(ترتیب: سلمان آصف)
بمبٔی؛ ٩اگست ٨١
“انتظار حسین نے یہ ہجرت کا ریکٹ چلا رکھا ہے– اس کو cash کرتے، کرتے اور اس پر thrive کرتے، کرتے وہ ‘عہد ساز،‘ ‘تاریخ ساز‘ اور ‘عظیم افسانہ نگار‘ بن گئے–
بھائی، یہ کیا قصّہ ہے کہ تم جیسے صاحب نظر معقول لوگ بھی یہ سمجھنے پر تلے رہتے ہیں کہ افسانہ نگار جو لکھتا ہے خود نوشت، داستان حیات ہوتی ہے–
تخئیل نام کی کوئی چیز نہیں!
ہر افسانے میں تم بھی کھینچ تان کرautobiography تلاش کر لیتے ہو– ‘فوٹوگرافر‘ میں بھی تم کو یہ خاکسار جلوہ افروز نظر آئی– افسوس یہ بڑی مایوس کر دینے والی بات ہے–
ارے بھائی، یہ تو ایک commonplace معمولی سا واقعہ ہے – ایک ڈانسر بیس سال بعد اس جگہ واپس آئی جہاں جوانی میں اپنے دوست کے ساتھ آئی تھی– میرے ہندوستان آنے سے (اس کا) کیا تعلق ہے؟
غنیمت ہے کہ تم نے مجھے ‘فوٹوگرافر‘ کی رقاصہ سے ہی مماثل کیا–
تین، چار سال قبل میرا ناولٹ ‘اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ چھپا تھا، لکھنؤ کی ایک خستہ حال، لاوارث خانگی (پردہ نشین طوائف) کی کہانی جو اپنی لڑکی کے باپ کی تلاش میں کراچی چلی جاتی ہے– چند سال مصیبتیں اٹھا کر(اس کی لڑکی وہاں کال گرل بن جاتی ہے اور پھر ماری جاتی ہے) وہ طوائف ‘رشک قمر،‘ ہندوستان واپس آتی ہے– بے حد تباہ حال اور ستم رسیدہ– چکن کاڑھ کر اپنی گزر بسر میں مصروف ہوتی ہے–
یہ ناولٹ پڑھ کر ایک بہت پڑھے لکھے قاری نے مجھ سے نہایت سنجیدگی سے کہا، یہ آپ کی autobiographical کہانی ہے؟
میرا خیال ہے کہ مجھے ہر افسانے اور ہر ناول کی anatomy بھی ایک مضمون میں لکھنا چاہیے–
دوسری بات ‘جلاوطن‘ کے سلسلے میں جو تم نے لکھا ہے:
‘In any case, most of her great work was produced while she was living in Pakistan and was its citizen.’
یہ بھی محل نظر ہے! اور اس میں تمہاری حب الوطنی نے بھی کچھ جوش مارا ہے– یہ تو میں نہیں کہوں گی کہ میں نے کہیں بھی اور کبھی بھی great work پروڈیوس کیا ہے، مگر کیا میں نے یہاں (ہندوستان) آنے کے بعد محض گھاس کھودی ہے؟ کوئی معقول چیز نہیں لکھی؟ از برائے خدا مجھے تم اس پاکستانی ہندوستانی قضیے اور چکر میں نہ گھسیٹو– ممنون ہوں گی“