سنہ 2015ءکا 12اکتوبر آیا تو میں بے وقوف یہ طے کر بیٹھا کہ ہمارا بہت ہی آزاد اور عقل کل ہونے کا دعوے دار میڈیا 1999ءکے 12اکتوبر کو بھی یاد کر ہی لے گا۔ سکرینوں پر مگر ایک روز قبل ہوا ضمنی انتخاب ہی چھایا رہا۔ اس حوالے سے بھی ساری توجہ اس بات پر رہی کہ عمران خان NA-122کے نتائج کو دل سے قبول کررہے ہیں یا نہیں۔ ان کی رائے تو ٹویٹر پیغامات کے ذریعے ملی مگر تحریک انصاف کے جذبات کو ”سائنسی“ انداز میں بیان کرنے کے لئے کئی سکرینوں پر چودھری سرور بیک وقت نظر آتے رہے۔
لال حویلی کے بلبلِ ہزار داستان سنانے والے مفکر کے لئے بُری خبر۔اینکر حضرات کو ون اون ون پروگرام کرنے کے لئے ایک اور ارسطو مل گیا ہے۔ مزاج کے موصوف مگر بہت دھیمے ہیں۔ شاید بہت دیر تک چل نہ پائیں کیونکہ ٹی وی سکرینوں پر اب صحافت نہیں ہوتی، ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔ اس دھندے میں تجزیہ نہیں بلند آہنگ دعوے درکار ہیں جو دشمنوں کو ان کے گھروں میں ڈراکر گوشہ نشین ہوجانے پر مجبور کردیں۔
بارہ اکتوبر 1999ءکا کچھ تذکرہ ضروری تھا۔ اس اکتوبر کو گزرے 17برس گزر چکے ہیں۔ ابھی تک مگر اس بنیادی اور سادہ سوال کا جواب بھی نہیں مل پایا کہ ایسی کون سی انہونی ہوگئی تھی جس نے ان دنوں دو تہائی اکثریت سے اس ملک کے وزیر اعظم بنے نواز شریف کو ”اچانک“ اپنے چیف آف آرمی سٹاف کو سبکدوش کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
یہ فیصلہ مزید حیران کن اس لئے بھی نظر آیا کہ جنرل مشرف اس وقت ملک میں نہ تھے۔ سری لنکا کے دورے کے بعد ایک طیارے میں بیٹھ کر وطن لوٹ رہے تھے۔ ان کا انتظار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی۔ قطعی احمقانہ نظر آنے والی عجلت کیوں برتی گئی؟
وزیر اعظم کی عجلت اور جنرل مشرف کی سبکدوشی کے بعد کئی گھنٹوں مسلط رہنے والا ہیجان اور افراتفری بہت عجیب اس لئے بھی دِکھے کہ اکتوبر 1999ءسے چند ہی ماہ قبل وزیر اعظم کے دو نورتن–شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان– چیف آف آرمی سٹاف کے والد کے روبرو حاضر ہوئے تھے۔ سید مشرف الدین ان دنوں ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان دو نورتنوں نے انہیں نوید سنائی کہ ان کے فرزندِ ارجمند کو چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ہی ساتھ فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں پر مشتمل کمیٹی کا چیئرمین بھی بنادیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی بحریہ کے سربراہ نے جو اس کمیٹی کے ضوابط کار کے تحت اپنی باری پر چیئرمین بننے والے تھے، احتجاجاََ استعفیٰ دے دیا۔
امور مملکت کسی قاعدے اورضابطے کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان مگر اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے کوئی حکم جاری ہونے سے قبل جنرل مشرف کوچیئرمین بنانے کی اطلاع شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کے ذریعے ان کے اباجی کو پہنچانے کی ضرورت کیوں آن پڑی تھی؟ یہ سوال نہ کسی نے پوچھا اور نہ ہی کسی مقتدر فرد نے اس کا جواب فراہم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ریاست کی گاڑی بس خدا کے سہارے چلتی رہی۔
جنرل مشرف اور نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوکر گہرے ہوجانے کی وجہ کارگل آپریشن تھا۔ مشرف کا آج بھی اصرار ہے کہ کارگل کی فتح کے ذریعے کشمیر کو آزاد کروانے کا یہ منصوبہ وزیر اعظم کی منشاءاور مشاورت کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ اس نے بھارت کے اوسطان خطا کردئیے تھے۔ لاہور سے آئے ”تاجر“ وزیر اعظم مگر ”بکری“ ہوگئے۔ 4جولائی کے دن جو امریکہ میں یوم آزادی کی تقریبات کے لئے وقف ہوتا ہے صدر کلنٹن کے دربار میں زبردستی حاضر ہوئے اور میدان میں ”جیتی جنگ“ بلیئرہاﺅس کی ایک میز پر ہار دی گئی۔
پاکستان کے 24/7چینلوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ”دفاعی تجزیہ کار“ ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزار مل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تاریخ نویسی کے دعوے دار بھی بے شمار ہیں۔ مجھ ایسے جاہل کو مگر آج تک کوئی ایک دانشور بھی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ یہ نہیں سمجھاپایا کہ کارگل کی جنگ کیوں ضروری تھی اور اس جنگ کا حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری جب جنرل مشرف کے دنوں میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کی سربراہ ہوتی تھیں تو بڑی تحقیق کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی۔ یہ کتاب کارگل منصوبے کی مدح میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے بعد اسلام آباد کے طاقت ور حلقوں میں افواہ پھیل گئی کہ جنرل مشرف ڈاکٹر صاحبہ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ چند لوگوں نے اس تجویز کو اس لئے بھی سراہا کہ ان دنوں واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہوا کرتی تھیں۔ واشنگٹن اور نیویارک میں بیک وقت دوخواتین پاکستان کی نمائندگی کررہی ہوتیں تو دُنیا پر ثابت ہوجاتا کہ جنرل مشرف ایک دھانسو نوعیت کے روشن خیالی کے علمبردار ہیں۔ عورتوں کے حقوق کو مختاراں مائی کے ملک میں یقینی بنانے پرتلے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری مگر نیویارک نہ جاپائیں۔ کسی نے ٹانگ کھینچ دی ہوگی۔
ویسے بھی ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ڈاکٹر شیریں مزاری ان دنوں عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں ”نیاپاکستان“ بنانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اس لگن میں ان کے پاس شاید اس کتاب سے رجوع کرنے کا وقت نہ ہو جو ا نہوں نے معرکہ کارگل کی مدح میں لکھی تھی۔
ڈاکٹر مزاری کا ذکر تو سلاستِ بیان میں آگیا۔ ”مکدی گل“ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پتہ مارکر کسی ستائش اور صلے کی توقع کے بغیر اپنی تاریخ کی حقیقتوں کو تلاش کرنے کا چلن ہی موجود نہیں۔ اپنی تاریخ کو سمجھے بغیر مستقبل کی باتیں کرنا اتنا ہی بے وقوفانہ ہوا کرتا ہے جیسے بیک مرر کے بغیر کسی مصروف شاہراہ پر گاڑی چلانا۔ 12اکتوبر 1999ءکیوں ہوا؟ اس سوال کا تفصیلی جواب ڈھونڈے بغیر آپ کی جمہوریت ویسی ہی کھوکھلی اور کھیل تماشہ رہے گی جیسی 11اکتوبر 2015ءکے دن نظر آئی۔ اس کے استحکام کے دعوے کرنے والوں پر اب مجھے ہنسی بھی نہیں آتی۔
نوائے وقت، لاہور