بادشاہت میں چین کہاں

ڈاکٹرپرویز پروازی

article-2153654-1369E798000005DC-165_964x692
برطانیہ کی’’ملکہ الزبتھ دوم کی خفیہ اور ذاتی ڈائریاں‘‘ ان کی شاہی خواب گاہ کی مددگار کا نسٹانس، لیڈی کریب ٹری نے ملکہ کی مرضی سے مرتب کرکے1988ء میں شائع کی ہیں۔ یہ ڈائریاں یکم جون1953ء سے شروع ہوتی ہیں او رکتاب میں مشمولہ آخری اندراج18مارچ1988ء کا ہے۔ ڈائری لکھنے کی عادت تو ان کی نکڑدادی ملکہ وکٹوریا کو بھی تھی اور ان کی ڈائریاں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھیں۔

یہ ڈائریاں گویا ان کی خودنوشت سوانح حیات کا حکم رکھتی ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوم کے تایا ایڈورڈ ہشتم یعنی ڈیوک آف ونڈسرنے تخت سے دست برداری کے بعد اپنی خودنوشت لکھی تھی اور اس کا نام ’’بادشاہ کی کہانی‘‘رکھا تھا یہ ڈائریاں ملکہ الزبتھ دوم کی خودنوشت سوانح حیات ہیں جن کے تیرہ ہزار اندراجات میں ان کے شاہی فرائض کی تفصیلات کے علاوہ گھریلو اور ذاتی زندگی کی اندرون خانہ تفصیلات بیان ہوئی ہیں کہ یہ الزبتھ الیگزینڈر امیری ماؤنٹ بیٹن ونڈسر، نامی خاتون مقیم بکنگھم پیلس کس طرح زندگی کرتی تھی اور ہے۔ اور اسی ذاتی وابستگی نے ان کی اس نامکمل خودنوشت کو ازحد دلچسپ بنادیا ہے۔ ملکہ کی بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری سوانح عمریاں چھپ چکی ہیں مگر لیڈی کریب ٹری کی مرتب کردہ کتاب سب پر بازی لے گئی ہے۔

ملکہ یہ ڈائری باقاعدگی سے مگر خفیہ طور سے لکھتی تھیں حتیٰ کہ اگر کوئی ڈائری لکھتے وقت ان کی خوابگاہ میں آجاتا تو اسے چھپالیتیں۔ لیڈی کریب ٹری ان کی خوابگاہ میں جانے کا استحقاق رکھتی تھیں مگر یہ ڈائریاں ان سے بھی پوشیدہ تھیں ایک روز اتفاق سے ان کی نظر ان الماریوں پر پڑی جہاں یہ ڈائریاں ترتیب سے فائل کر رکھی تھیں انہوں نے موقع ملنے پر انہیں پڑھنا شروع کیا اور مناسب وقت پر ملکہ سے اجازت لے کر انہیں شائع کردیا۔

بدلتے ہوئے حالات وواقعات نے ملکہ کو باور کروادیا کہ ان کے خلاف جتنا کچھ اخبارات میں چھپتا ہے وہ بے سروپا اور لایعنی ہوتا ہے لہذا ملکہ کی اصل شخصیت کے خدوخال کو بھی لوگوں کے سامنے آنا چاہیے۔ میں نے ملکہ کی دو سے زیادہ سوانح عمریاں پڑھی تھیں مگر اس خودنوشت سوانح عمری میں ملکہ کی روز مرہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے جس میں وہ ایک آئینی حکمران ہی نہیں ایک بیوی ،ایک ماں ،ایک بہن، ایک بیٹی، ایک ساس اور ایک دادی، نانی کے روپ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک سیدھی سادہ گھریلوعورت!۔

ڈائری کے آغاز میں ان کے بڑے دلچسپ سوانح کوائف ہیں۔ نام اوپر لکھ چکا ہوں۔ باپ کے نام کی جگہ لکھا ہے’’پاپا‘‘ اور ماں کے نام کی جگہ لکھا ہے’’ممی‘‘۔ قریب ترین عزیز کانام ہے فلپ، خون کاگروپ ہے۔ بلیو یعنی نیلا، پیشہ ملکہ، قد پانچ فٹ چارانچ ہے جوتوں کا سائز پانچ ہے چہل قدمی کے بعد چھ ہوجاتا ہے۔ وزن دو سٹون اور دو پاؤنڈ ہے مگر سرکاری ضیافت کے بعد دو پاؤنڈ بڑھ جاتا ہے۔ بکنگھم پیلس کا ٹیلیفون نمبر بھی درج ہے مگر پاسپورٹ نمبر کی جگہ لکھا ہے اس کی ضرورت ہی نہیں اور بینک اکاؤنٹ کے لئے کیپر آف دی پریوی پرس سے رجوع کریں۔

ڈائری کا پہلا اندراج یکم جون1953ء کا ہے کہ تاج پوشی کے جشن سے زیادہ مجھے اپنے گھوڑے کی فکر رہی کہ وہ ڈربی ریس جیت جائے۔ اگر اس نے نہ جیتی تو میری ساری خوشیوں پر پانی پھر جائے گا۔ ادھرریہر سل کے دوران مجھے اچانک غسل خانے جانے کی حاجت محسوس ہوئی تو بڑی پریشانی اور ندامت ہوئی۔ تاج پوشی کی لمبی تقریب کے لئے وہ مجھے کوئی دوائی دیں گے تاکہ ایسی حاجت محسوس نہ ہو۔ ادھر میں نے دنیا کی شکل کا بھاری سونے کا گولا آرچ بشپ کے پاؤں پر گرادیا تو انہوں نے ہولناک چیخ ماری اور بہت ناملائم الفاظ ان کے منہ سے نکلے غرض ریہرسل خاصی پریشان کن رہی۔

ان کی والدہ محترمہ ملکہ الزبتھ نے31مئی1953ء کو دو صفحے کا جو نصیحت آمیز خط انہیں لکھا تھا وہ بھی ملکہ نے ڈائری کے ساتھ شامل کردیا ہے اس میں دس چھوٹی بڑی نصیحتیں ہیں کہ لباس کیسا پہنو۔ باتیں کیسے کرو۔ ان کی ممی اور گھروالے انہیں پیار سے للی بت کہہ کر بلاتے ہیں۔ ملکہ نے بھی للی بت کو مزے مزے کی باتیں لکھی ہیں چوتھے نمبر پر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر صبح کے وقت کوئی سرکاری مصروفیت ہوتو صرف ایک پیالی چائے پیا کرو اور جانے سے قبل غسل خانے ہوکر جایا کرو تاکہ کوئی ناپسندیدہ صورت حال پیدا نہ ہو جیسی ان کو پیش آگئی تھی کہ کسی تقریب کے دوران انہیں غسل خانہ جانا پڑا۔

کچھ دنوں کے بعد تقریب والوں میں سے کسی نے اس’’تاریخی‘‘ کموڈ کی ’سیٹ نیلامی پر لگادی۔ آٹھویں نمبر کی نصیحت بھی قابل ذکر ہے کہ کسی سے مذاق کی بات نہ کرو اس کام کے لئے فلپ ہی کافی ہے۔ خط کی ایک سطر پس نوشت ہے کہ کیا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ چارلس کے کانوں کا آپریشن نیشنل ہیلتھ سکیم کے تحت ہوجائے گا؟

ان کی بادشاہت کا سب سے پہلا مسئلہ ان کی بہن مارگریٹ کا تھا جس نے گروپ کپٹن پیٹرٹاؤن سینڈ سے شادی کا اعلان کردیا تھا۔ پیٹرٹاؤن سینڈ مطلقہ تھے اور شاہی خاندان کا کوئی فرد کسی ایسے مطلقہ شخص سے شادی نہیں کرسکتا تھا جس کی طلاق کا دوسرا فریق زندہ ہو۔ اسی بات پر تو ملکہ کے تایا ایڈورڈ ہشتم کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ اب شہزادی مارگریٹ ایسے ہی کام پر مستعد تھیں۔ چرچل کو پتہ چلا تو انہوں نے اس رشتہ کو بہت پسند کیا کہ آہا شہزادی ایک خوبصورت گروپ کیپٹن سے بیاہی جائے گی جس کو جنگ کی ہولنا کیوں کا سامنا نہیں مگر چرچ آف انگلینڈ کے قوانین سدراہ تھے۔

پہلے تو عارضی حل تلاش کیا گیا کہ ٹاؤن سینڈ کو باہر کے ملک میں بھیج دیا گیا تاکہ دونوں کی ملاقات نہ ہو۔ اس کے بعد بھی مارگریٹ باز نہیں آئیں اور اپنی بات پر مصررہیں تو ملکہ نے اپنے شاہی حقوق استعمال کرکے اپنی بہن کو راہ راست پر لانے کا فیصلہ کیا۔

یہ روداد بڑی دلچسپ ہے کہ ملکہ نے کارمنگوائی اور اچانک اپنی ممی کے محل پہنچ گئیں۔ ماگریٹ نے انہیں دیکھا تو کہا للی بت میں ہر حال میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ملکہ نے کہا بہت خوب میں تمہیں اجازت دینے کوہی آئی ہوں۔ میری جانب سے اجازت ہے صرف یوں کرو کہ تخت کے ساتھ وابستگی کے حقوق سے دستبردار ہوجاؤ۔ اس صورت میں تمہیں سرکار کی طرف سے سول لسٹ کے تحت جو کچھ ملتا ہے وہ نہیں ملے گا۔ دیگر مراعات بھی ساکت ہوجائیں گی۔ تم عام مسز ٹاؤن سینڈ بن کر مسٹر ٹاؤن سینڈ کی آمد میں مزے کروگی۔ میری طرف سے شادی کی اجازت ہے۔

یہ سن کر شہزادی مارگریٹ کے ہوش اڑ گئے۔ رنگ زرد پڑگیا ذراسی دیر کو سوچ میں پڑ گئی پھر بولی۔ للی بت مجھے ملکہ کی سگی بہن کی حیثیت سے اپنی شاہی فرائض کا احساس ہے میں ان سے اغماض نہیں کرسکتی۔ اور اگلے دن اعلان کردیا گیا کہ مارگریٹ پیٹر ٹاؤن سینڈ سے شادی نہیں کریں گی۔ اس طرح ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے پہلے معرکہ میں سرخروئی حاصل کرلی۔

اٹھارہ جون1954ء کی ڈائری میں مسٹر چرچل اور پاکستانی وزیراعظم کا دلچسپ مکالمہ درج ہے۔ مسٹر چرچل نے شراب پیش کرنے سے پیشتر پوچھا آپ کیا لینا پسند کریں گے؟ وہسکی اور سوڈا؟
وزیراعظم نے کہا شکریہ کچھ نہیں۔
چرچل ہیں کیا مطلب؟
مسٹر چرچل میں کچھ نہیں پیتا۔
ہیں؟ کچھ نہیں کرائسٹ! خدا!اللہ!! کچھ بھی نہیں؟‘‘ (صفحہ33)۔

ملکہ کی بیٹی شہزادی این کو مقررہ حد سے زیادہ تیز رفتاری کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ محترمہ پچانوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہی تھیں۔ ملکہ نے پوچھا تو سادگی سے کہا’’ممی سوری، میں سمجھی تھی میں گھوڑے پر بیٹھی ہوں‘‘ (صفحہ95)، 4جنوری1980ء کی ڈائری میں شہزادی این کے گھوڑوں میں توغل کا ذکر ہے’’آج این نے یہ بتایا کہ وہ پھر ماں بننے والی ہے۔ حیرت ہوئی۔ این اور مارک دونوں کو گھوڑوں میں اتنی دلچسپی ہے کہ ہمارا خیال تھا انہیں کسی او رکام کی فرصت ہی نہیں ملتی ہوگی۔ ان کا آئندہ بچہ کہیں چار ٹانگوں والا نہ ہو۔‘‘ (صفحہ110)۔

یہ1972ء کی بات ہے۔10جنوری کو ملکہ لکھتی ہیں ’’ہم نے کھانا موم بتیوں کی روشنی میں کھایا کیونکہ بجلی بند ہے۔ سابق وزریاعظم مسٹر ہیرلڈمیکملن نے جزائرسسلی سے تاردیا ہے کہ میرے وقتوں میں کم ازکم بجلی تو ہوتی تھی(صفحہ81)۔

دس دسمبر1980ء کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ہیرڈز والوں نے محل کے ایک کمرہ میں دکان سجائی ہے کہ میں کرسمس کے تحفے خرید سکوں۔783 آدمیوں کے لئے میں پچاس پاؤنڈ کے بجٹ میں کیا کیا خریدوں گی؟(صفحہ111)۔

آپ قطر کے دورہ پر گئی ہیں تو وہاں جو تحفے ملے ان کی تفصیل بھی سن لیں۔’’سونے کی گھڑی جس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ سونے کا ایک بیگ اور سونے کی زنجیر۔ سونے کی ایک تلوار جس کا دستہ موتیوں اور جواہرات کا بنا ہوا ہے۔ خالص سونے کا ایک اونٹ جس کے ساتھ پام کے درخت ہیں جن میں جواہرات کے ناریل لٹک رہے ہیں۔ میں نے جواب میں صرف اپنی دستخط شدہ تصویردی۔‘‘ (صفحہ106)۔

لیڈی ڈیاناسپنسر کا ذکر پہلی بار یکم جنوری1981ء کی ڈائری میں ہوا ہے کہ چارلس اپنی گرل فرینڈ لیڈی ڈیانا سپنسر کو نئے سال کی پارٹی میں لایا۔ بڑی شرمیلی سی دلربالڑکی ہے چارلس کے مقابلے میں کچھ لمبی لگتی ہے۔ میں نے یہ دیکھنے کے لئے اس کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا کہ چارلس کے لئے مناسب بھی ہے یا نہیں؟ میں نے جان بوجھ کر مچھلی کھانے کے کانٹے میز پر لگوائے تھے حالانکہ مچھلی کھانے میں شامل نہیں تھی اس نے ان کانٹوں کو چھؤا تک نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہؤا اسے کھانے کے آداب کا علم ہے۔(صفحہ111)۔

اگلے ہی روز کی ڈائری میں لکھا ہے کہ چارلس اور ڈیانا آئے اور شادی کرنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ڈیانا سے پہلا سوال ہی یہ کیا’’کہیں تم مطلقہ تو نہیں ہو؟‘‘ اس نے کہا نہیں تو میں نے انہیں شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر 10 جون 1981کو ایک خط لکھا جس میں ڈیانا کو شاہی آداب کے بارے میں بتایا۔ ایک ہدایت یہ تھی کہ شادی کے بعد’’میں اور میرا خاوند‘‘ کہنے کی بجائے ہمیشہ چارلس اور میں کہنا اور سب سے ضروری ہدایت یہ تھی کہ اپنے ابا کو کہہ دو کہ وہ کبھی دوبارہ ٹی وی کیمروں کے سامنے نہ آئیں۔ (صفحہ 114)۔

اس مشہور واقعہ کا ذکر بھی ہے جس میں ایک اجنبی ان کی خوابگاہ میں پہنچ گیا تھا(صفحہ124)۔ اس بات کا تذکرہ بھی کہ مسزتھیچر ان کے ہاں بالمورل کاسل میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ ان کا بیٹا انہیں لینے کو آیا تو راستہ بھول گیا اس لئے انہیں کئی گھنٹے تک وہاں انتظار کرنا پڑا(صفحہ127)ایک ملک کے بادشاہ اور ملکہ ان کے مہمان تھے۔ رات کو ان کے اعزاز میں رقص تھا۔ مہمان ملکہ کی باری محل میں کام کرنے والے ترکھان سے آگئی۔ ملکہ نے رقص کرتے ہوئے ساتھی سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو اس نے بتایا میں ترکھان ہوں۔ ملکہ کو یہ تو سمجھ نہیں آئی کہ ترکھان کیا ہوتا ہے کہنے لگیں’’خوب! میرے میاں بھی اگر بادشاہ نہ ہوتے ترکھان ہوتے!‘‘ (صفحہ137)۔

یہ ڈائری ایک ایک ایسی ماں کی داستان بھی ہے جس کے لڑکوں کی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے۔ شادیاں ٹوٹ گئیں۔ ظاہر ہے ایک ماں ان تمام صدموں کو جھیلتی رہی حتیٰ کہ ایک اخبار نے پریشان ماؤں کی رہنمائی کے لئے مشورے دینے شروع کئے تو ملکہ نے گمنام ماں کی حیثیت سے اخبار کو خط لکھا وہ خط اور اس کا جواب دونوں ڈائری میں شامل ہیں اور دلچسپ۔ ملکہ نے لکھا’’میرا چہرہ جانا پہچانا ہے اس لئے میں اپنا پتہ خفیہ رکھا ہے۔ میری ہمت جواب دے رہی ہے اس لئے مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں اکسٹھ سالہ باروزگار عورت ہوں میرے بچے بڑے بڑے ہیں۔

بیٹی تو ٹھیک ہے مگر میرے تینوں بیٹے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ بڑا بیٹا چارلس ہے چھ سال سے شادی شدہ ہے مگر میاں بیوی میں ٹھنی ہوئی ہے۔ دوسرے کا نام انڈریوہے اس نے اپنے سے کمتر درجہ کی لڑکی سے شادی کرلی ہے۔ لڑکی اچھی ہے مگر لوگوں سے ملنے جلنے کے آداب سے ناواقف ہے، لوگوں کو چھتریاں چبھوتی پھرتی ہے۔ لباس پہننے کا سلیقہ بھی نہیں رکھتی۔ وہ میرے بیٹے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ وہ اسے پانچ ملین پاؤنڈ کا نو کمروں کا گھر بنواکردے۔ یقین مانیں اس نے اس گھر میں میرے رہنے کے لئے ایک’’بڑی اماں کے رہنے کا فلیٹ‘‘ بھی بنوانے کا ارادہ کررکھا ہے۔ میرا بیٹا1991ء تک رائیل نیوی میں کام کرنے کا پابند ہے وہ یہ اخراجات کہاں سے کرے؟ سب سے چھوٹا بیٹا ایڈورڈ ہے۔ اس کے اپنے مسئلے ہیں۔ کوئی لڑکی تو دور دور تک نظر نہیں آتی مگر وہ احمقانہ کھیلوں میں لگارہتا ہے۔ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے۔ آج پریوں کی کہانیاں پڑھ رہا ہے کل کیا کرے گا کچھ پتہ نہیں۔ آپ کی مخلص ونڈسرکی پریشان حال ماں‘‘(صفحہ161)۔

آگے ڈیلی مرر کے اخبار کا وہ تراشہ جس میں جواب چھپا ہے’’لگتا ہے آپ جوانی میں بہت سفر کرتی رہیں اور بچوں کو نوکروں کے رحم وکرم پر چھوڑ جاتی رہی ہیں۔ ایسے بچے ایسے ہی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جو آپ نے بیان کئے ہیں۔ بڑے بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑدیں کہ وہ اپنے مسائل خود حل کرے۔ چھوٹے کی بیوی کو احساس کمتری میں مبتلا نہ کریں آخر آپ اس کی صرف ساس ہی ہیں نا! پانچ لاکھ پاؤنڈ والے گھر کے لئے آپ کے بیٹے کو قرض کہاں سے ملے گا اس لئے یہ بات ہوا میں اڑجائے گی۔ سب سے چھوٹے بیٹے کے بارے میں یہ سمجھیں کہ بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں وقت لگتا ہے اس میں ہم آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ ہاں آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ گھر سے باہر نکلنا شروع کریں۔ کسی پنشنر کلب کی رکنیت لے لیں یا کوئی تفریحی مشغلہ اختیار کریں۔ پریشان ہونا چھوڑدیں میرا خیال ہے آپ بھی جوانی میں ایسے ہی مسائل سے دو چار رہی ہوں گی۔‘‘(صفحہ162)۔

ڈائری کے آخری صفحے پر اپنے نام کا ایک یاددہانی کا میمودرج ہے

’’ سنہ 2021ء میں تخت سے دست برداری کا سوچو!‘‘

اس طرح171صفحات کی یہ ڈائری ختم ہوئی ہے۔ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ ملکہ کے مسائل ختم نہیں ہوئے بڑھتے ہی گئے مگر وہ بڑی ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کررہی ہیں۔ یہ ڈائری ایک ہمدردعورت او رپریشان ماں، وفادار بیوی، مخلص ملکہ اور اکیسویں صدی میں آئینی بادشاہت کرنے والی شخصیت کے حقیقی خدوخال کو بیان کرتی ہے۔ اسی لئے پڑھنے والے کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔

Comments are closed.