پروتما بیدی۔مترجم : ارشد محمود
پروتما بیدی ، بھارت کی مشہور اوڈیسی رقاصہ ، کبیر بیدی کی پہلی بیوی تھی
وہ ایک طوفانی رات تھی۔ میں پناہ لینے کے لئے بھونا بھائی میموریئل انسٹی ٹیوٹ بمبئی کے اندر چلی گئی۔ تاکہ اس کے بعد میں ایک فیشن ایبل ریسٹورنٹ میں ڈنر کر سکوں۔ مین ایک اندھیرے آڈیٹوریم میں چلی گئی۔
دو نوجوان کلاسیک ڈانسر پرفارم کررہی تھی۔ ان کا حسن، دلکشی، لطافت، حسیات پر جادو کرنے والا رقص۔۔اور شاعری۔۔۔ نے مجھ پر سحر طاری کردیا۔ اس کی موسیقی، گہرا جمالیاتی، روحانی اثرمیرے اجڑے دل پر امرت پر بن کر اترگیا۔ رقاصاوں کی حرکات مجھے ایسے لگی، جیسے پام کے درخت جھول رہے ہوں۔ جھیل کی سطح پر صبح کی ہوا چھو رہی ہو، اور افق سے سورج طلوع ہورہا ہو۔۔
جیسے سمندر سے لہریں کھیل رہی ہوں۔۔ مختصر وہ سب مجھے زندگی کی سانس محسوس ہوئی۔ میں نےخود کو کسی مندر کی آسمان سے اتری رقاصہ حور سمجھا، جوں ہی پرفارمنس ختم ہوئی، میں نے بیک اسٹیج کا رخ کیا۔ اور ان آرٹسٹوں کے پاس پہنچ گئی۔ آپ کا استاد کون ہے؟ میں بھی سیکھنا چاہتی ہوں، آپ کہاں سیکھتی ہیں۔ پلیز ہمارے گرو سے بات کریں۔
ایک چھوٹے سے قدکا بوڑھا آدمی دھوتی کرتا پہنے اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں تھا۔ نمستے ماسٹر جی۔ کیا آپ ان لڑکیوں کے استاد ہیں؟ میں بھی یہ ڈانس سیکھنا چاہتی ہوں۔ کیا بمبئی میں مجھے کوئی یہ سکھا سکتا ہے؟ نہیں میڈم۔ بمبئی میں یہ ڈانس فارم کوئی نہیں سکھا سکتا۔۔ تمھارا گرو کون ہے؟
کیا؟ کیا تم نے کوئی کلاسیک ڈانس نہیں سیکھا ہوا؟ نہیں ، سر۔۔ میں نے توکوئی ڈانس نہیں سیکھا ہوا۔۔ میں نے نروس ہو کر سگریٹ کا کش لیا۔۔ ‘کلاسیک ڈانس سیکھنا کوئی آسان کام نہیں، گرو جی بولے۔ میں بڑی محنت کرتا ہوں، دن رات ان کو پریکٹس کراتا ہوں۔ میں پریشانی میں سوٹا لگا رہی تھی۔۔میں نے فورا سگریٹ کو اپنے پاوں کے نیچے مسل دیا۔۔
‘ سر میں ہر چیز کو قربان کرنے کو تیار ہوں‘ نہیں میڈم۔۔ یہ آرٹ کم از کم چھ سال کی عمر سے سکھانا شروع کیا جاتا ہے۔ مجھے معاف کردیں۔ ہم نے ٹرین کو پکڑنا ہے۔ ماسٹر جی۔۔ میں ہر چیز کو قربان کردوں گی۔ میں دن رات محنت کروں گی، میں عہد کرتی ہوں۔ پلیز مجھے سکھا دیجئے۔۔
میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔۔ہم یہاں سے تین دن کے ٹرین سفر کے فاصلے پر کوٹیک میں رہتے ہیں۔اور ہم نے کچھ ہی دیر میں ٹرین پکڑنی ہے۔ میں مایوس اور پریشان ہوگئی۔ پلیز۔۔ سنیں۔۔ میں کیسے یہ سیکھ سکتی ہوں۔۔ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔۔ ‘ایک ہی طریقہ ہے، کیوٹیک آ جاو، ہماری ٹرین دو گھنٹے میں چلنے والی ہے۔ تم ہمارے ساتھ چل سکتی ہو۔۔اگر تم واقعی چاہتی ہو۔ میں تو ابھی نہیں آ سکتی، میرا خاوند ہے۔ میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔ میں ان کو ایسے کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔
گرو کے چہرے پر ہنسی آ گئی۔۔ ہاں میں جانتا تھا۔۔ لیکن تم پھر کیسے کہتی ہو۔۔میں ہر چیز قربان کرسکتی ہوں۔ میں اس کا مطلب سمجھتی ہوں، جو میں کہہ رہی ہوں۔۔ لیکن ابھی فورا میں کیسے اپنا گھر بار اور بچوں کو بتائے بغیر جا سکتی ہوں۔ گرو اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہوا۔۔ کیا آپ نے اپنا سامان پیک کرلیا ہے۔ چلو جلدی کرو۔۔اسٹیشن چلیں۔ سر ماسٹر جی۔۔ میری سنیں۔ میں بہت مشکل میں ہوں۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے، میری مشکل۔ مجھے موقع دیں۔ میں آپ کے گھر پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ جاوں گی۔۔ میرا وعدہ ہے۔ میں کل فلائٹ لے لوں گی۔
اوکے سنو، اگر تم ہم سے پہلے پہنچ گئی، تبھی میں تم کو اپنی شاگردی میں لوں گا۔ اور تین مہینے کی دن رات کی سخت ٹریننگ ہوگی۔ اور سمجھ لو، جینز میں تم ڈانس نہیں کرسکتی۔ تم کو ساڑھی اور شلوار اپنے ساتھ لانی ہوگی۔ شکریہ ماسٹر جی۔۔ میں آپ کے پہنچنے سے پہلے وہاں ہوگی۔ بچے سوئے ہوئے تھے، گھر میں خاموشی تھی۔ کبیر سارے دن کی شوٹنگ سے تھکا گھر آیا۔
میں نے ایک ہی سانس میں اس کو ساری رام کہانی سنا دی۔۔ ‘پلیز ٹھہرو۔۔۔ تم نے کلاسیک ڈانس دیکھا ہے۔ تم اس کو سیکھنا چاہتی ہو، تم کل صبح گھر سے روانہ ہونا چاہتی ہو۔ کیا یہی ہے؟ کبیر بولا۔ کبیر دیکھو۔۔ میں مر جاوں گی۔۔ اگر میں نے یہ ڈانس نہ سیکھا۔ پلیز مجھے جانے دو۔ میرے واپس آنے تک بچوں کا خیال رکھو۔۔ یہ میری زندگی کے لئے نہائت اہم ہے۔ یہ پہلی چیز ہوگی، جو میری زندگی کو معنی بخشے گی۔ میں اس کے پاوں پر بیٹھ گئی، میں نے اس کے گھٹنوں کو چھو لیا۔
اوکے تم کتنے عرصے کے لئے جانا چاہتی ہو۔۔ تین ماہ۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن یہ تو بہت زیادہ مدت ہے، کیا تم سمجھتی ہو، تمھارے بغیر بچے تین ماہ نکال لیں گے۔ جانی میں فیصلہ کرچکی ہوں۔ مجھے تمھاری سپورٹ کی ضرورت ہے۔ یہ میری ساری زندگی کو بدل کر رکھ دے گی۔۔
دوسرے دن میں فلائٹ سے کلکتہ پہنچ گئی۔ وہاں سے ٹیکسی پرماسٹر جی کے ایڈریس پر۔ گروجی نے بتایا، کہ یہ ڈانس 26 سال کی عمر میں نہیں سیکھا جاتا۔ میں نے پھر ماسٹر جی کو یقین دہانی کرائی، کہ میں نے اپنا خاوند اور بچے چھوڑ دیے ہیں۔ میں نے اپنی ساری پرانی دنیا اور لائف اسٹائل چھوڑ کر آپ کے پاس آ گئی ہوں۔ میری ڈانس کی تربیت پرانے روائتی ماحول اور طریقے سے شروع ہو گئی۔
وہ ایک گاوں تھا۔ غریب اور گندہ علاقہ۔ کوئی لاکھوں کے حساب سے مچھر ہونگے۔ چھپکلیاں اور دیگر حشرات ہر دیوار پر گھوم رہے تھے۔ کنویں سے پانی خود نکالنا ہوتا تھا۔ خوراک اور پانی دونوں میری طبیعت کے موافق نہ تھے۔ میں اکثر بیمار ہوجاتی تھی۔ میں کہاں سیکسی اور ‘سی تھرو‘ لباس پہننے والی۔۔ کہاں ماتھے پر ٹکہ لگائے کاٹن کی ساڑھی پہنے 16 گھنٹے ڈانس کی پریکٹس کررہی ہوں۔
میرے پاوں میں چھالے پڑگے، ان سے جلد اترنے لگی۔ سخت درد ہوتا تھا۔ گرو جی سخت مذہبی تھے۔ وہ صبح اور شام کو پوجا کرتے۔ سنسکرت زبان مین آیات پڑھتے۔ میرا تو مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مندر میں جب پنڈت آتے، کچھ مذہبی رسوم ادا کرتے۔۔ میں خاموشی سے دیکھتی رہتی۔ پوجا اور حمد و نعت کے عمل میں شریک نہ ہوتی، گرو جی کے لئے ڈانس زندگی تھی۔ وہ اس میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ کھانا، پینا اور نیند سب حرام ہو چکی تھی۔
میں کئی دفعہ روئی، کئ بار استاد کے ہاتھوں زلیل ہوئی، لیکن جب گرو جی کسی نئے راگ اور نئی بندش میں رقص کا خیال لاتے۔۔ تو کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے اندر باپ کی شفقت آ جاتی تھی۔ جب میں تین ماہ کی ٹریننگ کے بعد گھر واپس آئی، میں نے تین ماہ جن مشکلات میں گزارے تھے۔ ان کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ یہ بات طے ہوگئی، رقص میری زندگی ہے۔ کبیر مجھے ائرپورٹ لینے آیا۔
میں جوش سے کبیر کو سب کہانی اور واقعات بتانا چاہتی تھی، جو میرے ساتھ وہاں گزرے تھے۔ اس رات ہم نے اکٹھے ڈنر کیا۔ میں تین ماہ کبیر سے جدا رہی تھی۔ جلدی سے اس کے ساتھ بستر میں جانا چاہتی تھی۔ کبیر مجھے کچھ پریشان سا لگا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔۔ میں پروین بابی (اپنے وقت کی مشہورایکٹرس) کے ہاں جارہا ہوں۔ میں رات وہی رہوں گا۔۔صبح ملیں گے۔
مجھے کبیر اور پروین کے معاشقے کا پتا تھا۔ میں نے کہا، کبیر میں ابھی آئی ہوں۔ کم از کم آج کی رات میرے ساتھ ٹھہر جاو۔۔ اس نے سر ہلایا، نہیں میں رات اس کے ساتھ ہی رہوں گا۔ ایک منٹ ٹھہرو۔۔ مجھے بتاو کیا بات ہے۔ میں اب اسی کے پاس ہی رہوں گا۔ کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ اس نے سر ہلایا، کیا وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے؟ یس۔۔
میں خاموش ہوگئی، میں اس سے چمٹ گئی۔ اور بے اختیارزارو قطار رونے لگی۔ پھر میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ مجھے کچھ سکون آ گیا تھا۔ اور سب سمجھ بھی گئی تھی۔ وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ میں نے اپنا چہرے کو سرہانے سے لپٹ کر چیخ کر رونے لگی۔۔ مجھے نیچے اس کی کار چلنے کی آواز آئی۔۔ ایک بٹن کی طرح میرا رونا بند ہوگیا۔
میں نے بالکونی میں اسے جاتے ہوئے دیکھا، اور کچھ دیر وہاں کھڑی رہی۔۔۔ اپنے بستر پر آئی کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آگئی۔ جب وہ صبح آیا تو میں نے اس پر ایسے ہی ظاہر کیا جیسے سب نارمل ہے۔ میں نے اسے الٹی میٹم دے دیا، تین دن کے اندر تم سے طلاق چاہتی ہوں، تم مجھ کو چھوڑ کر چلے جاو۔۔۔ لیکن اندر سے میرا خیال اور خواہش تھی، کہ وہ میرے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائے گا۔ ‘مجھے ایک دو ہفتے دو، سوچنے کے لئے‘ کبیر بولا۔ نہیں مجھے تین دن میں تمھارا فیصلہ چاہئے۔
وہ جب دو دن بعد واپس آیا، تو میں اس کے ساتھ بڑی نرمی سے بولی، کبیر میں نے الٹی میٹم واپس لے لیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے، میں تمھارے ساتھ خوش ہوں۔ اس گھر کو مت چھوڑو، اس رشتے کو نہ توڑو۔ تم جو کرنا چاہتے ہو، جہاں رہنا چاہتے ہو، بے شک کرو، مجھے کچھ اعتراض نہیں۔ اس نے سر ہلایا، نہیں مجھے تمھارا الٹی میٹم قبول ہے۔ میں اس گھر سے اپنی صرف زاتی چیزیں لے کر جارہا ہوں۔ کبیر نہیں۔۔ نہ جاو مجھے چھوڑ کر۔۔ مجھے تم سے محبت ہے۔۔میں تمھارے بغیر اکیلے نہیں رہ سکتی۔۔
لیکن وہ اس وقت ظلم اور سخت خود غرضی پر اتر چکا تھا۔ کبیر کے چلے جانے کے دو ماہ بعد میری پہلی ڈانس پرفارمنس تھی، میں نے کبیر اور پروین بابی کو خاص طورپر دعوت دی۔۔ لیکن وہ دونوں نہ آئے۔۔۔ میں بہت پریشان اور مایوس ہوئی۔۔ کہ یہ کبیر ہی تھا۔ جس نے مجھے یہ آرٹ فارم سیکھنے میں سپورٹ کیا تھا۔
جاری ہے۔۔