مشرقی پنجاب کے مہان کہانی کار و ڈرامہ نگار بلونت گارگی کی پنجابی کی مشہور کتاب’’حسین چہرے‘‘ سے ایک خاکہ
ترجمہ: الفت تنویر بخاری
(دوسری و آخری قسط)
بازار میں چمک دمک او رگہماگہمی تھی۔ سیخ کباب، پان، پھولوں کے ہار اور تماش بینوں کی رونق۔ اس گہماگہمی میں عجیب سرسراہٹ، خاموش اشارے او رگھورنے والی نظریں تھیں۔ انتہائی خاموشی سے سودے بازی ہورہی تھی۔
میں نے دیکھا کہ باری ایک طرف کھڑا کسی پٹھان سے سرگوشیاں کررہا تھا۔ پٹھان کی مہندی رنگی رخساروں تک پھولی ہوئی موچھیں مجھے نظر آئیں۔ پھر دونوں ہمارے پاس آئے اور باری نے طوائف(بیسوہ) کا ریٹ مقرر کرنے کی بات کی۔
منٹو غصہ سے بولا۔ تم خود یہ معاملے طے کرو۔ بے وقوف! جاہل!
منٹو کو اس قسم کی سودے بازی بری لگتی تھی۔ اتنے میں باری اورپٹھان آگئے۔ پٹھان بولا’’چلو اس کوٹھے پر بہت اچھا مال ہے‘‘
ہم چاروں سیڑھیاں چڑھ گئے۔ بالکونی سے گزرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو ایک پٹھا بیسوہ بیٹھی تھی۔ اس کی عمر35کے لگ بھگ تھی۔ چہرے کے نقش موٹے۔ اس کے بالوں میں تیل لگا ہوا تھا اور ان میں چنبیلی کی کلیاں۔ ریشم کی جھلمل کرتی قمیض، سلک کی شلوار اور منہ میں پان کا بیڑہ تھا۔
’’آؤ بیٹھو‘‘
پٹھان بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ اس کی بڑی بڑی مونچھوں والا سرخ چہرہ نرم پڑگیا تھا۔ وہ بہت حلیم اور تابع دار تھا۔ وہ بازار حسن کے اس اڈے کا چیف دلا تھا۔
منٹو نے ایک نظر سے اس طوائف کے گدگدے جسم کو دیکھا۔ ایک ملازم آیا تو اس نے تین گلاس رکھ دئیے۔ منٹو بولا سوڈا منگواؤ اور کھانے کے لئے تکے کباب۔ تم کیا پےؤ گے؟
میں ان دنوں گوشت نہیں کھاتا تھا۔ ایک دو دفعہ کھانے کی کوشش کی مگر چبایا تو ربڑکی طرح محسوس ہوتا۔ میں نے کہا میں آملیٹ کھاؤں گا۔
منٹو نے جیب سے دس دس روپے کے اکڑے ہوئے نوٹ نکالے۔ دس منٹ بعد وہ اوراس کا ملازم کباب اور آملیٹ کی پلیٹیں لے کر آگئے۔ ساتھ ہی سوڈے کی بوتلیں اور برف۔ ایک پلیٹ میں لیموں او رپیاز۔ اس نے باقی پیسے واپس کئے مگر منٹو نے کہا رکھ لو ان کو۔‘‘
باری نے بوتل کھولی او رتین گلاسوں میں شراب ڈال کر سوڈا اور برف ڈالی۔
میں نے کہا’’میں نہیں پیتا‘‘
باری کے سانولے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ آئی بھئی شراب تو نیکی کی چیز ہے۔ پی لو، منٹو بولا۔’’یہ نہیں پیتا‘‘ پھر وہ بیسوہ کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا تم پی لو، میری جان ‘‘ رنڈی نے ترچھی نظر سے منٹو کی طرف دیکھا او رموٹی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے گلاس اٹھا کر پینے لگ گئی۔
منٹو او رباری نے فوراً ہی اپنے گلاس خالی کردئیے پھر ڈبل پیگ تیار کئے۔ سپ لے کر منٹو نے کہا۔’’اب مال دکھاؤ‘‘ بیسوہ نے پٹھان کو اشارہ سے کچھ کہا۔ پٹھان تھوڑی دیر کے بعد بنی سنوری طوائف اندر لے آیا۔ وہ سامنے بیٹھ گئی منٹو نے اس کو غور سے دیکھا۔ میں نے بھی اس کو تجسس سے دیکھا۔ اس نے مسکرا کر پوچھا۔’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘‘
’’تیری ماں کے گاؤں سے‘‘ منٹو بولا’’تم کہاں کی ہو؟‘‘ منٹو نے دو تین سوالوں کے بعد طوائف کو ردکردیا۔ پٹھان کے اشارے سے وہ چلی گئی اس کے بعد دوسری لے کر آیا۔پھر تیسری۔ مگر منٹوں کو تینوں ہی پسند نہ آئیں۔ پھر چوتھی طوائف آئی۔ تیکھے نقش، چہرے پر سیکسی مسکراہٹ ، آنکھوں پر کالا چشمہ، وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی۔ جیسے حالت نماز میں ہو۔
منٹو کو اس کا یہ انداز بھلا لگا۔ دو چار سوال کئے جس کا طوائف نے مخصوص نخرے کے ساتھ جواب دیا۔ منٹو کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ مگر ساتھ ہی ایک او رجذبہ بھی کام کررہا تھا۔ اس نے پوچھا یہ کالا چشمہ کیوں لگایا ہوا ہے۔ رات کے وقت میری جان؟
وہ بولی’’آپ کے حسن سے میری آنکھیں کہیں چندھیانہ جائیں؟ ‘‘ منٹو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ میری جان تمہارے ساتھ بستر میں بہت مزہ آئے گا۔ مگر پہلے دیکھ تو لوں کہ تم ہوکیا؟
یہ کہہ کر اس نے اچانک اس کا کالا چشمہ اتار لیا۔ طوائف نے آنکھیں جھپکیں۔ ایک آنکھ بھینگی تھی۔ منٹو بولا، اگر تم چشمہ کے بغیر آئی ہوتی تو میں ضرور تم سے محبت کرتا۔ تیری اس بھیگی آنکھ پر ہی قربان ہوجاتا مگر چوری میں برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ طوائف بھی رد کردی گئی۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے گوشت کباب او رآملیٹ تین مرتبہ آچکے تھے۔ منٹو پانچ پیگ پی چکا تھا۔ مگر اس کی باتوں میں وہی چمک او ررنگینی تھی۔ وہ چھٹا پیگ بنانے لگا تو بیسوہ نے کہا’’اور نہ پیو‘‘ اس کے انداز میں ہمدردی تھی۔ منٹو نے بوتل اٹھائی تو بیسوہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔’’آپ کو میری قسم، اور نہ پیو‘‘ میں نے منٹو سے کہا او رنہ پیو۔ یہ ٹھیک کہہ رہی ہے اس کو ہمدردی ہے’’ وہ بولا۔ ہمدردی ہے؟ ۔ سالی چار پیگ بچانا چاہتی ہے۔ اپنے دلے کے لئے۔ اگر صاف کہہ دے تو میں اس کے لئے نئی بوتل منگواسکتا ہوں۔ مگر مگر یہ ہمدردی ہمدردی کا ڈھونگ کررہی ہے۔‘‘ اس نے مزید پیگ بنایا اور نئے گھونٹ کا مزہ لینے لگا۔ بیسوہ نے دوبارہ منٹو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اللہ جانتا ہے آپ بہت اچھے لگتے ہو۔‘‘
منٹو نے اس کی ران پر ہاتھ مارا’’میری جان تم دنیا کی تمام عورتوں سے حسین ہو تم کلو پیڑا ہو۔۔۔۔ ہیلن ہو۔۔۔‘‘
منٹو نے پٹھان کو جتنی مرتبہ نوٹ دئیے اس کا حساب نہ لیا۔ ہر بار پٹھان باقی پیسے رکھ لیتا۔ منٹو بے دردی سے نئے نئے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ لٹا رہا تھا۔
مجھے منٹو میں بابو گوپی ناتھ نظر آیا۔ اس کی کہانیوں کا کردار جوبازار حسن میں جاتا ہے اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی دولت لٹاتا ہے۔ اس کو طوائفوں اور دلالوں کی دنیا پسند ہے۔ جیسے درگاہوں او رمقبروں پر پیر فقیروں کی۔ مگر، بابو گوپی ناتھ بے نیاز ہے۔ منٹو اس کاہی عکس تھا۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا۔ کہ بابو گوپی ناتھ میں بسی ہوئی انسانیت منٹو کی ہی روح تھی۔
منٹو کی روح میں عجیب ویرانگی تھی۔ وہ طوائفوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی بے تعلق تھا۔ مگر وہ ان قحبہ خانوں میں چھپی ہوئی انسانیت او ربیسوہ کے دل میں بسی ہوئی بیوی کو دیکھتا تھا۔ بیوی میں طوائف او رطوائف میں بیوی ڈھونڈتا تھا۔
جسموں کی اس منڈی میں وہ روح کا بیوپاری تھا۔
دوسرے دن گیارہ بجے منٹو ریڈیو اسٹیشن آیا۔ان دونوں جگل کشورمہر ا،سٹیشن ڈائریکٹر تھا۔ بڑا صاحب، جس سے سارا سٹاف کانپتا تھا۔ لچکدار بدن، چہرے پر ماتا کے مدھم داغ، بھیڑئیے جیسی آنکھیں اور اداکاروں جیسی منجھی ہوئی آواز۔ ٹویڈ کا کوٹ پہنے منہ میں سگریٹ دبائے۔ ساتھ ایلسیشین کتا۔ وہ ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوتا۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھا کام کررہا تھا چپڑاسی نے آکر کہا کہ منٹو صاحب بلا رہے ہیں۔ میرے پاس منٹو کے نوٹوں کا پرس تھا جو اس نے پہلی رات مجھے سنبھالنے کے لئے دیا تھا۔ میں باہر نکلا تو منٹو نے بلند آواز میں کہا’’جگل! میں جارہا ہوں‘‘ اتنے میں مہرا صاحب باہر آئے اور منٹو سے کہنے لگے۔ ’’ٹھہر یار، اکٹھے چلتے ہیں‘‘ منٹو نے لاپرواہی سے کہا’’تم ریس کھیلنے جاؤ گے۔ مجھے ریس کا کوئی شوق نہیں۔ بور۔ میں چلا۔‘‘
میں نے منٹو کو اس کا پرس واپس کیا۔ اس نے روپے نہ گنے۔صرف بمبئی کے ٹکٹ دیکھے۔ مجھے کہا۔ آج شام میں واپس جارہا ہوں شام کو میں ریلوے سٹیشن پر پہنچا۔ فرنیٹرمیل میں اس کی دو سیٹیں ریزرو تھیں۔ صفیہ اس کے ساتھ تھی۔ اس نے سوٹ کیس او رلاہور سے خریدی ہوئی چیزوں کے بنڈل سیٹوں کے نیچے رکھ دئیے۔
ہم دونوں پلیٹ فارم پر کھڑے ہوگئے۔ منٹو کہنے لگا۔’’چوہدری اب تک نہیں آیا۔ سگنل ڈاؤن ہوگیا۔ اوروہ معلوم نہیں کہاں ہے۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر بولا۔ اس گدھے کو وقت کا کوئی اندازہ نہیں۔ گاؤں سے نکالا تو سیدھا لاہور۔ ارائیں کا آرائیں رہا۔ اب تک نہیں آیا۔ میں نے بڑی غلطی کی کہ سارے کپڑے دھلنے کے لئے دے دئیے۔ چھ شلواریں چھ قمیضیں، اچکن۔۔۔ وہ الوکا پٹھا اب تک نہیں آیا۔
وارڈن نے سیٹی بجائی۔ منٹو بڑبڑایا۔ اس گدھے کا کچھ پتہ نہیں اتنے میں چوہدری نذیر کپڑوں کا بنڈل اٹھائے سانس پھولے ہوئے آگیا۔’’بہت مشکل سے پہنچاہوں۔ پاس کھڑے ہو کر کپڑے استری کروائے ہیں۔‘‘
منٹو نے غصے سے گھورا۔ گاڑی چلنے والی ہے اورتم اب آرہے ہو؟‘‘
چوہدری نے جلدی سے کپڑے گاڑی میں رکھے۔ نیچے اتراتوگاڑی چل دی۔ جب گاڑی پلیٹ فارم سے چل پڑی تو وہ پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا’’بڑا حکم چلاتا ہے جیسے میں اس کے باپ کا نوکر ہوں۔‘‘
ہم دونوں آہستہ آہستہ چلنے لگے۔
وہ بولا’’ اپنے آپ کو نوابزادہ سمجھتا ہے۔ میرے روپے لے کر میرے اوپر ہی دھونس۔ یہاں آیا تو میں نے اس کو ناول لکھنے کے لئے دو ہزار کی رقم ایڈوانس دی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار میرے سامنے لٹادئیے۔ ہر جگہ بل ادا کرنے کے لئے آگے۔ آخر روپیہ آتا تو ہمارے پاس سے ہے۔‘‘
وہ بڑبڑاتا رہا۔ جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو وہ بولا’’بلونت! میں اس آدمی کے نخرے برداشت کرتا ہوں۔ میرے پاس بڑے بڑے جج، پروفیسر اور ڈائریکٹر آتے ہیں کہ میں ان کی کوئی کتاب شائع کردوں۔ میں نہیں شائع کرتا۔ وہی چیز شائع کرتا ہوں جس کو چھان بین کے بعد شائع کرنے کے قابل سمجھوں۔ مگر منٹو کہانی کا خدا ہے۔ کسی وقت شاید میرا نام صرف اس لئے زندہ رہ جائے کہ میں منٹو کے کپڑوں کا بنڈل اٹھا کر اس کو ریل گاڑی پر سوار کرانے آیا تھا یہ اور قسم کا مصنف ہے۔‘‘
اس کے بعد چوہدری مکتبہ اردو چلا گیا۔
اس بار منٹو اچانک لاہور آیا۔ وہ’’مکتبہ اردو‘‘ میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے براجمان تھا۔ اس نے ریشمی کرتا، لٹھے کی تنگ پائنچوں والی شلوار اور تلے والا جوتا پہن رکھا تھا۔
فکر تو نسوی مکتبہ اردو کے پچھلے کمرے میں بیٹھا کتابوں کے پروف پڑھتا۔ اس نے کہا منٹو صاحب! آپ نے اس دفعہ آنے کی خبر تک نہیں کی؟
منٹو نے پیر کی ایڑی مارتے ہوئے کہا’’بمبئی میں نرگس سٹوڈیو میں آئی تو اس نے سفید ساڑھی او رتلے والی جوتی پہنی ہوئی تھی۔ کرسی پر بیٹھی وہ اسی طرح ایڑی ماررہی تھی۔ اس کو کیا معلوم کہ ساڑھی کے ساتھ تلے والی جوتی نہیں پہنی جاتی۔ مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ میں نے یہاں آکر کرتا اور شلوار سلوائی او رجوتا خریدا۔ اب جاکے اس سے کہوں گا۔ دیکھو تلے والی جوتی اس طرح پہنتے ہیں۔‘‘
اس کے مزاج میں اس قسم کا شاہی ٹھاٹھ بھی تھا۔
منٹو جہاں رہا۔ اس نے وہاں کے ماحول میں ڈوب کر کہانیاں لکھیں۔ بمبئی کے ناگ پاڑا پولیس اسٹیشن، طوائفوں کے پارس روڈ او رفلم سٹوڈیوز کی جان پہچان مجھے لاہو ربیٹھے ہوگئی تھی۔ ’’کالی شلوار‘‘ کی طوائف سلطانہ دلی کے اجمیرگیٹ کے باہر جی ٹی روڈ پر اک بالا خانہ پررہتی تھی۔ سامنے ریلوے کا یارڈ۔ جہاں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اب بھی وہاں رنڈی خانوں کی قطار ہے او رمنٹو کا بیان کردہ سین اور طوائف کے من کی سمت اسی طرح ہے وہ لکھتا ہے۔
’’دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی، جن کی نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں۔ اس لمبے او رکھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیوں کی ٹھک ٹھک پھک پھک گونجتی رہتی۔۔۔ کبھی کبھی جب وہ کسی گاڑی کے ڈبے کو جسے انجن نے دھکیل کر چھوڑدیا، پٹڑیوں پر اکیلا چلتے دیکھتی تو اس کو اپنا خیال آتا۔ وہ بھی سوچتی کہ اس کو بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکادے کر چھوڑدیاہے۔ او روہ خود چلی جارہی ہے۔ نہ معلوم مقام پر۔ پھر ایک دن ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا وہ کسی جگہ رک جائے گی کسی ایسے مقام پر جہاں پہلے کبھی نہ ٹھہری ہو ان دیکھی۔
کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ خیال آتا کہ یہ سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جو جال بچھا ہوا ہے۔ جہاں جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ ایک بہت بڑا بازار حسن ہے۔ بہت سی گاڑیاں جن کو بڑے بڑے انجن ادھر اُدھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو کئی بار یہ انجن سیٹھوں کی طرح لگتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے بالا خانہ پر آیا کرتے تھے۔
منٹو کی اوپر والی سطریں اردو ادب میں کلائمکس بن گئی ہیں اس بیان میں زندگی کے نازو انداز کے اشارے، اداسی کے ماحول میں چلتی ھناؤں کا روحانی قوتوں سے ملاپ ہے۔
جب دیس کی تقسیم کے بعد منٹو لاہور چلا گیا تو اس نے پاکستان اور فسادات کے متعلق لکھا۔ وہ کڑوے سچ کا زہرپینے سے کبھی نہ جھجکتا۔ وہ کبھی جذباتی رعایت نہ کرتا۔ کسی دوست نے پوچھا۔ ’’تم کس حد تک مسلمان ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا’’جب اسلامیہ کالج اور ڈی ای کالج کے درمیان فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا جب اسلامیہ کالج گول کرتا تو میرا دل اچھل پڑتا میں بس اتنا ہی مسلمان ہوں۔‘‘
فٹ بال میچ کی بات اس نے شاید اس لئے کی تھی کہ کئی ہندو ادیب ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کررہے تھے۔ مگر اندر سے کٹڑہندو تھے۔ کھل کر یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ منٹو نے اس جذبے کے متعلق لکھا کہ جو ہمارے تحت الشعور میں لرزتا ہے اور جس پر ہمارا شعوری طو رپر کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں ایک گہرے سچ کے سامنے کھڑا کردیتا ہے۔
موت کے متعلق اس کا عجب رد عمل تھا اس نے کہا کہ ایک آدمی کی موت ٹریجڈی ہے، ایک لاکھ انسان مرجائیں تو یہ قدرت کا بہت بڑا مذاق ہے۔
اس نے پنجاب کی تقسیم، قتل وغارت، زنابالجبر کے دل خراش واقعات پر کہانیاں تخلیق کیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ،’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’ کھول دو‘‘ کی عظمتوں سے سب واقف ہیں۔ اس نے’’سیاہ حاشیے‘‘ میں فرقہ وارانہ فسادات کی درندگی کا ذکر کیا ہے۔
یہ سیاہ لطیفے ہیں، چھوٹی چھوٹی کہانیاں جن میں لقمان کی کہانیاں اور پانچ تنتر جیسی تیکھی او رالٹی ذہانت ہے۔ اس نے غنڈہ گردی، قتل او رانسانی بے وقوفیوں کا مذاق اڑایا ہے اس قسم کے سیاہ مذاق بھارتی ادب میں پہلی بار تخلیق ہوئے۔
اس کے کئی برس بعد یورپ میں ہیومریا سیاہ مذاق کو فلموں میں فلینی اور ادب میں فاکرنے پیش کیا۔ منٹو ان سے پہلے بین الاقوامی ادب کی شاہراہ پر گامزن تھا۔ کئی بار منٹو کے کرداروں کے نام اصل ہوتے۔ یہ کردار اتنے دلچسپ اور نرالے ہیں کہ ان کی حقیقت اور افسانوی روپ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
’’بابو گوپی ناتھ‘‘ میں عبدالرحیم سینڈوبہت مکار کردار ہے اور اس کی لفاظی بھی اوٹ پٹانگ ہے۔ وہ فلموں میں بطور ایکسٹرا کام کرتا تھا۔ آج بھی بمبئی کے فلم سٹوڈیو میں آپ عبدالرحیم سینڈوکو پہچان سکتے ہیں۔ وہ بات چیت میں ایسی بے ایمانی او ربے ڈھنگے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ جس کے اثرات دھماکے سے کم نہیں مثال کے طور پر بابو گوپی ناتھ منٹو کی پہچان کراتے ہوئے لکھتا ہے۔ منٹو صاحب انڈیا کے رائٹر نمبر ون ہیں۔ کہانیوں میں ایسا تسلسل ملاتے ہیں کہ بڑوں بڑوں کا دھڑن تختہ ہوجاتا ہے۔ کیوں منٹو صاحب ہے نہ اینٹی کی ینیٹی پو؟‘‘
یہ الفاظ کسی زبان کے نہیں۔ جب منٹو نے ان کا استعمال کیا تو یہ نئی ایجاد کی طرح چمکنے لگے ۔ اور اردو ادب کا حصہ بن گئے۔
’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں بھی وہ اسی قسم کے جادو کو تحت الشعور میں اس طرح اجاگر کرتا ہے۔ پاگل خانے میں ہندو، سکھ اور مسلمان پاگل بند کئے ہوئے ہیں۔ دیس کی تقسیم کے بعد ان کو بھی باقی چیزوں کی طرح ڈھونڈاجارہا ہے ایک پاگل سکھ عجب بے تکی باتیں کرتا ہے۔ وہ حیران ہے کہ وہ ہندوستان میں تھا مگر پاکستان کیسے چلا گیا۔ اور یہ پاکستان کہاں سے آگیا؟ اس کا گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں گیا؟ اور اب اس نے کہا جانا ہے؟ وہ باربار مکالمے الاپتا ہے۔’’اوہ گڈگڈدی، لالٹین دی،دال دی، ہندوستان دی، تیری ماں دی۔۔۔‘‘ یہ الفاظ اس کی اندرونی نفرت کا اظہار ہیں۔
ایک دفعہ منٹو بمبئی کی الیکٹرک ٹرین میں بیٹھا فلمستان جارہا تھا۔ کہ راستے میں اس نے اخبار میں ایک نام پڑھا جس کے الٹے سیدھے لہجے تھے جو شاید برکت اللہ یا حنیف اللہ لکھا ہوگا۔ مگر شائع’’ہپ ٹلا‘‘ ہوا تھا۔ اس نے دو چار مرتبہ منہ میں یہ لفظ دہرایا۔ اس کو یہ اچھا لگا۔ سٹوڈیو جاکے فلم ڈائریکٹر سے کسی کہانی پر بحث ہوئی تو منٹو نے اس کی رائے دریافت کی گئی۔ منٹو نے کہا’’ٹھیک ہے مگر یہ کہانی ہپ ٹلا نہیں۔‘‘ اشوک کمار نے ہاں میں ہاں ملائی او رکہا’’کہانی ہوتو ہپ ٹلا ہونی چاہئے‘‘ الفاظ کوئی معانی نہیں رکھتے۔ مکرجی کو بات سمجھ آگئی۔ کہ کہانی اچھی نہیں، اس کے بعد فلمی دنیا میں کہانی کی بنتر آپ بیتی او رسچوایشن کے لئے’’ہپ ٹلا‘‘ لفظ جاری ہوگیا۔
اگست1947ء میں جب قتل وغارت کا بازار گرم تھا تو جگہ جگہ فسادات بر پا تھے میں لاہور سے ایک قمیض پتلون سمیت بٹھنڈہ آگیا۔ معلوم ہوا کہ وہ آخری گاڑی تھی جو صحیح سلامت ستلج کا پل عبور کرکے آئی تھی۔ بٹھنڈہ پہنچا تو یہاں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔ میں اس خونی ماحول میں رہنا نہیں چاہتا تھا۔ جہاں میرے بچپن کے دوست فضل مراثی اور اس کی بہن قتل ہوگئے تھے۔
دلی آیا تو یہاں بھی خون خرابہ، ایک ماہ یہاں رہ کر بے کاری اور غیر یقینی کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ بمبئی چلا جاؤں۔ میں نے ٹکٹ خریدا او رپنجاب میل میں سوار ہوکر بمبئی چلا گیا۔ مجھے مُلک راج آنند کا پتہ یاد تھا۔ میں نے اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس اور بستر وکٹوریہ بگھی میں رکھا او رکوچوان کو کف پیرڈ چلنے کے لئے کہا۔ جہاں ملک راج آنند رہتا تھا اس نے بڑے خلوص سے مجھے اپنے پاس ٹھہرایا۔
یہاں ادبی وثقافتی محفلیں جمتی تھیں۔ کرشن چندر، علی سردار جعفری اور بمبئی کے پینٹر او رڈانسر اور ترقی پسند سوچ کے حامل ادیب وشاعر آتے او رامن وامان کی باتیں کرتے۔ شام ہوتے ہی فضا میں پوشیدہ خوف لرزنے لگ جاتا۔ پاکستان بننے کے بعد مسلمان جارہے تھے۔ اکادکارہ گئے تھے۔
میں نے منٹو کو فون کیا وہ بولا’’تم کب آئے؟‘‘ میں نے اسے اپنے متعلق بتایا او رکہا کہ میں اس کو ملنا چاہتا ہوں۔ وہ بولا’’آج شام کو گھر آجائیں جانتے ہو نامیرا گھر؟۔ بائیکلا میں، کلیرروڈ پر۔‘‘ اس نے اپنے گھر کا نمبر اور پہچان بتائی۔
شام کے وقت کرشن چندر اور کچھ دوست ملنے آگئے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ اندھیرا ہو گیا۔ جب میں نے کہا کہ مجھے منٹو سے ملنے جانا ہے تو سب نے کہا’’تم یہاں کے راستوں سے واقف نہیں۔ رات ہوچکی ہے۔ خطرہ ہے کل چلے جانا‘‘ مجھے خوف بھی آتا تھا میں نہ گیا۔
دوسرے دن منٹو کو ٹیلی فون کیا تو وہ بلند اور گرم لہجے میں بولے’’اوئے! کل شام میں تیرا انتظار کرتا رہا۔ تو آیا کیوں نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا کرشن چندر آگیا تھا۔ ملک راج آنند بھی تھا۔ باتیں کرتے دیر ہو گئی۔ میں آنہیں سکا۔’’وہ اسی لہجے میں بولے، اوئے کون ہوتا ہے مُلک راج آنند؟ کون ہوتا ہے کرشن چندر؟ تجھے معلوم نہیں کہ یہاں منٹو تیرا انتظار کررہا ہے؟‘‘ میں معافی کا طلبگار ہوا او رشام کو آنے کا وعدہ کیا۔ وہ بولا۔ کھانا میرے ساتھ کھانا او ریہیں سوجانا۔ سارا گھر خالی ہے۔ صفیہ لاہور چلی گئی ہے۔ میں بھی چلاجاؤں گا۔‘‘
شام کو جب میں کلیر روڑ پر پہنچا تو لائٹیں جل رہی تھیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر اس کے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ خود بلنداور گرم لہجے سے بولا’’کون ہے؟‘‘ میں نے اپنا نام بتایا۔ تھوڑی دیر کے بعد باورچی نے دروازہ کھولا اور میں اندر داخل ہوگیا۔منٹو لکڑی کی کرسی پر پنجوں کے بل بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ شراب کی بوتل میز پر پڑی تھی۔ وہ بولا صفیہ کو خط لکھ رہا ہوں۔ بس دو الفاظ مزید۔۔۔ تم اوپر بیٹھو۔‘‘ وہ اسی پوز میں تختی گھٹنوں پر رکھے لکھتا رہا۔ خط ختم کرکے بولا۔ اچھا ہوا تم آگئے۔ میں اکیلا تھا۔ تنہائی سے مجھے بڑی وحشت ہوتی ہے شراب پؤگے۔
میں نہ کہا نہیں۔۔۔اس نے شراب گلاس میں انڈیلی۔ ایک گھونٹ لیا او رکہنے لگا میرے باورچی نے مرغا بھنا ہے۔ اب تم گوشت کھانے لگ گئے ہونا؟‘‘
’’ہاں‘‘۔۔۔
’’خط سناؤں؟‘‘۔۔۔ صفیہ کا لاہور سے خط آیا تھا۔ لکھتی ہے کہ یہاں لکشمی نواس میں بہت اچھا فلیٹ مل گیا ہے۔ اعلیٰ فرنیچر۔۔۔ ریفریجریٹر۔۔۔ بہت کچھ ہے۔۔۔ عورت! اوسالی توکس پہ خوش ہے؟ منٹو تو یہاں بیٹھا ہے۔ میرے بغیر اس ریفریجریٹر کا کیا مطلب۔۔۔بکواس۔۔۔ میں جل بھن کے کباب ہوگیا ہوں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنا خط سنایا۔ اس خط میں اس کی اپنی ویرانگی کا ذکر تھا۔ باورچی کا، بمبئی کے حالات کا، دوستوں او راپنے اکلاپے کا او رلکشمی نواس کے ریفریجریٹر کو گالیاں! وہ اس بات کی شکایت کررہا تھا کہ وہ بمبئی کی دنیا چھوڑ کر، فلم کی یہ زندگی اور دوستوں کی محبت کو پس پشت ڈال کر لاہور جارہا ہے۔ صفیہ اوراپنی بچی کی خاطر اور وہ گن گارہی تھی۔ ریفریجریٹر کے! اس خط میں ایک خاوند او رباپ کا جذبہ کار فرما تھا۔ اور اس اداسی کا ذکر تھا جو ایک اجڑے ہوئے گھر میں ہوتی ہے۔۔۔ اس کا اپنا فلیٹ اسی اکلاپے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بیوی او ربیٹی پاکستان میں اور وہ بمبئی میں۔۔۔
اس نے ایک گلاس مزید بھرا اور اس کی آنکھیں اور دماغ مزید تیز ہوگیا۔۔۔وہ بولا میرے دوست پوچھتے ہیں کہ میں پاکستان کیوں جارہا ہوں۔۔۔ میں ڈرپوک ہوں؟ پاکستانی ہوں؟ مسلمان ہوں؟ مگر وہ میرے دل کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں پاکستان جارہا ہوں کیونکہ وہاں ایک منٹو کی ضرورت ہے جو وہاں کی سیاسی حرام زدگیوں کا پردہ فاش کرسکے۔ ہندوستان میں اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ ابھی سے ہندی چھارہی ہے۔۔۔ میں لکھنا چاہتا ہوں مگر صرف اردو میں لکھ سکتا ہوں۔ شائع ہونا چاہتا ہوں تاکہ ہزاروں تک پہنچ سکوں۔۔۔ زبان کی اپنی منطق ہوتی ہے۔۔۔ کئی بار زبان خیالات بھی بخشتی ہے۔ اس کا تعلق خون سے ہے۔۔۔ ایک منٹو بمبئی میں رہا۔ دوسرا لاہور میں رہے گا۔۔۔‘‘
رات کو دیر تک وہ باتیں کرتا رہا۔ میں اسی کمرے میں سویا۔ دوسرے دن میں منٹو کے پاس رہا۔ ایک ہفتے کے بعد میں آگیا۔ پھر معلوم ہوا کہ منٹو لاہور چلا گیا ہے۔
لاہور جاکر اس نے بے شمار کہانیاں لکھیں۔ اس نے حکومت سے ٹکرلی۔ مولویوں اورملاؤں کا مذاق اڑایا، فرقہ پرستوں کے خلاف لکھا اور امریکہ کے چاچاسام کے نام خطوط لکھے جن میں اس اندھیر نگری پر طنز کی۔ وہ نڈر اور باغی طبیعت کا مالک تھا اور سماج کے جھوٹ کے دوغلے پن کوننگا کرنے کا ماہر۔ وہ دنیا کا چیلنج قبول کرسکتا تھا مگر دولت کا حملہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
پاکستان میں1950ء میں ترقی پسند ادیبوں نے اس کو پیچھے دھکیلنے کے لئے فحش گوئی کا الزام لگاکرایک سرکلر جاری کیا۔ کہ منٹو کی کہانی کسی رسالہ میں شائع نہ کی جائے۔ سرکلر دلی بھی آیا۔ سب سے دکھ کی بات یہ تھی کہ منٹو کا جگری او رپیارا دوست احمد ندیم قاسمی اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا۔
منٹو پر اس بات کا گہرا اثر ہوا۔ وہ اپنی دنیا میں بے گانہ ہوگیا۔ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہوا تو اس میں اس نے سلسلہ وار تاریخیں بھی تحریر کیں۔ اس کے دیباچے میں اس نے لکھا’’داد اس بات کی چاہتا ہوں کہ میرے دماغ نے پیٹ میں داخل ہوکر کیا کرامت دکھائی۔‘‘
وہ بے حددبلاپتلا ہوگیا۔ شراب کے بغیر کوئی چیز ہضم نہ ہوتی تھی۔ عجب جنون کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کو علاج کے لئے پاگل خانے لے جایا گیا۔ ایام پاگل خانے میں بھی اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی آنچ نہ آئی۔ وہ لگاتارلکھتا رہا۔ اس کی کہانی’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پاگل خانے کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔ کہانی بٹی ہوئی انسانیت کے متعلق دنیائے ادب میں ایک شاہکار ہے۔ منٹو کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک بڑا افسانہ نگار ہے۔ اس نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود ہی لکھ دیا تھا۔
’’یہاں منٹو دفن ہے افسانہ لکھنے کا فن اس کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔‘‘
یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی!*