محمد شعیب عادل
پچھلے ہفتے پوپ فرانسس نے امریکہ کا بھرپور دورہ کیا ۔ اپنے دورے میں انہوں نے امریکی کانگریس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کیا۔ امریکی صدر اوبامہ نے انہیں خاص طور پر وائٹ ہاؤس بھی مدعو کیا ۔ پوپ دنیا کی واحد مذہبی شخصیت ہے جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد واشنگٹن کی سڑکوں پرکئی کئی گھنٹے کھڑے انتظار کرتے رہے۔
پوپ فرانسس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نوع انسانی کو درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے سائنس کے استعمال پر زور دیاٍ۔ انہوں نے کہا کہ’’ نوع انسانی کو درپیش مسائل کو سائنس زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتی ہے۔۔۔ انسان ماحولیاتی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ماحول کو نقصان پہنچنے کا مطلب انسانیت کو نقصان پہنچنا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ انسانی سمگلنگ، منشیات کی تجارت اور نیوکلئیرہتھیاروں کی تیاری کو روکا جائے۔انھوں نے مزید کہا کہ طاقت کا غلط استعمال، قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور غربت کو نظر انداز کرنا اس وقت نوع انسانی کو درپیش سب سے بڑے مسائل ہیں۔
انسانی تاریخ میں اسے پہلا واقعہ ہی کہا جا سکتا ہے جس میں ایک بنیاد پرست مذہب کے پیشوا نے نو ع انسانی کو درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے سائنس سے مدد حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وگرنہ ہر مذہب کے پیشواا ن مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑا کر معافی مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کی صورت میں بتاتے ہیں۔تماممذہبی پیشواؤں کے نزدیک آج انسانیت جن مسائل کا شکار ہے اس کی وجہ مذہب سے دوری ہے اورمذہبی احکام پر عمل نہ کرنا ہے۔
کوئی بھی مذہب اپنی اصل میں بنیاد پرست ہوتا ہے اور مذہبی پیشوا اپنی پیشوائیت کو قائم رکھنے کے لیے ہزارو ں سالوں سے چلے آرہے رسوم و رواج کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں اور مخصوص اوراد و وظائف کے استعمال کو اپنے گناہوں کی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ ویسے بھی تمام الہامی مذاہب میں اس دنیا سے زیادہ اگلی دنیا کی فکرکی جاتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ارتقاء کا عمل بھی جاری ہے ۔ ارتقا ء کا عمل سوچنے اور غور وفکر کا مرہون منت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب آپ موجودہ علم کو شک کی نظر سے دیکھیں، اس پر سوال اٹھائیں ۔ اگر انسان مطمئن ہو کر بیٹھ جائے کہ مجھے قیامت تک کا علم مل گیا ہے تو پھر غور وفکر کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی میں جمود طاری ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ ذہنی طور پر جمود کا شکار رہتا ہے جبکہ زمانہ آگے کی طرف رواں دواں ہے۔
لہذا جب کوئی نئی سائنسی ایجاد ہوتی ہے تو مذہبی پیشوا کا ذہن اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا مگر آہستہ آہستہ وہ اسے اپنے استعمال کے لیے درست قرار دے دیتا ہے۔ لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہو یا ریڈیو اور پھر ٹی وی ہندوستان میں ایک لمبے عرصے تک حرام سمجھے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی کئی لوگ اپنی تصویر اتروانے کو حرام خیال کرتے ہیں۔ لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید نے تو 1990 کی دہائی میں جہاد کشمیر کے ساتھ ساتھ ٹی وی توڑ مہم بھی شروع کی تھی اوران کے میگزین میں بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا جاتا تھا کہ اس ہفتے کتنے ٹی وی توڑے گئے مگر اس عمل کو کوئی زیادہ پذیرائی نہ ملی۔
حافظ سعید تو ٹی وی پر آنا بھی حرام خیال کرتے تھے مگر وقت کے تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو گئے اور انہوں نے شرط لگائی کہ میں ٹی وی پر اسی صورت آؤں گا کہ میرا چہرہ نہ دکھایا جائے۔کوئی ایک سال وہ ٹی وی پر آتے رہے لیکن ناظرین ان کی کمر ہی دیکھ پاتے ۔پھر اچانک کھل کر سامنے آگئے اوراب تو یہ حال ہے کہ جب تک ٹی وی کیمرے نہ آئیں اپنی تقریر ہی شروع نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے جھوٹی ایکٹنگ کرنی پڑے تو وہ بھی کر لیتے ہیں۔پچھلے سال جیو ٹی وی کے پروگرام’’ ایک دن جیو‘‘ میں آئے تو انہیں سیلاب زدگان کی مدد کرتے دکھایا گیا ۔ سیلاب تو ختم ہو چکا تھا لیکن فلمبندی کے لیے انہیں کسی نہرمیں ایک کشتی میں سیلاب زدگان کا جائزہ لیتے دکھایا گیا۔
مسلم معاشرہ ٹیکنالوجی کا استعمال تو سیکھ لیتا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کا مالک نہیں بن سکتاکیونکہ مسلم معاشرے میں مجموعی طور پرغور و فکر کرنا یا سوچناابھی تک شجر ممنوعہ ہے۔جبکہ مسیحی معاشرے میں سوچ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ اسی کھلی سوچ اور غور و فکر کی بدولت مغربی ممالک سائنس وٹیکنالوجی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔مسلمان دانشور اور تو کچھ کر نہیں سکتا یورپ کی سائنسی ترقی کو اپنے نام لگاکر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتا ہے۔
یہ دانشور جدید علوم کے متعلق دعویٰ کر تے ہیں کہ یہ کچھ ہماری مذہبی کتاب میں پہلے سے موجود تھا۔ایک سائنسدان اپنی زندگی ریسرچ پر لگا دیتا ہے اور جو نتائج نکالتا ہے تو مسلمانوں کا روشن خیال طبقہ جھٹ سے اس پر اپنی مہر لگادیتا ہے کہ اسلام نے تو چودہ سوسال پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے پہلے بھی لوگ قرآن پڑھتے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب گلیلیو نے دوربین ایجاد کی اور کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو مسیحی دنیا میں بھونچال آگیا تھا ۔ اس زمانے میں غور وفکر کرنے والے کو قتل کے فتووں کا سامنا کرنا پڑتا تھا (مسلم سماج میں آج بھی صورت حال جوں کی توں ہے)۔لیکن جب سے مذہب اور ریاست علیحدہ ہوئے تو یہ ممالک ترقی کرتے گئے اور آ ج مغربی ممالک کے لوگ جن کا مذہب تو مسیحیت ہی ہے مگر سیکولرازم کی بدولت ایک روشن خیال معاشرہ تشکیل دے چکے ہیں جس میں اتنی وسعت ہے کہ ہر مذہب و نسل و رنگ کے افراد کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔شرط صرف یہی ہے کہ مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ سمجھا جائے۔
2014 میں پوپ فرانسس نے پونٹیفکل سوسائٹی آف سائنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ نظریہ ارتقاء اور بگ بینگ تھیوری درست ہیں۔ ہمیں کائنات کے ارتقاء کے متعلق گھسے پٹے نظریات سے جان چھڑا لینی چاہیے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ خدا کوئی جادوگر ہے اور نہ ہی اس کے پاس جادو کی چھڑی ہے جس کے گھمانے سے وہ کائنات بنا دیتاہے‘‘۔(۱)۔
پوپ فرانسس کا تعلق مسیحیوں کے بنیاد پرست فرقے کیتھو لک چرچ سے ہے جو انتہائی بنیاد پرست نظریات اور عقائد کا مالک ہے۔
سوال یہ ہے کہ پوپ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی شاید اس لیے کہ آج کی جدید دنیا میں سائنسی ترقی کی رفتار بہت بڑھ گئی ہے ۔ مغربی سماج سائنسی انداز فکر اپنا چکا ہے اوریورپ کی نئی نسل ہر مسئلے کو سائنسی دلائل کی روشنی میں دیکھتی ہے اور جب وہ مذہبی کہانیاں پڑھتی ہے تو ان کہانیوں پر سوال اٹھانا شروع کردیتی ہے ۔ شاید اسی لیے پوپ کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ حقیقتوں کو قبول کر لینا چاہیے وگرنہ مذہب کی رہی سہی ساکھ بھی جلد ہی ختم ہو جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ پوپ نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور بگ بینگ تھیوری کو درست قراردے دیا ہے۔
اس کے برعکس مسلم دنیا میں ایسا کوئی مظاہرہ نظر نہیں آرہا۔مسلم معاشرہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ اگر کوئی فرد کسی مذہبی کہانی پر سوال اٹھا لے یا کسی سائنسی تحقیق کا حوالہ دے دے تو اس کو اپنی جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے۔ویسے تو قرآن میں بھی ارتقاء اور کائنات کی پیدائش سے متعلقہ نظریات تورات سے ہی اخذ کیے گئے ہیں ۔ پوپ نے توان کا انکار کر دیا ہے لیکن مسلم پیشوا اس کو رد تو نہیں کر سکتے ۔ہاں ہر دور میں اس کی کوئی نئی توجیہہ پیش کر سکتے ہیں۔
مسلم دنیا میں صرف ہندوستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ایک شخصیت سر سید احمد خان کی گزری ہے جس نے قرآن حکیم کی سائنسی حوالے سے تشریح کی تھی اور ہمارے علماء نے نیچری کہہ کر ان پر کفر کا فتویٰ لگا یا تھا۔سر سید احمد خان جب لند ن گئے تو وہاں کے سیکولر سماج اور سائنسی سوچ سے متاثر ہوئے ۔ مغربی دانشور سائنس کی روشنی میں قرآن پر بھی اعتراضات اٹھا رہے تھے لہذا انہوں نے ان اعتراضا ت کا جواب سائنس کے مطابق دیے۔
سنہ 1871 میں سر سید نے تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا جس میں مذہبی و سماجی حوالوں سے روشن خیال مضامین لکھے(۲)۔ اس دوران انہوں نے تفسیر القرآن کے نام سے قرآن کی تفسیر بھی لکھی اور جدید حالات کے مطابق تشریح کی(۳)۔ ان کی مخاطب اس وقت کی نوجوان نسل تھی جو یورپ کی سائنسی فکر سے متاثر ہوکر مذہب سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔
مثلاً فرشتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مخلوق نہیں بلکہ نیچر کی قوتیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر نیچری کی پھبتی کسی گئی۔ سرسید نے کہا کہ ’’جن یا جنات‘‘ کوئی غیر مرئی مخلوق نہیں بلکہ وہ دوردراز کے علاقوں میں رہنے والے لوگ ہیں جو نظر نہیں آتے۔ قرآن میں ’’جن و انس ‘‘کا جو ذکر ہے اصل میں وہ شہری اور دیہاتی آبادی کو مخاطب کرتا ہے۔اسی طرح معراج کے واقعے کی توجیح کرتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ؐ آسمانوں پر نہیں گئے تھے بلکہ یہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا تمثیلی واقعہ ہے۔
سر سید نے یہ سب کچھ کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے کہا مگر مسلم معاشرہ آج بھی ان کے نظریات یا توجہیات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں چہ جائیکہ کہ وہ نئی بات سوچے۔لیکن مسیحی معاشرہ اتنا روشن خیال ہو چکاہے کہ اس نے پوپ کے خیالات کو سراہا ہے ۔
پوپ فرانسس کی روشن خیالی اور غیر متعصب سوچ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دہریوں کو یقین دلایا کہ اگر تم خدا پر یقین نہیں بھی رکھتے تو تم جنت میں جاؤ گے۔ پوپ فرانسس نے اٹلی کے اخبار لا ریپبلک کے مالک اینجینو سکلفاری کو کہا کہ اگر تم اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرتے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا آپ کو جنت نہ بھیجے۔
لا ریپبلک کے مالک سکلفاری نے پوپ فرانسس کو ایک کھلے خط میں کچھ سوالات کیے تھے۔ ’’ کیا مسیحیوں کا خدا ان لوگوں کو معاف کر دیتا ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتے یا وہ ایمان نہیں لاتے‘‘ جن کا جواب دیتے ہوئے پوپ نے کہا کہ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ خدا بے پناہ رحم کرنے والا ہے،اس کا دل بہت بڑا ہے،جو اسے تسلیم نہیں بھی کرتے اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں تو خدا ان کے ساتھ بھی رحم کا سلوک کرتا ہے۔۔۔کوئی خدا پر ایمان رکھے یا نہ رکھے اگر وہ اپنے ضمیر کے خلاف کام کرتا ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘‘۔(۴)۔
♣
۔(۱)۔انڈیپنڈنٹ،لندن، 28 اکتوبر2014
۔(۲)۔ سرسید کے یہ مضامین مجلس ترقی ادب لاہور نے مقالات سرسید کے نام سے کئی جلدوں میں شائع کیے ہیں۔
۔(۳)۔ سر سید احمد خان کی تفسیر القرآن بھی اردوبازار لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔
۔(۴)۔http://www.independent.co.uk/news/world/europe/pope-francis-assures-atheists-you
-don-t-have-to-believe-in-god-to-go-to-heaven-8810062.html
One Comment