پاکستانی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں صوبہ سندھ میں ہندو برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر متعلقہ حکام کے خلاف کاروائی کی استدعا کی گئی ہے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کےایک رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار واکوانی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران سندھ میں ہندو خاندانوں کی جبری مذہب کی تبدیلی، زیادتی، اغواء اور قتل کے 35 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خود بھی سندھ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر رمیش کمار کی طرف سپریم کورٹ میں پیر 26 اکتوبر کے روز جمع کرائی گئی درخواست کے ساتھ ایک فہرست بھی منسلک کی گئی ہے۔ اس کے مطابق پندرہ اگست سے لیکر بائیس اکتوبر دوہزار پندرہ تک سندھ کے مخلتف شہروں کے تھانوں میں ہندو خواتین کو زبردستی مذ ہب تبدیل کرانے کے آٹھ ،اغوا کے بارہ اور قتل کے بارہ مقدمات درج کرائے گئے۔ ان تمام جرائم میں نشانہ بننے والوں کی زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر رمیشں کمار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 19جون 2014ء کو پاکستان میں اقلیوں کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا ۔تاہم ان کے بقول وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی ہیں ۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’نہ تو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی، نہ ہندو میرج ایکٹ بل منظور کیا گیا اور نہ ہی مصالحتی کونسلیں بن سکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے تمام وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں اقلیتوں کا جو پانچ فیصد کوٹہ مختص کرنے کی بات کی تھی اس پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ حکمران جماعت کا حصہ ہونے کے ناطے وہ اپنی جماعت کے اندر بھی اقلیتوں کے امور پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن وہ ابھی تک مطلوبہ توجہ حاصل نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت اقلیتوں کے ساتھ نامناسب رویہ رکھنے کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے ملک کے تشخص کو خراب ہونے سے بچائیں۔
ڈاکٹر رمیش کمار کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان سے ہر سال تقریباﹰ پانچ ہزار ہندو انہی نا انصافیوں اور جرائم سے تنگ آ کر بھارت ہجرت کر رہے ہیں جو کہ کسی بھی ملک کے لیے ایک پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ اگر کوئی شہری اپنا ملک چھوڑ دے تو یہ ایسا ہی ہے کہ خاندان کا کوئی ایک فرد چلا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال کی بہتری کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں شاید کوئی بھی ہندو نہ رہے۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے ملک میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک مقدمے کی سماعت کی اور پھر گزشتہ سال انیس جون کو اپنے ایک فیصلے میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تفصیلی فیصلہ دیا تھا۔
بعد ازاں اس فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق مقدمہ بھی سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو عدالتی حکم پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹس طلب کی تھیں۔ اب اس مقدمے کی سماعت نئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ بدھ 28 اکتوبر کو کرے گا۔
DW