انقلاب اور رد انقلاب کی کہانی

لیاقت علی ایڈووکیٹ

bhutto

ممتاز مفتی کے ناول ’ علی پور کا ایلی ‘ کو اپنی ضخامت کے اعتبار سے اردو ناولوں کا گرنتھ صاحب کہا جاتا ہے یہی حال پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود کی یاد داشتوں پر مبنی کتاب ’ انقلاب اور رد انقلاب کی کہانی‘ کا ہے ۔ 800صفحات پر مشتمل اپنی اس ضخیم خود نوشت میں راناشوکت محمود نے 1947سے 2004 تک اپنے شخصی اورسیاسی سفر کا احوال قلم بند کیا ہے ۔رانا شوکت کے نزدیک یہ خود نوشت نہ صرف ان کی بلکہ پیپلز پارٹی کے ’ان باوفا اور نظریاتی کارکنوں کی 33سالہ جدوجہد کی داستان ہے جنھوں نے سیاست کو عبادت سمجھا اور جن کی قرباینوں کا نہ تو کسی کے پاس ریکارڈ ہے اور نہ ہی کسی کے پاس ان قربانیوں کے اعتراف کا وقت ہے ‘۔

امرتسر کے نواح سے تعلق رکھنے والے رانا شوکت محمود نے ابتدائی تعلیم لوئر مال لاہور کے اسلامیہ ہائی سکو ل خزانہ گیٹ سے حاصل کی اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن اور پنجاب یونیورسٹی لا ء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرکے ننکانہ صاحب جو ان دنوں ضلع شیخوپورہ کی تحصیل تھی ، سے وکالت کا آغا کیا ۔
اپنے زمانہ طا لب علمی میں رانا شوکت محمودپڑھاکو طالب علم بالکل نہیں تھے ۔دوسرے طالب علموں کی طرح وہ پڑھائی کے پیچھے لٹھ لے کر نہیں پڑے ہوئے تھے ۔ وہ توگو رنمنٹ کالج کی اوول گراؤ نڈ میں بیٹھ کر یہ سوچا کرتے تھے کہ’ کاش ملک میں ایسا انقلا ب آئے جو غریب عوام کی تقدیر بدل دے‘۔

بھٹو کی شخصیت سے رانا شوکت اس وقت سے متاثر تھے جب وہ ابھی جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تھے ۔ بھٹو کی شخصیت کے لئے یہی پسندید گی 30نومبر1969 کو گلبر گ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلا س میں شرکت کا باعث بنی تھی ۔’دراصل میں پیپلز پارٹی تشکیل پانے سے پہلے ہی 1962سے بھٹو صاحب کا شیدائی ہو کر ان کا شریک سفر بن چکا تھا ‘۔

عملی سیاست کا آغاز رانا صاحب نے 1962میں لائل پور( حال فیصل آباد) سے بی ڈی ممبر منتخب ہو کر کیا ۔دسمبر 1970میں ہوئے انتخابات میں رانا شوکت محمود پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور جب بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پی پی پی بر سر اقتدار آئی تو رانا صاحب پنجاب کابینہ میں وزیر صحت مقرر ہوئے لیکن جلد ہی ان کو یہ وزارت چھوڑنا پڑی کیونکہ انھوں نے بطور وزیر صحت جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف مہم چلا ئی تھی جس کی بنا پر اس بزنس سے وابستہ بہت سے طاقتور حلقے ان کے مخالف ہوگئے تھے ۔’میرے جیسا وزیر افسروں ، ڈرگ انسپکٹر ز،نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو Suit نہیں کرسکتا تھا ۔ اس لئے میرے قلم دان کا تبادلہ کوئی غیر فطری اور غیر متوقع بات نہیں تھی ‘۔

وزارت صحت کے بعد رانا شوکت محمود کو وزات مال کا وزیر بنایا گیا ۔وزیر مال کے طور پر اپنے جس کارنامے پر انھیں فخر ہے وہ فوج کو زمین کی الاٹمنٹ ہے ۔’اسی زمانے میں جنرل سوار خان نے جو پاکستان آرمی کے ایجو ٹینٹ جنرل تھے ،جونیئر کمینشنڈ آفیسرز کے لئے 80ہزار ایکڑ اراضی کا مطالبہ کیا ۔جو میرے صرف ایک آرڈ رکے ذریعے دے دی گئی ۔بورڈ آف ریونیو کی طرف سے زبردست مخالفت ہوئی مگر میں اپنے فیصلے پر قائم رہا ۔

میری تجویز تھی کہ ان کو یہ اراضی سستے داموں دی جائے ‘۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ’ سابق ادوار میں فوج کو ساہیوال،وہاڑی ، فیصل آباد ،ملتان اور رحیم یار خان میں اراضی مہیا کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ سارے پنجاب کے بارڈر پر سیالکوٹ سے رحیم یارخان تک پانچ میل اندر تک کا علاقہ بارڈر بیلٹ قرار دے دیا گیا اور ساری اراضی مالک زمین داروں سے لے کر فوج کو دے دی گئی جو اکثر افسروں نے کھڑے کھڑے مارکیٹ کی قیمت لے کر پھر انہی مالکان کے نام کر دی ‘۔

تیرہ جنوری 1975کا دن رانا شوکت محمود کو پوری تفصیل سے یاد ہے۔ یہی وہ دن تھا جب ان کی جنرل ضیاء الحق سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔’وہ ایک چمکیلا دن تھا ۔دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔خوشگوار ہوا چل رہی تھی میں اور لاہور کے کور کمانڈر جنرل اقبال ا ئیر پورٹ پر موجود تھے ۔ جن سے میری بے تکلفی تھی ۔۔میری نظر دور سے آنے والے چھوٹے قد کے ایک شخص پر پڑی ۔خاکی وردی میں ملبوس اس شخص نے سر پر کالے رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔پہلی نظر میں ،میں اسے پی آئی ا ے کا لو ڈر سمجھا اور نظر انداز کرتے ہوئے جنرل اقبال سے گفتگو میں مصروف ہوگیا ۔

قریب آکر (اُس شخص نے) جنرل اقبال کو ایڑیاں بجا کر زور دار سلیوٹ کیا تو میں نے غور سے موصوف کی جانب دیکھا ۔ میرے سامنے ٹیڑھی آنکھوں اور ٹیڑھی ٹانگوں والا سانولے رنگ کا ایک شخص کھڑا تھا جس کے کندھوں پر میجر جنرل کے رینک آویزاں تھے ۔جنرل اقبال نے موصوف سے میرا تعارف کرایا اور بتایا کہ جنرل ضیاء الحق ہیں ۔جنرل ضیاء الحق کے چلے جانے کے بعد میں نے تعجب سے جنرل اقبال سے سوال کیا کہ ۔۔۔یہ صاحب جنرل کیسے ہوگئے ۔۔۔جس کے جواب میں جنرل اقبال بولے۔۔۔قسمت قسمت کی بات ہے ‘۔

رانا شوکت محمود کا کہنا ہے کہ نصف صدی میں برصغیر میں دو انقلا ب بر پا ہوئے جن کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر خوب شہرہ ہوا پہلا انقلاب وہ قیام پاکستان کو قرار دیتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ انقلاب ناکام رہا کیونکہ ’خود قائد اعظم نے ہی اس انقلاب کے رد انقلاب کی خشت اول رکھ دی تھی ۔جب پاکستان آزاد ہوا توقائد اعظم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کا پہلا آئین گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ہوگا اور جب تک کوئی نیا آئین نہیں مرتب ہوجاتا یہی ایکٹ پاکستان کا آئین رہے گا ۔

یہ ایکٹ ایک غیر ملکی حکومت نے غلام ملک کے لئے وضع کیا تھا ۔ اس ایکٹ کے تحت گورنر جنرل کو بے پنا ہ اختیارات حاصل تھے ۔یہی وہ اختیارات تھے جن کی خاطر قائد اعظم نے وزیر اعظم کی بجائے نئے ملک کا گورنر جنرل بننا پسند کیا تھا۔حکومت چلانے اور مسلم لیگ چلانے کے تما م اختیارات خود رکھ لئے ۔وزیر اعظم کو کوئی بھی اختیار نہ ملا ۔انھوں نے غلام محمد اور چوہدری محمد علی کو کابینہ کا حصہ بنا کر اختیارات کی قوت ان کے ہاتھوں میں دے دی ۔

قائد اعظم نے یہ دو تحفے پاکستان کو دیئےان دونوں نے پاکستان کی آزادی ،خود مختاری اور جمہوریت کی جو تباہی نکالی اس سے پاکستان ابھی تک نہیں اٹھ سکا ۔قائد اعظم کی اس سوچ اور عمل کا خمیازہ ہم آج بھی بھکت رہے ہیں کہ جمہوریت کی بجائے ہم افسر شاہی اور مارشل لاؤں میں پس کر رہ گئے ہیں ‘۔

دوسرا انقلاب 1970میں بھٹو صاحب کی قیادت میں آیا۔یہ دراصل محنت کشوں ، مزدور اور کچلے ہوئے عوامی طبقات کا انقلاب تھا جو ایوانوں میں قیام پاکستان کے بعد سے براجمان چلے آنے والے ٹوپی، کلاہ، پگڑی والے ان اچکن بر دار روایتی سیاست دانوں ،زمین داروں ،تاجروں ،صنعت کاروں اور جاگیرداروں کے خلاف تھا ۔ لیکن اس انقلاب کے خلاف بھی جلد ہی رد انقلاب شروع ہوگیا ۔
اس رد انقلاب کی قیادت جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پرویز مشرف کے دور تک فوج کے ہاتھ میں رہی ۔فوج کی ہم رکاب سرمایہ دار ، فتوی فروش ،طالع آزما اور ابن الوقت مذہبی قوتیں تھیں ۔فوج اس رد انقلاب کی رہنما کیوں بنی ؟

اس کا جواب رانا شوکت محمود یوں دیتے ہیں ’100کی قومی آمدنی میں سے 70فی صد تو فوج لے گئی بقایا 30فی صد کا 70فی صد سول بیوروکریسی لے گئی ۔جو دو چار فی صد بچا اس سے اپنے بین الاقوامی قرضوں کی اقساط ادا کرنے پر لگا دیا ۔غریب قوم اور غریب طبقات کے لئے تو ایک فی صد بھی نہیں بچتا کہ ان کچلے اور پسے ہوئے طبقات کی زندگی بہتر کرنے کے لئے صحت ،تعلیم ،ملازمت اور رہائش،بجلی ،گیس وغیرہ کے کچھ کیا جاسکے ۔

ملک میں صرف پچاس ساٹھ لاکھ افراد اچھی زندگی بسر کرتے ہیں بقیہ کروڑوں انسان محنت مشقت کرکے ان پچاس لاکھ افراد کو پال رہے ہیں ۔اور ان کی پر تعیش زندگی کا سہارا ہیں ۔مارشل لا ء کا نفاذ ہو یا پھر،ایم ایم اے ،آئی جے آئی اورپی این اے کی تشکیل سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ عوام کا پیسہ کس طرح کھایا جائے ۔فوج کو قائم رہنے کے لئے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے دشمن ہندوستان کو قائم کر لیا گیا ۔ دشمنی کے لئے ایک مسئلہ کی ضرورت بھی پڑتی ہے جو کہ کشمیر کی صورت میں پید ا کر لیا گیا ۔قوم کو پراپیگنڈا سے بیوقوف بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ملا اور پریس میں ڈھونڈ لیا گیا ‘۔

رانا شوکت محمود پیپلز پارٹی اور بھٹو سے اٹل وفاداری کے مدعی ہیں اس لئے ان کی پوری کتاب میں کہیں بھٹو اور پیپلز پارٹی کا معروضی تجزیہ اور جائزہ موجود نہیں ہے۔ ہر موقع پر پیپلز پارٹی اور بھٹو کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔بھٹو کے طرز حکمرانی اور سیاست سے وہ پوری طرح متفق ہیں ۔ساری قباحتیں اور خرابیاں بھٹو مخالف سیاست دانوں میں تھیں بھٹو تو پوری توجہ اور تندہی سے’ عوام کی بہتری اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشاں تھے ‘۔

ہمارے ہاں یہ عمومی رویہ پایا جاتا ہے کہ صاحب قائد اعظم تو ٹھیک تھے لیکن ان کے ارد گرد کھوٹے سکے تھے ۔ ایوب خان تو پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے تندہی سے کام کر رہے تھے لیکن ان کے بیٹوں نے ان کو بدنام کر دیا ۔اسی طرح خود بھٹو تو بہت مخلص تھے لیکن ان کو بدنام مسعود محمود جیسے بیوروکریٹو ں نے کیا ۔

رانا شوکت محمود بھی اسی عمومی رویے کا شکا ر ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو سے جو غلطیاں منسوب کی جاتی ہیں وہ ان کی بجائے ان کے ارد گرد موجود بیورو کریٹس اور پیپلز پارٹی میں شامل موقع پرست سیاست دانوں نے کی تھیں۔ بھٹو اس معاملے میں ’بے قصور‘ تھے ۔جے ائے رحیم کی پٹائی محمود مسعود نے کروائی تھی بھٹو کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا بلکہ رانا صاحب کے بقول وہ تو اس معاملے سے بے خبر تھے ۔

بھٹو نے مارچ1977کے انتخابات میں انتخابی مہم کا انچارج یوسف بچھ اور رفیع رضا کو مقرر کیا تھا لیکن رانا شوکت محمود ان دونوں کو’ سر تاپا امریکہ اور سی آئی اے کا ایجنٹ‘ بتاتے ہیں لیکن بھٹو جنھوں نے انھیں اپنا مشیر اور وزیر بنا رکھا تھا ان کے بارے کچھ نہیں کہتے ۔

بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کا مقدمہ قتل پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ۔روز اول سے عدالت نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ بھٹو کو اس قتل میں ہر حال میں سزا ئے موت دینی ہے ۔لیکن اس مقدمے کا ایک پہلو جس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے وہ بھٹو کے وکلا کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ان کی کار کردگی ہے۔رانا صاحب نے اس بارے میں کھل کر بات کی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے عدالت بھٹو کو سزا دینے پر تلی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود بھٹو کے وکلا کو بھرپور انداز میں پیشہ ورانہ طریقے سے اس مقدمے کو لڑنا چاہیے تھا جو انھوں نے بالکل نہیں کیا تھا ۔رانا صاحب کہتے ہیں کہ ’میں خود بھی وکیل ہوں اور فوج داری مقدمات لڑتا رہا ہوں ۔اس لئے مجھے بخوبی ادراک ہے کہ بھٹو کا مقدمہ لڑنے میں کہاں کہا ں غلطیا ں ہوئیں۔

میری دانست میں سب سے بڑی غلطی اس خوش فہمی کا شکار ہوجانا تھا کہ ضیاء الحق بھٹو جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت کو تختہ دار پر نہیں لٹکا سکتا ۔ رانا صاحب کا خیال ہے کہ بدقسمتی سے یہ خوش فہمی بھٹو کی پھانسی تک بر قرار رہی اور اس خوش فہمی کو بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مخالف قوتوں نے بر قرار رکھوایا تاکہ بھٹو کی رہائی کے لئے عوامی سطح پر کوئی موثر تحریک نہ چل سکے ۔

رانا شوکت محمود کے نزدیک ’دوسری بڑی اور اہم غلطی ایک سیدھے سادے مقدمہ قتل کو سیاسی انداز میں لڑنے کی کوشش تھی ۔تیسری فاش غلطی یہ تھی کہ مقدمے کی کاروائی میں بلا وجہ طوالت ہوگئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ضیا ء الحق انصاف کی حمایت کرنے والے ججوں کو کم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مقدمے میں تاخیر کسی سکیم یا پلان کے تحت کروائی گئی ہو ۔

بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے اپنے دلائل مکمل کرنے میں 57دن لگادیئے جب کہ استغاثہ کے وکیل اعجاز بٹالوی نے 38 دنوں میں اپنے دلائل مکمل کئے ۔میری رائے میں بھٹو کے مقدمہ قتل کی پیروی کرنے میں خالص قانونی طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے سیاسی انداز اپنا یا گیا ۔ میری رائے میں بھٹو کے وکلا نے دوران سماعت زیادہ وقت تکرار ، غیر ضروری ، غیر اہم اور غیر متعلقہ بحث پر ضائع کر دیا ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کے وکلا ڈی۔ایم ۔اعوان اور یحییٰ بختیار فو جداری مقدمات کے سیشن ٹرائل کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے ۔میری رائے میں بھٹو کا عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ اور مقدمے کے وعدہ معاف گواہ سمیت ان دیگر ملزموں پر جرح سے انکار بھی غلط اقدام تھا جنھوں نے اقبال جرم کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ بھٹو کی وجہ سے اس جرم کے مرتکب ہوئے تھے‘ ۔

عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے کی بدولت بھٹو کے مقدمہ قتل کی مثل پر استغاثہ کی تردید میں کوئی شہادت اور گواہوں پر جرح موجود نہیں تھی جس کی بنا پر چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے بنچ نے نہایت سہولت اور آسانی سے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر دیا۔آج اگر پلٹ کر بھٹو کے مقدمہ قتل پر نظر ڈالی جائے تو رانا شوکت محمود کا تجزیہ درست لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھٹو کے وکلا نے عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرکے عدالتی بنچ کے ہاتھ مضبو ط کئے تھے۔

رانا شوکت محمود اور ان کی فیملی جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی دور حکومت میں متعدد مرتبہ جیل گئی اور انھیں لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا ۔ ان کی بیگم صاحبہ اور بیٹی جو ان دنوں زیر تعلیم تھیں، نے بہادر ی اور استقامت کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی انتقامی کاروائیوں کا مقابلہ کیا ۔ رانا صاحب نے کئی سالوں پر محیط پکڑ دھکڑ اور قید و بند کے ان واقعات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے ۔

کتاب میں بہت سا ایسا مواد موجود ہے جو شائد کہیں اور اتنی آسانی سے نہ مل سکے ۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد اس کا پہلا منشور ، عوامی لیگ کے چھ نکات ، بھٹو کی صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پہلی براہ راست تقریر ، پاکستان قومی اتحاد کا منشور اور مختلف ادوار میں پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تفصیل وغیرہ ۔ پاکستان کی سیاست پر ریسرچ کرنے والوں کے لئے رانا شوکت محمود کی یہ خود نوشت ریفرنس کا کام دے سکتی ہے ۔

کتاب: انقلاب اور رد انقلاب کی کہانی ،رانا شوکت محمود کی زبانی
مصنف:رانا شوکت محمود
صفحات : 800
قیمت:900روپے
ناشر: فکشن ہاؤس ۔مزنگ لاہور ،ٹیلی فون:042-37249218

One Comment