میں کس خدا کی پیروی کروں
میر سمالی
آج یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد تارکین وطن کی صورت میں سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے یورپین یونین لائحہ عمل تیار کر رہی ہے ۔ اس وقت ان پناہ گزینوں کی امدا د میں جرمنی سب سے آگے ہے۔ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد شام سے آرہی ہے جو پچھلے چار سال سے شدید خانہ جنگی کا شکار ہے۔ جس میں دو لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں در بدر ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان، عراق، اری ٹیریا، نائیجیریا، صومالیہ اور کوسوو سے بھی بڑی تعداد میں لوگ یورپ آرہے ہیں ۔ اب تک کوئی پانچ لاکھ کے قریب پناہ گزین یورپ آچکے ہیں۔ زیادہ تر پناہ گزین نوجوان ہیں کیونکہ عورتوں اور بچوں کے لیے ترکی سے یونا ن کا کھلے سمندر اور کھلی کشتی میں سفر انتہائی خطرناک ہے ۔ خاص طور پر بچوں کی صورتحال تو بہت ہی خراب ہے اور پھر ضروری نہیں کہ ہر کشتی بحفاظت اپنے مقام پر پہنچ سکے ۔ سینکڑوں افراد بیچ سمندر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
یورپی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کرسچین این جی او کی بڑی تعدا د ان لوگوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ایک کرسچین این جی او سمارٹین پرس انٹرنیشنل
Samaritian’s Purse International Relief
کے کارکن یونان اور کروشیا میں لٹے پٹے پناہ گزینوں کی مدد میں رات دن مصروف ہیں ۔
یونان میں یہ مختلف جزیروں پر کشتیوں کے ذریعے آنے والے پناہ گزینوں کو فوری طور پر ضروری اشیا مہیاکرتے ہیں۔ ہر روز ایتھنز میں یہ تنظیم سینکڑوں افراد کی امداد کرتی نظر آرہی ہے جنہیں خوراک، پینے کا پانی ،صابن ،کمبل، گرم کپڑے اور طبی امداد مہیا کی جاتی ہے۔
یہی تنظیم سربیااور ہنگری کی کرسچین تنظیموں کے ساتھ مل کر میسیدونیا میں بھی خواتین اور بچوں کو خورا ک اور ضروری اشیا مہیا کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ پناہ گزین ان کرسچین تنظیموں کے کارکنوں کا شکریہ ادا کرکے اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اوران کے کارکن دعا کرتے ہیں کہ یہ اپنی منزل پر خیر خیریت سے پہنچ جائیں۔
میں جب ان کی ویڈیو دیکھ رہا تھا (اس ویڈیو کا لنک نیچے دیا گیا ہے) تو میراذہن یہ سوچ رہا تھا کہ کرسچین کے خدا اور مسلمانوں کے خدا میں کتنا بڑا فرق ہے۔ کرسچین کا خدا انسانیت سے محبت کی تعلیم دے رہا ہے اور اس کے پیروکار رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر ان کی امداد کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کاخدا انہیں لڑنے کی تعلیم دے رہا ہے ۔ شام ،عراق، ترکی ، افغانستان اور پاکستان میں مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہے ہیں، مسلمان خود کش حملہ آور دنیا بھر میں اسلام کی بالا دستی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ اسلام دنیا کا انتہا ئی پرامن مذہب ہے۔
مسلمان بادشاہ اپنی بادشاہت کو قائم رکھنے لیے انتہا پسندوں کے لشکر کے لشکر تیار کر رہے ہیں۔ یہ کیسا پرامن مذہب ہے جو عورتوں کے حقوق کی اٹھتے بیٹھتے بات کرتا ہے لیکن آج تک کسی مسلمان کی طرف سے عورت کی عزت کرتے نہیں دیکھا گیاہمیشہ اس کی حیثیت ایک جانور کی سی رہی ہے۔
ابتداء میں اگر یہ پناہ گزین کسی مسلمان ملک، اردن ، میں پناہ لے بھی لی ہے تو مسلمان مردوں کی حریصانہ نگاہیں پناہ گزین عورتوں اور چھوٹی بچیوں کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور امیر عرب تو پیسے دے کر چند دنوں کے لیے عارضی شادی کرنے میں مصروف ہیں جبکہ یہی پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ کر اپنی اوقات پر اتر آتے ہیں۔
مسلمان پچھلے چودہ سو سالوں سے دعوے تو کرتے چلے آرہے ہیں مگر اس کا عملی مظاہرہ آج تک نظر نہیں آیا اور اگر کوئی مجبور ان کے ہاتھ لگ جائے تو اسے اسلام قبول کرنےپر مجبور کرتے ہیں۔
♣
ویڈیو دیکھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو نئی ونڈو کھول کر پیسٹ کر دیں۔