ترجمہ: ارشد محمود
انڈیا کی نامور کلاسیکل ڈانسر، پروتما بیدی کی آپ بیتی۔
کبیر بیدی میری زندگی سے اس وقت نکلا۔۔۔جب رقص میری زندگی میں داخل ہوا۔ میں تقدیر کی اس مداخلت کا شکرگزار ہی ہوسکتی ہوں۔ مجھے زندگی کی نئی سمت مل گئی، کلاسیک رقص میں میں نے جو خود کو وقف کرلیا، وہ مجھے پختہ رکھنے اور میری خوشی کے لئے ضروری تھا۔ زندہ رہنے کے لئے میری لئے خوشی انتہائی لازم ہے۔ جس طرح آکسیجن میں سانس لی جاتی ہے۔ میں خوشی میں سانس لیتی ہوں۔
لیکن اب مسئلہ پیسہ تھا۔ رقص کے لئے بھی پیسہ چاہئے تھا۔ سفر کرنا ہے۔ ٹریننگ کرنی ہے۔ سازندوں کو معاوضہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ گھر اور بچے بھی تھے۔ کلاسیکل ڈانس میں رہنے کی وجہ سے اب میں ماڈلنگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کلاسیکل ڈانس کنزرویٹو ماحول میں ہوتا ہے۔ جہاں آرٹ کے لئے خود کو وقف کرنا ہوتا ہے۔ گرو جی نے مجھے کہا ، میں اپنے ماضی کی زندگی بھول جاوں۔ اب فلمی اور فیشن ایبل رسالوں کے سرورق پر نہٰیں چھپ سکتی، کوئی اسکینڈل نہیں افورڈ کئے جا سکتے۔
چنانچہ اس نے میری پوری شخصیت اور لائف اسٹائل کو بدل کررکھ دیا۔ اب ہندوستان کے نامور موسیقاروں اور رقص کے استادوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگیا۔ سگریٹ نوشی بھی ترک کردی، نائٹ پارٹیاں ختم ہوئی تو ڈرنک بھی کم ہوگئی۔ اب میرے کپڑوں کی الماری میں سیکسی اور شارٹ لباس کی بجائے سادہ کاٹن کی ساڑھیاں رہ گئی۔ یہ کوئی منافقانہ تبدیلی نہیں تھی، میں اپنے آپ کو اس دنیا کا حصہ سمجھنے لگی تھی۔ اب مجھے ان کا احترام کرنا تھا۔۔۔جو اس قسم کے رقص کا حلقہ ہوتا ہے۔
البتہ اپنے انداز فکر کو میں نے روائتی نہیں بنایا۔ اس سے میری زندگی میں ایک توازن بھی آ گیا۔ میں نے کلاسیک لٹریچر،ہائرمذہب اور مائتھالوجی کو بھی پڑھنا شروع کردیا۔ جن متھی کہانیوں میں رقص ہوتے، میں ان کرداروں اور جذبات میں ڈوب جاتی تھی۔ چونکہ میں لا مذہب تھی، شروع میں مجھے ان کو سمجھنا مشکل ہوا ، مجھے لگا، کہ جب آپ خود سے مل جاتے ہیں، اور اپنے اندر کی توانایوں سے یکجا ہوجاتے ہیں، تو آپ خدا کے سامنے آ جاتے ہیں۔ پھر زندگی آپ کے لئے وہ سب کچھ لاتی ہے، جسے آپ چاہتے ہیں۔ ہم زندگی کو اجازت ہی نہیں دیتے کہ وہ ہمارے لئے عمل پیرا ہو۔۔جب آپ کہتے ہیں، ‘ ہونے دو۔۔۔‘ اور بہہ جاتے ہیں۔
پھر حیران کن کیفیتیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں۔ میرے لئے رقص ایسے ہی تھا۔۔جیسے خدا سے ہم کلام ہونا۔ رقص میں مجھے ایسے لگتا، کہ خدا اپنی خدائی کا اظہار میری ذات کے میڈیم سے کررہا ہے۔ میرا پہلا بڑا شو جو ایک سالانہ رقص کے میلے میں ہوا۔۔جہاں بڑے سینئراستادوں کی اجازت سے ہی کسی نئی ڈانسر کو اجازت مل سکتی تھی۔ وہ بڑا کامیاب گیا۔ اور مجھے پرفارمنس کی دعوتیں ملنے لگی۔
میرے پس منظر کی وجہ سے شروع میں کلاسیک ڈانس کی دنیا میں خود کو ثابت کرنے میں مشکلات بھی آئیں۔ میں رقص میں گم ہوگئ، وہ میرے روم روم میں دھنس چکا تھا۔ مجھے ایسا لگا، جیسے میں صدیوں سے اور کئی جنموں سے رقص کررہی ہوں۔ اب میں پروفیشنل اور کیرئر ڈانسر ہوچکی تھی۔ کبیر سے علیحدگی کے بعد مجھے کسی جذباتی سہارے کی تلاش بھی تھی۔،
‘کبیر شادی کررہا ہے ایک امریکن لڑکی سے‘ میں نے بڑے اطمینان سے سنا۔میں فیشن شو کی ریہرسل سے جلدی نکل آئی۔ جب میں حاجی علی کے پاس پہنچی، تو
میرے اندر سے انرجی کا طوفان نکلتا محسوس ہوا۔ میں ایک دم زور سے چیخ کر رو پڑی۔ میرے چاروں طرف ٹریفک کی بھیڑ تھی۔ میرا چہرہ آنسووں سے بھر گیا۔ میرے اندر کوئی ناخوش والا طوفان ضرور دبا ہوا ہے۔میں نے خود سے سوچا، یہ افسوسناک بات ہے۔ مجھے اسے باہر نکالنا ہوگا۔
میں اس رات آرام سے سوئی اور دوسرے دن فیشن شو کے لئے روانہ ہوگئی۔ سوسن ہمفرے۔۔مجھے کچھ اس کی شکل یاد تھی، وہ ایک دبلی سی سادہ لڑکی تھی۔کبیر ہالی وڈ کی فلموں میں جا چکا تھا۔ بیورلے ہل میں وہ اپنا گھر بھی لے چکا تھا۔ میں نے کبیر کوشادی پرآنے کی آفر کی تاکہ اس کی شادی کے خود انتظامات کرسکوں۔ مگر کبیر نہ مانا۔۔اس نے سمجھا کوئی تناو پیدا ہو جائے گا۔ اس دوران کبیرگھرآتا رہا، بچے بھی امریکہ اس کو ملنے جاتے رہے۔
میں انتہائی مصروف ہو چکی تھی، بچے بڑے ہورہے تھے، میں نے کبیر کے مشورے سے ان کو بورڈنگ اسکول میں داخل کرادیا۔ 1979 میں نے اپنا ڈانس سنٹر کا افتتاح کیا، جس میں موسیقی کے بڑے استادوں کے علاوہ نرگس دت، ششی کپور، شبانہ اعظمی بھی آئیں۔ میرے لئے یہ خوشی کا بڑا لمحہ تھا۔ کبیر اور سوسن جب بھارت آئے، تو وہ ملنے گھر آئے۔ میں نے ان کے اعزاز میں ڈنر اور موسیقی کا پروگرام رکھا، جس میں جگجیت اور چترا سنگھ تشریف لائے۔میں نے سوسن کا گلے لگا کر استقبال کیا۔
آدمیوں کو اپنی اچھی شکل، پیسے اور پاور پر بھروسہ ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ سب ایک عورت کے پاس ہو، تو مرد احساس کمتری میں چلے جاتےہیں۔ میرے خیال میں مرد خود کے علاوہ عورت کو کچھ دے رہا ہوتا ہے۔جیسے مرد کی اپنی ذات کچھ زیادہ نہیں۔ جب کہ عورت صرف اپنا آپ دیتی ہے۔ اسی وجہ سے شائد عورت زیادہ طاقت ور ہے مرد سے۔ مرد کو اپنے کو اونچا رکھنے کے لئے ایگو چاہئے ہوتی ہے۔ ایگو کے بغیر مرد ماں کا ایسا بچہ ہوتا ہے۔ جو کبھی نشو و نما نہ پا سکا ہو۔ وہ بہانے تراشتا رہتا ہے کیونکہ وہ ایگو کے بغیر غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
رجنی پٹیل (انڈیا کی معروف سماجی وسیاسی شخصیت) کے ساتھ کبھی آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ میں دیکھتی تھی، کہ وہ مجھ سے فلرٹ کر لیتا ہے۔ اس نے مجھے ڈانس اسکول کے لئے مالی معاونت کی پیش کش بھی کی۔ میں اپنے ایونٹ کےلئے اس کا اسٹاف اور دفتری سامان استعمال کرلیا کرتی تھی۔ ایک دن میں اس کے آفس پہنچی، مجھے واش روم کی شدید حاجت محسوس ہورہی تھی۔لیکن دونوں واش روم بند تھے۔ رجنی کا کمرہ بھی بند تھا۔ میں سمجھی شائد آرام کررہے ہوں۔ کہ تھوڑی دیر بعد مجھے اندر سے آواز سی آئی۔۔مجھے چونکہ واش روم کی سخت حاجت تھی، میں نے سوچا رجنی کا واش روم استعمال کرلیتی ہوں۔
جب میں اندر گئی تو دیکھا، رجنی فرش پر بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا۔۔میں نے اسے ہگ کیا۔۔تسلی دی۔۔پوچھا کیا ہوا ہے۔ اس نے بتایا اسے ابھی میڈیکل رپورٹ ملی ہے۔ کہ اس کو کینسر ہے۔ اور وہ زندہ نہ رہ سکے گا۔۔۔ یہ شخص کچھ دنوں بعد مر جائے گا۔ میں اس کے قریب آگئی۔ وہ مجھ سے محبت کرنے لگا تھا۔ اس نے میرا ڈانس پروگروام دیکھنے کی فرمائش کی۔ پھر اسے علاج کے لئے امریکہ لے جایا گیا، لیکن رجنی کی بیوی اور گھر وانوں نے مجھ پر سخت پابندی لگائی رکھی۔۔انہوں نے اسپتال میں اس کے ساتھ مجھے فون پر رابطہ بھی نہ کرنے دیا۔ میں تڑپتی رہی۔ کہ وہ شخص جو بستر مرگ پر پڑا ہے۔۔وہ کیا سوچتا ہوگا۔۔
اس کی آخری خواہش شائد مجھے دیکھنا ہو۔ اور ایک دن اس کی لاش بمبئی میں آگئی۔۔اس کی لاش کو مجھے دیکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔۔وزیراعلی شرد پاورکی ذاتی کوشش سے مجھے برف خانے میں لے جایا گیا۔۔ میں اب تک سوچتی ہوں۔ اس کی بیوی نے یہ سب کچھ کرکے کیا حاصل کیا۔۔۔۔
رجنی پٹیل اور میں ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے، حتی کہ ایک دن کے لئے بھی جدا کیوں نہ ہوں۔ اس نے وہ سارے خط اپنی الماری میں رکھے ہوتے تھے، اور کبھی کبھی ہم دونوں ایک دوسرے کو وہ خط پڑھ کر سنایا بھی کرتے تھے۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا، کہ کہ میرے مرنے کے بعد یہ خط چھپوا دینا۔ اس نے مجھے ٹائپ رائٹر بھی خرید کردیا۔ رجنی کی وفات کے بعد جانو نے مجھے اس الماری کی چابی دی، کہ آپ اس میں سے جو لینا چاہتی ہیں۔ لے جائیں۔ میں نے اسے کہا، ادھر ہی ٹھہرو۔ میں نے خطوں والا پیکٹ، اس کے کرتے پاجامے کے دو جوڑے، اور وہ سرہانا اٹھایا۔۔جس پر ایک بار میں منہ لگا کرروئی تھی۔
میں نے جانو کو وہ سب چیزین دکھائی۔ ‘کیا آپ بس یہی لیں گی‘؟ میں نے مسکرا کرکہا۔۔ہاں میں اپنے رجنی کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس لے کر جارہی ہوں۔ مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ اس رات مجھے چھاتی پر بہت درد رہا۔ میں نے ان خطوط پر مشتمل کتاب پر دن رات کام شروع کردیا۔ میں رجنی کو خراج پیش کرنا چاہتی تھی۔ میری خواہش تھی کتاب رجنی کے چالیسیویں پر چھپ جائے۔ میرا اور کبیر کا ایک صحافی کامن دوست ہوتا تھا۔ ایک دن اس نے وہ مسودہ دیکھ لیا۔ مجھے کہنے لگا، اگر اس کا مختصر تعارف اور اقتباس میں اپنے رسالے میں چھاپ دوں تو کوئی ہرج تو نہیں۔ میں راضی ہوگئی۔
میں بمبئی میں تھی، کہ ‘انڈیا ٹوڈے‘ میں ایک سنسی خیز مضمون چھپ گیا۔ خفیہ لوآفئیرکے اسکینڈل کا انکشاف۔۔ میں پریشان ہوئی یہ کیا ہے۔ لوگوں کے فون آنے لگے، میں کہتی، یہ ایک پرسنل چیز ہے۔ بہت ہی جذباتی سی۔ میں اس کی وضاحت نہیں کرسکتی۔ یہ کتاب ایک حساس آدمی کے ساتھ میرے زندگی کے ایک خاص دورسے متعلق ہے۔ جو بڑے ونڈرفل دماغ کا مالک تھا۔ یہ خطوط محبت کے بارے میں ہیں۔ ایک مرتے ہوئے ناخوش انسان اور اس عورت کے نام جس سے وہ محبت کرتا تھا۔ لیکن کسی نے بھی میرے احساسات کوسمجھنے سے انکار کردیا۔
قریبی دوستوں نے مجھے سمجھایا، کہ خود کو انڈر گراونڈ کرلو۔۔ایسا بھی ہوسکتا ہے، تم کسی ٹرین سے اترو۔۔تو تمھارے خلاف مزدوروں کا ہجوم نعرے لگا رہا ہو۔۔ لوگوں کے جذبات بھڑک چکے ہیں۔ اور گندی شکل اختیار کرچکےہیں۔ ہوسکتا ہے، تم اور تمھارے بچوں کو کوئی پیٹ دے۔ میں مکمل صدمے تھی۔ ہر روز صورت حال بگڑ رہی تھی۔ اخبارات و جرائد میں میرے خلاف مضامین چھپ رہے تھے۔ مجھ پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا۔ میں شہرت، پیسے کی بھوکی ہوں۔۔مرے ہوئے شخص کے ‘باعزت خاندان‘ کو بلیک میل کررہی ہوں۔
رجنی کا خاندان پوری طرح اس کتاب کو دبانے کے لئے ایکٹو ہو چکا تھا۔ مجھے فون آنے لگے۔۔کہ کتنے پیسے لو گی۔بڑی رقموں کی آفر ہونے لگی۔۔اس میں دو طرح کے لوگ تھے۔۔جو یہ خطوط لے کر خود بلیک میلنگ کا کاروبار کرنا چاہتے تھے۔۔اور دوسرے اس کے خاندان کے جو اس معاملے کو دبانا چاہتے تھے۔ میں نے یہ بھی سوچا۔ میں اس میں نام تبدیل کردوں گی۔ کچھ حصے خذف کردوں۔۔تاکہ لوگوں کے لئے یہ قابل قبول ہو جائے۔
‘بلٹز‘ نے لکھا، رجنی پٹیل ایک شاندار انسان تھا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آنے والا سخی دل تھا۔۔پروتیما اسے بدنام کرنا چاہتی ہے۔ اس کے کریکڑ کو داغ لگانا چاہتی ہے۔ میں اتنے شدید ردعمل کو نہ سمجھ کی۔۔ رجنی کی بیوی کو مجھ سے کیا ہے۔ لیکن دشنام طرازی اور گند اچھالنے کی مہم جاری رہی۔
سنہ1982 میں دہلی میں کسی کے گھر خصوصی میٹنگ رکھی گئی، جہاں میں نے اور جتین نے ان خطوط کی ریڈنگ کرنی تھی۔ خطوط کو پڑھتے ہوئے میری کئی بار زبان فرط جذبات سے اکھڑ گئی۔ پھر وہی سوالات کئے گے، یہ بہت ہی جب پرسنل ہے، تو پھر تم کیوں ان کو پبلک کرنا چاہتی ہو۔ لوگ اسے نہیں سمجھ سکیں گے، اور تم دونوں کو چھوٹا کریں گے۔ایک دوست نے اٹھ کرکہا۔ ایک آدمی مر چکا ہے، کیا یہ اس کے امیج کو خراب کرے گی، جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ پھر وہ اس سے کیا حاصل کرے گی۔ وہ ایک محنت کرنے والی اور ملک کی معروف سنجیدہ کلاسیک ڈانسر ہے۔ یہ صرف ایک ہے۔ جب لوگ کہتے تھے، کیوں۔۔ تو میں کہتی تھی، کیوں نہیں۔
چند دن بعد اودھاپور میں کبیر کے پاس کچھ وقت گزارنے چلی گئی۔ اس کی وہاں انگلش فلم آکٹوپوسی کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ میں نے کبیر کو مسودہ دکھایا۔ اس نے ابھی چار ہی خط پڑھے تھے وہ خوش ہو کر کہنے لگا، اسے ضرورچھپواو۔۔ بلکہ اس نے آفر کی، کہ وہ کتاب کا دیباچہ لکھے گا۔ لیکن کبیر کی واضح سپورٹ ملنے کے بعد نہ جانے کیوں، میرے اندر ایک اطمینان سا آگیا۔۔میں نے فیصلہ کیا کہ اب نہیں چھاپوں گی۔۔ بلکہ جب کبھی میری اپنی زندگی کی کہانی لکھی جائے گی، تو ان خطوط کو اس کتاب کا حصہ بنا دوں گی۔۔۔
جاری ہے