے ہیں ۔ ( 2012میں ان کا انتقال ہو گیا تھا)۔
پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی ، لاہور،واحد ادارہ ہے جہاں اورئینٹل کالج کی عمارت میں شعبہ کشمیریات قائم ہے ۔ اس شعبے کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شعبہ آئی ایس آئی نے اپنی کشمیر پالیسی کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں۔
یوسف بخاری نے اس تاثر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے شعبہ میں ہر قسم کی ریسرچ ہوتی ہے۔ یہاں ایم اے کے طالب علموں نے جو تھیسیس لکھے ہیں وہ ضروری نہیں ایسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے مطابق ہوں اور یہ تھیسیس شعبے کی لائبریری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے کسی فورم پر اس لیے نہیں بلا یا جاتا کہ میں کشمیر کے مسئلے پر ایسٹیبشلمنٹ کے موقف کا حامی نہیں ہوں۔ بلکہ آزاد کشمیر کی حکومت نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ شعبہ کشمیریات کو بند کیا جائے اس سے ہمارے ہاں انتشار پھیل رہا ہے۔
جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبا کے ارکان بھی ہمارے شعبے کے اساتذہ سے نہ صرف بدتمیزی کرتے ہیں بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرتے اور اکثر دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مسلح جدوجہد سے نہیں دوستی اور محبت سے حل ہوگا۔اور میں نے اس کا اظہار ملکی اور غیر ملکی فورمز پر کیاہے۔ ایل او سی کو لائن آف کنٹرول نہیں لائن آف کامرس ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ 1948 میں جو قبائلی کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھیجے گئے تھے انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو زیادہ خراب کیا اور پھر ان قبائلیوں نے وہاں جولوٹ مار کی اور خواتین کی عزتوں کو پامال کیا وہ ہماری تاریخ کا شرمناک باب ہے۔اس لشکر کو خان قیوم خان اور لیاقت علی خان کی حمایت حاصل تھی۔
اسی طرح 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے نام پر جو گوریلے کشمیر بھیجے گئے اس سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچا۔ اور اب جو نام نہاد جہاد جاری ہے یہ توسراسر نان سینس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار حکیم سعید نے کشمیر کے موضوع پر کانفرنس کروائی تو انہوں نے مجھے بھی مدعو کرلیا۔جب وہاں جرنیلوں نے مجاہدین سے متعلق مافو ق الفطرت واقعات سنانے شروع کر دیے کہ مائیں ان شہیدوں کو دودھ پلانے آتی تھیں یا فرشتے ان پر سایہ کیے رکھتے تھے وغیر ہ وغیرہ۔ تو میں نے احتجاجاً کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کم ازکم اتنا جھوٹ تو بولیں جو عقل بھی تسلیم کر لے ۔ اس کے بعد تو میر ے پر حکومت اور میڈیا کے تمام دروازے بند ہوگئے۔
یوسف بخاری نے اپنی ملازمت کا ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب وہ گورنمنٹ کالج خضدار میں پڑھاتے تھے تو کسی موقع پر انہوں نے وہاں کشمیر کے حق میں دھوا ں دھار تقریر کر دی۔ جس پر کوئی بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ تقریر کے بعد وہ مجھے کہنے لگے کیوں اپنے آپ کو ہلکان کررہے ہو یہ مسئلہ پنجاب کا ہے ہمارا نہیں۔
دوران گفتگو شعبے کے موجود ہ چئیرمین ڈاکٹر اشرف قریشی (طیارہ اغوا کیسے والے) بھی موجود تھے ۔انہوں نے کہا یہ بات درست ہے کہ جو علاقے کشمیر کی سرحد کے قریب ہیں وہ ہی کشمیر کو مسئلہ سمجھتے ہیں یا اس میں دلچسپی لیتے ہیں باقیوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔
یوسف بخاری نے بتایا کہ بھارتی کشمیر ہر شعبے میں پاکستانی کشمیر سے بہت آگے نکل گیا ہے۔وہاں آزادی اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے جبکہ پاکستانی کشمیر میں اس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں یونیورسٹیاں ، ائیرپورٹ اور کئی ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں بلکہ اب تو وہاں ریل سروس بھی شروع ہو گئی ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں کیا ترقی ہونی ہے ہاں اسے کرپشن کا ماڈل قراردیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سیاست دان مکمل طور پر کٹھ پتلی ہیں جو ایسٹیلشمنٹ کے نقطہ نظر سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کر سکتے۔
یوسف بخاری نے مجید نظامی اور ان کے اخبار پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نظریہ پاکستان کی آڑ میں کاروبار کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر یوسف بخاری علامہ اقبال کے نقطہ نظر سے بھی متفق نہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیتے تھے ۔سیکولر ازم کے حامی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آئی لو سیکولرازم آف قائداعظم۔
♣
(یوسف بخاری کی یہ گفتگو ، ماہنامہ نیا زمانہ، لاہور ،نومبر 2008 میں شائع ہوئی تھی)