مارکس کا تصورِ قدر و جبر

ارشد نذیر

proudly-karl
قدر و جبر یعنی اس دنیا میں انسان کس حد تک مختار ہے اور کس حد تک مجبور۔ انسان مکمل طور پر آزاد ہے یا مجبورِ محض۔ یہ وہ بنیادی قسم کا فلسفیانہ سوال ہے جس نے دورِ قدیم کے فلسفیوں کو صدیوں تک پریشان کئے رکھا ۔ تمام فلسفیوں نے اپنے اپنے انداز میں غور و فکر کیا اور اس عقدے کو سلجھانے کی کوشش لیکن یہ وہ گتھی تھی کہ کسی طور بھی سلجھنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔

اس حوالے سے مثالیت پسند اور مذہب پسند وں کا نقطہِ نظر قریب قریب ایک جیسا رہاہے۔ مثالیت پسندوں کا خیال ہے کہ مادی کائنات سے ماورا کوئی غیر مرئی طاقت ہے جس نے کائنات اور انسان دونوں کے لئے ضابطے مرتب کئے ہیں اور وہ ان قواعد و ضوابط کی حدود کے اندر زندگی بسر کرنے کے پابند ہیں۔یہ غیر مرئی طاقت اس مادی کائنات میں کار فرما قواعد و ضوابط میں ترمیم و تبدیلی کی بھی مکمل قدرت اور صلاحیت رکھتی ہے۔

مذہب پسند اس غیر مرئی طاقت کی اس صلاحیت کو معجزات بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ مذہب کا تمام تر بالائی ڈھانچہ چند بنیادی معجزات یا ماورائے عقل و فطرت مظاہر پر تعمیر کیا گیا ہے۔ مذہب انسان کی روح اور ذہن کو بھی غیر مادی اور غیر مرئی اشیاء خیال کرتا ہے۔ اس کے مطابق بچپن ہی سے انسانی ذہن یا شعور میں قدرت کے ان قواعد و ضوابط کا فہم اور ادراک موجود ہوتا ہے۔

اگر وہ قدرت کے ان قواعد و ضوابط کی حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارتا ہے ، تو وہ اس ماورائی یا غیر مرئی طاقت کی منشاء کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے ۔ اُسے سکون اور مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ انہی حدود کے اندر اور قواعد کی پاسداری میں بسر کی گئی زندگی کو ہی انسانی آزادی کہا جاتا ہے۔ وہ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہو سکتاہے ۔

لہٰذا مثالیت پسند اور مذہب پسند ان حدود کے اندر انسان کی آزادی کے قائل ہیں ۔ وہ ذہنی صلاحیتیں اور ذہانت ان کے لئے اس غیر مرئی طاقت کی عطا کردہ خوبی ہے۔ اس لئے وہ ہیرو ازم پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ ہیروز ہی سماج کی رہنمائی کیا کرتے ہیں۔ عوام ایک ریوڑ کی طرح ان کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ماحول اس پر اپنے اثرات ڈالتا ہے جس سے ذہنِ انسانی گمراہ ہو جاتا ہے اور وہ قوانینِ قدرت سے ہی برسرِپیکار ہوتا ہے۔

نتیجتاً سماج میں بے راہ روی اور گمراہی پیدا ہوتی ہے۔ جب وہ گمراہ ہوتا ہے ، تو سماج کی اس گمراہی پر کبھی کبھار غیر مرئی طاقت یا قدرت حرکت میں آ جاتی ہے اور سماوی مصائب و آفات پیدا کرکے ا نسان کی اس گمراہی ، بغاوت مثالیت پسند کائنات کو کلیت میں دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں ۔ وہ مسائل کو ان کی انفرادیت میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب یہ مسائل حل نہیں ہو پاتے، تو وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ یہ ذہین افراد ان مسائل کا حل دیں گے ۔

جب وہ بھی کوئی حل نہیں دیتے تو وہ لاحاصل اور بے مقصد روحانیت میں پناہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں حقیقی خوشی پھر بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اور رعونت کا انتقام لیتی ہے اور سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے۔

دوسری طرف جبر یا فطری مجبوری کے پہلوؤں پر فطری سائنسدانوں اور مارکسسٹوں کا نقطہِ نظر ہے۔ ان کا یہ نقطہِ نظر مادی اور سائنسی ہے۔ تاہم فطری سائنس میں بھی کچھ سائنسدان ابہام پھیلانے کا سبب بنے ہیں۔ علمِ الحیاتیات میں ڈی این اے کی دریافت اور اس کی ڈی کوڈنگ کی وجہ سے جبری سائنسدانوں نے انسان کے جبر و قدر کے حوالے سے کچھ مبہم نظریات کو عام کرنا شروع کر دیا۔ اُن کے ان مبہم اور غیر واضح نظریات نے مثالیت پسندوں اور مذہب پرستوں کو اس سائنسی تحقیق کی اُڑ میں اپنے نظریات کی صداقت کے پرچار کا جوازفراہم کر دیا ۔

ڈی این اے، جس کو انسان کی بے شمار خصلتوں اور خصوصیتوں کی سلیٹ کہا جا سکتا ہے ، پر انسان کی بہت سی موروثی اور ذاتی صلاحیتوں کے امکانات نقش ہوتے ہیں۔ ان سائنسدانوں کو قدری کہا جانے لگا۔ قدر و جبر کے حوالے سے مارکسی نقطہِ نظر مادی اور سائنسی ہے۔ مارکسی نقطہِ نظر یہ ہے کہ خارج کی دنیا انسانی واہمے اور خیال سے باہر کی ایک حقیقی دنیا ہے۔ کائنات بھی مادہ ہے اور انسان بھی مادہ ۔

تغیر و حرکت مادے کی خاصیت ہے۔ مادے کی اس حرکت کے اپنے قوانین ہیں اور یہ حرکت لاشعوری ہے ، مسلسل اور مستقل ہے۔ عام فہم زبان میں انہیں قوانین کو قدرت یا فطرت کا نام بھی دے دیا جاتا ہے ۔ مارکس ایک مادیت پسند ہونے کے ناطے کائنات کے ان قوانین کو مانتا ہے ۔ وہ کائنات کے کاز اینڈ ایفکٹ یعنی سبب و مسبب کے سلسلے کا بھی قائل ہے ۔ کوئی مسبب سبب کے بغیر معرضِ وجود میں نہیں آ سکتا۔ یہ قوانین انسان کے عمل دخل سے آزاد لاشعوری طور پر کائنات کی تشکیل و تعمیر میں کار فرما رہتے ہیں۔

اسی طرح انسان کے اپنے اندر بھی نظام موجود ہیں وہ بھی چند قاعدوں ، ضابطوں اور قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ان قوانین کی حرکت و عمل میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے ، اس حد تک موجود جبریت کو وہ مانتا ہے۔ البتہ جب تک انسان اس خارجی کائنات یا اپنی داخلی ذات کے ان قوانین کا علم حاصل نہیں کر تا اور ان سے مکمل آگاہی حاصل نہیں کر لیتا ، اُس وقت تک وہ اِن قوانین کی فطرت کے سامنے مجبورِ محض رہتا ہے ۔ وہ ان کا تابع مہمل بنا رہتا ہے ۔ وہ اس جبر کے ہاتھوں تہس نہس بھی ہو تا رہاہے۔

لیکن ان قوانین کا مطالعہ کرنا اور ان سے آگاہی حاصل کرنا اور ان کو اپنے فائدے کے لئے استعمال میں لانا ممکن ہے ۔ جب انسان ان عوامل کا مطالعہ کرکے ان سے آگاہی حاصل کرتا ہے ، تو وہ ان سے استفادہ بھی کرسکتا ہے۔ خارجی کائنات کا مطالعہ ، فرد کا مطالعہ اور سماج کا مطا لعہ سب اُس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تمام تر تاریخی مادیت انسان اور فطرت کے درمیان موجود اس جدو جہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مارکسی روح پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی انسانی ذہن کو غیر مادی شئے تصورکرتے ہیں۔ مارکسیوں کے لئے مادہ ذہن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ مادہ انسانی ذہن میں آکر باشعور ہو گیا ہے۔ خیالات اور تصورات مغزِ سر ہی کا فعل ہیں ۔ مغزِ سر کی صرف یہ صلاحیت ہے کہ یہ سوچوں کو مجرد شکل دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔مارکسسٹوں کا یہ ماننا ہے کہ سماج کے ارتقاء اور ترقی کایہ عمل جدلیاتی اصولوں کے تابع چلتا ہے ۔ سماج اور ان میں موجود نظریات سدا سے ایک جیسے نہیں تھے۔ ان میں بھی تبدیلیاں اور ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ خارجی کائنات یا معروض سماج کے رہن سہن کے ذرائع پیدا کرتا ہے۔

اسی معروض کو سمجھ کر وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل کرتا ہے۔ ثقافت، سیاست، آرٹ، ادب اور اخلاقیات جیسی اقدار کا ڈھانچہ معاشیات کی بنیادوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ مارکسیوں کے لئے اخلاقی اقدار اضافی نہیں ہیں بلکہ بدلتے ماحول کے ساتھ ان قدروں میں بھی ترمیم اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مارکسسٹ اس حوالے سے ایسے ہی نیچری یا فطرت پسند ہیں جس طرح ایک سائنسدان ہوتا ہے۔ علم و آگاہی کا یہ سفر جب ذرائع پیداوار اور طریقہِ پیداوار کو تبدیل کر دیتا ہے ، تو سماج کی تمام تر معیشت بدل جاتی ہے ۔ اس معیشت کی بنیادوں پر کھڑی ثقافت، سیاست، آرٹ ادب اور اخلاقیات سب تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

برٹرینڈ رسل نے مارکسی نہ ہونے کے باوجود مارکس کے اس فکری اجتہاد کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے: ’’بحیثیت ایک مفکر مارکس راستی پر تھا۔ اس نے یہ اصول محکم کیا کہ تاریخ میں سیاسی، مذہبی اور تاریخی ارتقاء معاشی ارتقاء کا سبب نہیں ہے بلکہ اس کا نتیجہ ہے ۔

یہ ایک عظیم ثمر آور خیال ہے جو کلی طور پر مارکس کی ایجاد بھی نہیں ہے کہ اس کا اظہار جزوی طور پر دوسروں نے بھی کیا ہے۔ بہرصورت یہ اعزاز مارکس ہی کا ہے کہ اس نے اس اصول کو مضبوط استدلال سے ثابت کیا اور اسے اپنے معاشی نظام کا سنگِ بنیاد قرار دیا۔ ‘‘ (حوالہ کتاب و تاریخ کا نیا موڑ مصنف: علی عباس جلالپوری)۔

فطرت کے اس جبر کے خارجی اور داخلی پہلو ہوتے ہیں ۔ پھول کا پھل میں بدل جانا داخلی جبر یا اُس داخلی قانون و قاعدے کی مثال ہے لیکن اگر یہ پھول طوفان کی ضد میں آ کر فنا ہو جائے تو یہ خارجی جبر ہوگا۔    مارکسی مثالیت پسندوں اور مذہب پسندوں کے برعکس کائنات کو اس کی کلیت میں دیکھنے کے قائل ہوتے ہیں اور اسی وسیع تناظر میں معروض اور فرد کے رشتے کو سمجھتے ہیں۔ نیز وہ معروض اور فرد کے تعلق میں فرد کو مبالغہ آمیز حیثیت نہیں دیتے۔ وہ سماج میں اجتماعی کردار کو حیثیت دیتے ہیں۔ وہ جبر کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے بھی خوش رہتے ہیں اور لاحاصل اور بے معنی مبالغہ آمیز ہیروز یا روحانیت پرست شخصیتوں کی آڑ میں مسائل کے حل تلاش نہیں کرتے۔  

 اسی طرح اب اس بات کا علم حاصل کیا جا چکا ہے کہ 300 سے زائد امینوایسڈ فطرت میں موجود ہیں۔ عام طور پر ان میں سے 20 پروٹین ہی ممالیہ اور انسانوں کے ڈی این اے کے اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں۔بچے کی پیدائش کے عمل میں23 کروموسومز ماں کی طرف سے اور23 کروموسومز باپ کی طرف سے شریک ہوتے ،انسان کی تخلیق کے اس عمل اور ترکیب کو داخلی جبر کہا جا سکتا ہے کیونکہ 46 کروموسومز ہی انسان تخلیق کر سکتے ہیں ۔ اِن میں کسی قسم کی کمی بیشی کوئی اور جانور یا ابنارمل جانور تو پیدا کر سکتی ہے لیکن انسان پیدا نہیں کر سکتی۔

آج بھی سمندری طوفانوں اور تیز بارشوں اور زلزلوں جیسے خارجی محرکات کی دستبرد پر انسان مکمل قابونہیں پا سکا۔ تاہم ان کی پیش گوئی سے وہ جان و مال کے بڑے پیمانے پر نقصان سے محفوظ ہونے کے طریقے تلاش کر چکا ہے۔ ڈی این اے کی تحقیق جس کی آڑ میں انسان کو مجبورِ محض کے طور پر ظاہر کیا جانے لگا تھا، نے بھی انسان کے علم و آگہی کے نئے دریچے وا کئے اور آج ڈی این اے کے بارے میں یہی معلومات ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی مورثی بیماری کے علاج کا سبب گئی ہیں۔

اسی تحقیق کی روشنی میں کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کی دریافت کے امکانات پیدا ہو چلے ہیں۔ کائنات کے اُن حصوں اور مظاہر جو ابھی انسانی عقل و شعور سے باہر ہیں لیکن اُن میں مسلسل تغیر و تبدل کاعمل جاری ہے، کے بارے میں انسانی عقل و علم مکمل احاطہ نہیں کر سکے ہیں ۔ بلاشبہ یہ خارجی جبر ہی ہے۔کائنات میں موجود دیگر سیاروں اور ستاروں کا تغیر و تبدل اگر انسان ، انسانی سماج اور اس کے طریقہِ پیداوار اور ذرائعِ پیداوار پر براہِ راست منفی یا مثبت طور پر اثرانداز ہو نا شروع کر دے تو ان کے بارے میں شعوروآگہی حاصل کرنے کی انسان کی خواہش اور کوشش لازماً بڑھ جاتی ہے اور تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

انسان اور خارجی دنیا میں یہی کشمکش انسانی سماج کی ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے۔

Tags: ,

One Comment