کوئی گوئٹے نہیں، تو کوئی منٹوبھی نہیں

منظور بلوچ

12171184_1482250545414835_1645646162_o
اپنے بارے میں لکھنا بہت معیوب سی بات ہے۔ میری حتی الوسع کوشش ہوتی ہے۔ کہ اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھوں ٹھیک ہے کہ لوگ مجھے جذباتی کہتے ہیں میری تحریروں میں استدلال کے بجائے انہیں برہمی اور ذاتیات اور فتویٰ بازی نظرآتی ہے۔

میں نے اختلاف رائے کی صورت میں گالیاں بھی کھائی ہیں اس سے تکلیف تو ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک شخص اپنے احساسات اور جذبات سے سمجھوتہ نہیں کرتا تو دشنام طرازیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ تو اپنے مقصد کی خاطر جان قربان کرتے ہیں لیکن ہم نازک مزاج دشنام طرازی سے بھی گھبراتے ہیں۔

اس مختصر سی زندگی میں وجاہت صاحب، آپ نے مجھ پر جودشنام طرازی کی ہے میں اس کا حقدار بھی نہیں سزاوار بھی نہیں۔ لیکن اتنی بڑی گالی میں نے آج تک کھائی نہیں۔آپ نے روز نامہ’’جنگ‘‘کے کالم میں میرے متعلق تحریر کیا کہ میرے سوالات ایسے ہیں کہ کوئی گوئٹے ہی ان کا جواب دے سکتا ۔یا یہ کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں شاہد آپ نے نہایت کاریگری سے مجھ پر طنز کیا لیکن میں اسے اپنے لیے ایک بہت بڑا دشنام سمجھتا ہوں۔

اس لیے کہ میں ایک بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ بونا شخص ہوں مجھ پر دانشوری کی پھبتی جچتی نہیں میں تو علم اور جانکاری سے متعلق الف بے سے بھی واقف نہیں مجھے اپنی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔لیکن میں جو غلط سلط یا استدلال سے عاری سوالات پوچھتا ہوں تو اس کی ایک وجہ بھی ہے۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے نادان شخص کے پلے میں یہ بات غلط طور پر پڑ چکی ہے۔کہ سوالات پوچھنے کی روایت کو زندہ رکھنا چاہیے۔تاکہ آدمی منافقت سے بچا رہے۔ میں نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی چیز اختلاف رائے ہے۔ اس لیے جب بہتے ہوئے لہو کے بیچ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی بے حسی دیکھتا ہوں یا ان کی جانب سے ریاستی جرم کو جو از بنانے کی کوشش ہوئی ہے۔ تو دل ودماغ میں کچھ شکوک و شبہاتجنم لیتے ہیں۔ ہم طاقت کے ہاتھ کو روک تو نہیں سکتے۔لیکن اس ظلم وجبر کا جواز کیوں بنتے ہیں؟دوسروں کے جرائم کے لیے وکیل بننے کا فریضہ کیوں سرانجام دینے لگتے ہیں؟

جو لوگ اس کام کے لیے متعین ہیں یا وہ کسی کے پے رول پر ہیں ان سے کیا گلہ، ان سے بات کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن جو لوگ انسانیت کے علمبردار ہونے کی بات کرتے ہیں جب وہی ریاستی جبر کے سب سے بڑے وکیل صحافی بنتے ہیں۔تو پھر قحط کا احساس ہوتا ہے آدمی کے قحط کا، انسانیت کے لیے دو بول بولنے والوں کا تو ایسی صورت میں کچھ اور نہیں کر پاتا تو سفید کاغذ پر آڑھی ترچھی لیکریں کھینچ کر اس کو سیاہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

نہ میں کوئی دانش ور ہوں نہ کوئی لکھاری البتہ مجھے اس حال میں پہنچانے تک کچھ بڑے لوگوں کا کردار ضرور ہے۔جن کے خیالات سے متاثر ہو کر میں نے اپنی عاقبت خراب کر ڈالی ہے۔میں نے قصے کہانیوں سے پڑھنے کا آغاز کیا پھر اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول پڑھ ڈالے۔ جب میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا تو کرشن چندر کی تحریر میں مجھے بہت لطف دیتی تھیں۔ لیکن کرشن کی گلی سے ہوتے ہوئے منٹو کے جہاں تک آتے آتے میرے خیالات کی دنیا الٹ پلٹ ہوگئی۔

مجھ پر نہ صرف منٹو کی تحریروں نے ظلم ڈھایا بلکہ اس دوران میں دوستو فیسکی کے ناول جرم وسزانے بھی بقیہ کسرپوری کر دی۔ ابھی میں ان کے فریب کے دام سے نہیں نکلا تھا کہ محمد رفیع کی آواز کے جادو نے اپنا کام کیا۔ وہ دن اور آج کا دن محمد رفیع کی آواز میری تنہائیوں کی سب سے بڑی ساتھی ہے۔ ان کی آواز نے نفرت کی دنیا میں محبت کا آٹھواں سر جگا دیا۔اس جادو کے ساتھ ساتھ جب ساحر لدھیانوی کی شاعری شامل ہوگئی۔ تو مجھے ایک نیا سبق ملا کہ دھرم اور ذات سے بڑھ کر بھی کوئی شے ہے۔جسے انسان کہتے ہیں انہوں نے یہ سمجھا یا کہ نہ ہندو بننا نہ مسلمان بلکہ انسان بننا زندگی میں کسی کے لیے دیوار نہیں بننا۔

برا ہو منٹو کا جس نے بڑی بے رحمی کے ساتھ یہ درس دیا کہ زبان سے آگ اگلو، گلے ہوئے سڑے ہوئے معاشرے کی بدبو کا حصہ مت بنو بھلے دکھ اٹھاؤ، گالیاں کھاؤ، سنگ سر پرکھاؤ لیکن جھوٹ اور میٹھی باتیں مت بولو کیونکہ میٹھی باتیں کرنے والے اندر سے میٹھے نہیں ہوتے ان کا باطن سیاہ ہوتا ہے۔ سیاہ کو سیاہ کہو، کالے تختے پر سفید چاک سے لکھ کر اس کی سیاہی کو اور نمایاں کرو۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ اتناذہین اور نفیس شخص ساری زندگی شراب کی ایک اچھی بوتل کے لیے ترستا رہا اس نے کلیم پر اس لیے گھر حاصل نہیں کیا کہ اسے فارم میں جھوٹ لکھنا تھا۔اور جھوٹ سے وہ ناواقف تھا۔


پھر حبیب جالب کی عملی زندگی کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس نے کسی سے ساری زندگی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نیب کے خاتمے کے بعد جب بھٹو نے نیب کے پنجاب کے دیگر تمام لیڈروں کو اپنے ساتھ ملا لیا تو ان کے ایک رفیق نے بتایا کہ جالب پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔ بھٹو نے یہ ذمہ داری خود لے لی اور جالب سے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائے۔ اس بھوکے، قرض پر اپنے گھر کو چولھا جلانے والے نے تاریخی جملہ کہا کہ بھٹو صاحب!کبھی سمندر بھی دریا میں گرے ہیں۔

اس وقت میرے آنسو چھلک پڑے جب جالب کی وفات کے بعد نواز شریف وزیرا عظم کی حیثیت سے شہباز شریف کے ہمراہ جالب کی بیوہ کے گھر گئے۔ تو اس غریب، معذور، ان پڑھ بیوہ نے جواب میں کیا کہا۔ انھی کے الفاظ کے مطابق جالب صاحب نے کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد بہت سارے لوگ میرے گھر آئیں گے۔ لیکن میر ی عزت کا خیال رکھنا ۔

اس ان پڑھ خاتون نے وزیر اعظم سے کہا کہ اس غریب خانے میں آکر آپ نے جالب کی نہیں اپنی عزت کو بڑھایا ہے۔ اس خود دار عورت نے اپنی تمام غربت، ناداری کے باوجود یہ کہہ کر دس لاکھ روپے کی رقم کو ٹھکرا دیا کہ یہ گھر جالب کا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں سے سمجھوتہ نہیں کیا میں کیسے کر سکتی ہوں۔

اس دن مجھے احساس ہوا کہ ہم پڑھے لکھے لوگ باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں تھوڑی سی محتاجی ہم سے برداشت نہیں ہوسکتی کسی ایک تقریب میں شرکت، کسی ایک ظالم صاحب حیثیت کی چائے پر جانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر کالم لکھ کر اپنے آپ کو تو یہ چیز سمجھنے لگتے ہیں۔اگر جالب اور اس کی بیوہ گھر آئی ہوئی دولت کو ٹھکراسکتے ہیں تو ہم کیا ہماری حیثیت کیا؟

جالب کی شاعری بھلے پہلے درجے کی نہ ہو لیکن وہ شخص پہلے درجے کے لوگوں کا امام تھا، اس نے دوسروں کی خاطر صعوبتیں اٹھائیں کسی حکومت کے لیے گیت نہیں لکھے۔وہ اپوزیشن کا آدمی تھا۔ آخردم تک اپوزیشن ہی میں رہا جیلیں کاٹیں سڑک پر لاٹھیاں کھائیں لیکن میٹھے میٹھے گیت نہیں لکھے۔ وہ عوام میں سے تھا بالکل اصلی اور اوریجنل عوامی آدمی وہ جھوٹ جمہوریت کا تو دیدہ زیب لبادہ نہ اوڑھ سکا۔

منٹو، ساحر، حبیب جالب جیسے لوگوں کی آواز جب کانوں میں گونجتی ہے تو میں عابد میر کی طرح یہ قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ میں بدھا کی طرح سنجیدگی اختیار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بدھا نے تو خود ہی اپنے چیلوں کو بدھا بننے سے منع کر دیا تھا۔ پھر برا ہو اشو کا کا،جس نے کہا کہ دنیا میں ہر آدمی ایک مختلف آدمی ہے۔ اس دنیا میں اربوں آدمی ہیں ہر ایک کی زندگی دوسرے سے مختلف ہے لہٰذا وہ زندگی کی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ آدمی اوریجنل ہوتا ہے۔ وہ کاربن کاپی نہیں ہوتا اسے ہجوم کی بجائے اپنی اوریجنیلیٹی کے ساتھ چلنا چاہیے۔

لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یہ تو سرتاپاؤں نقلی اور جعلی ہے۔ ہماری ساری زندگی دوسروں کی نقالی میں گزر جاتی ہے۔اس کے لیے عاطف اسلم کی صابری برادران کی شاہکار قوالی کا چربہ سب سے بڑی مثال ہے۔ اس شخص نے صابری برادران کی قوالی کا جس پھونڈے انداز میں ستیا ناس کیا اس نے موسیقی کی جس طرح توہین کی اس پر اسے جوتے پڑنے کی بجائے واہ واہ کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ صابری برادران کی اصل قوالی کو سننے کی بجائے معاشرہ اس کی بے ہودہ نقل کو سن رہا ہے۔ شاہد آج کل سب سے زیادہ سنی جانے والی قوالی یہی ہے۔

اس قوالی میں صرف ’’صبا‘‘کی ادائیگی جس طرح سے غلام فریدنے کی ہے عاطف کو اگر آٹھ جنم ملیں تو وہ یہ ادائیگیکرنے سے قاصر ہوگا ۔کہاں مقبول صابری کی خوبصورت آواز کہاں اس کے گلے سے نکلنے والی مرکھیاں یہ معاشرہ نقل سے خوش ہوتا ہے۔ جعلی چیزوں کا دلدادہ ہے۔ یہاں کسی اوریجنل آدمی کے لیے اپنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

بات گوئٹے سے شروع ہوئی جانے کہاں پہنچ گئی؟

گوئٹے تو اپنی جگہ المیہ ہے کہ اب یہاں کوئی جالب اور منٹو بھی نہیں ۔روایت ہے کہ مرتے وقت منٹو ایک ’’سلطانہ‘‘ نامی عورت کے ساتھ ہونے والے ریپ پر کہانی لکھنا چاہتا تھا لیکن وہ لکھ نہیں سکا ۔قلم اٹھانے سے پہلے اس کے منہ سے خون کا فوراہ ابل پڑا کیونکہ وہ ٹھرے پی پی کر اپنے جگراور زندگی کو برباد کر چکا تھا۔ مرتے وقت اس کے الفاظ تھے کہ اب اس ذلت کو ختم ہو جانا چاہیے۔

اگر منٹو انگریزوں کی نو آباد یات میں’’نیا قانون‘‘ لکھ سکتا تھا۔ فسادات پر’’ٹھنڈا گوشت‘‘’’موذیل‘‘اور ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھ سکتا تھا۔ گوپی ناتھ کا کردار پینٹ کر سکتا تھا تو کیا وہ اس’’سلطانہ ‘‘پر کوئی کہانی نہیں لکھ سکتا جس کا ساٹھ سالوں سے ریپ ہو رہا ہے۔

اس’’ سلطانہ‘‘ کا نام بلوچستان ہے لیکن کی کہانی کار کو یہ ’’سلطانہ‘‘نظر نہیں آتا کوئی اس کی کہانی لکھتے وقت منہ سے خون کے دریا نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ خاصا تو صرف اسی ایک شخص کا تھا ۔اس نے کبھی غاصبوں جابروں کے حق میں نہیں لکھا حتیٰ کہ وہ اپنے خاکوں میں بھی اتنا ہی بے رحم تھا۔ اس نے آغا حشر کاکا شمیری کا خاکہ لکھ کر اس کی بھینگی آنکھ کو بھینگی آنکھ ہی لکھا ۔اس نے اجمل کمال کی طرح آغا حشر کا شہری اور میراجی سمیت دیگر زندہ کرداروں کو کسی بیوٹی پارلر میں لے کر نہیں بیٹھ گیا ۔کسی کے گھنگھر یالے بالوں کی خراش تراش نہیں کی۔

اس نے طوائف کو طوائف، بھڑوے کو بھڑواہی لکھا۔ لیکن یہ بھی لکھا کہ ان گرے پڑے آدمیوں میں بھی انسانیت کی رمق ہوتیہے۔ انسانیت کی رمق دکھاتے وہ خود عبرت کا نشان بن گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج منٹو زندہ ہوتے تووہ بلوچستان پر کالے حاشیے لکھتے لیکن چاند کو پینٹ کرنے پر اپنی کاٹ دار آواز میں ضرور یہ کہتا کہ اے چغد! یہ کیا لکھ رہے ہو۔ اگر ایسی کوئی تحریر ہوتیتووہ ایسے بے رحمانہ طریقہ سے قلم سے اس پر کاٹ کا نشان لگا لیتا۔ اور پھر آخر میں چند جملے اپنی طرف سے اضافہ کر کے کہتا کہ اس طرح سے لکھاجاتا ہے۔

ہمیں آپ کوئی گوئٹے نہیں دیں، ہمیں کسی افلاطون یا بقراط کی بھی ضرورت نہیں ،ہمیں بدھا، نیلسن منڈیلا اورکسی گاندھی کی ضرورت نہیں۔

اگر آپ لوگ دے سکتے ہیں تو فقط ایک منٹو ہی دے دیں جو چھ دہائیوں سے ریپ ہونے والی ’’سلطانہ‘‘ پر فقط ایک کہانی لکھ سکے صرف ایک کہانی۔

Comments are closed.