سوسن جارج
میں ایک ایسی بات بتانے کی کوشش کر رہا ہوں جو حقیقت میں کارگو (چیزوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی) کا راز ہے۔ مقامی لوگوں کو کئی دفعہ اس راز کو حل کرنے اور غربت کی وجہ معلوم کرنے کے لئے کہا گیا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان کے خیال میں ۔۔۔ امیر لوگوں کو ۔۔۔ اپنی زمین کو دوبارہ تقسیم کرنا چاہیے۔ مقامی لوگوں کے نزدیک کنجوس آدمی سے زیادہ کوئی بھی بُری شے نہیں ہے۔۔۔ان امیر لوگوں کو دولت اور محنت کی اجرت کے بارے میں اعتدال پسند ہنانے کے لے مقامی لوگوں نے زبان سیکھنے اور ان کے راز جاننے کی سر توڑ کوشش کی۔۔۔
انھوں نے یورپیوں کی طرح سچّے بڑے آدمی بننے پر اصرار کیا۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ لوگ جن کے پاس دولت ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ دوسروں میں تقسیم کریں۔ جتنا زیادہ (نیو گنی کا تجار) یالی سیکھتا کہ یورپی دولت کیسے پیدا کرتے ہیں اتنا ہی کم وہ ان کی وضاحتیں اور دلائل ماننے کے لئے تیار تھا کہ کیوں وہ اور ان کے لوگ اس میں حصّہ دار نہیں بن سکتے۔۔۔ تاہم یالی کے پاس ہمیشہ یورپیوں کی معیاری وضاحتوں کو رد کرنے کی اچھی سمجھ بوجھ تھی۔
یالی ایک سچّا ، روایتی اور رئیس وحشی انسان ہے۔ وہ ابھی تک کارگو راز کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ چیزیں ایک ملک سے دوسرے ملک میں کیسے منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اس راز کو سمجھنا ہے کہ کچھ لوگ کیوں بے تحاشا امیر ہوتے ہیں جن کے پاس موٹر سائیکلیں، گوشت سے بھرے ہوئے ٹین، گھڑیاں، چاولوں کے توڑے اور سٹیل کے بنے ہوئے اوزار ہوتے ہیں جب کہ اس کے قبیلے کے لوگ ان سے محروم ہیں۔
وہ قائل ہے کہ ایک دن اس کے آباؤ اجداد جیٹ جہازوں پر سے اتریں گے اور ان کے لئے سب ضروری چیزوں کو اتار دیں گے۔ یہ سب کچھ اتنا زیادہ ہو گا کہ اس زمین پر جنت کا سا سماں ہو گا۔ پھر کسی کو کسی مزید چیز کی ضرورت نہ ہو گی۔ اس اثناء میں یالی نے کارگو راز کو سمجھنے کی سر توڑ کوشش کی۔
پچھلی گرمیوں میں ہماری ان سے واشنگٹن ڈی سی میں ملاقا ت ہوئی۔ اس نے اچھی قسم کی شرٹ ،سرخ پائجامہ اور خوبصورت زیورات پہنے ہوئے تھے۔ جب ہم نے اس سے پوچھا کہ وہ اپنے علاقے سے یہاں کیسے آیا ہے تو اس نے بتایا کہ اس کے قبیلے والے لوگوں نے بھیجا ہے جنھیں خود بھی کار گو راز کو سمجھنے کا بہت شو ق ہے۔ انھوں نے خود ہی اس دورے کی رقم اکٹھی کی ہے۔ ہمیں فوری طور پر یہ احساس ہوا کہ اس کا مقصد بھی ہمارے مقصد سے ملتا جلتا ہے اس لئے ہمیں مل کر تحقیق کرنی چاہیے۔
یالی کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ اس نے یہ زبان مشن سکول میں حاصل کی تھی۔ اس دور میں اس کا خیال تھا کہ مشنریوں کے پاس کار گو کے راز ہیں۔ بعد میں اس نے اپنی انگریزی کی مہارتوں کو آسٹریلیا میں درست کیا۔ اس کی سب سے زیادہ قیمتی ملکیت ریڈیو تھا۔ ممکن ہے کہ یہی اس کی واشنگٹن آنے کی وجہ ہو۔
اس نے ہمیں بتایا کہ ریڈیو کے لوگ بہت انوکھے ہوتے ہیں۔ وہ انسان کی سب سے اہم زندگی کے پہلوووں کے بارے میں بات ہی نہیں کرتے۔ خاندان ، اسلاف، گوشت اور ترکاری یا حقیقت میں کارگو کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔۔۔ جب وہ جنگوں یا موسموں کے بارے میں تبصرہ نہ کر رہے ہوں تو وہ رقم مہنگی اور ان جگہوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جہاں یہ دولت رکھی جاتی ہے کچھ اسے سٹاک مارکیٹ کہتے ہیں اور کچھ اسے ورلڈ بنک کہتے ہیں۔
ان باتوں کو بار بار سننے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ وہی جگہیں ہیں جن پر کارگو رکھا جاتا ہے۔ ایک دن اس نے ورلڈ بنک کے بارے میں سنا۔ اس نے سوچا اپنے نام کی طرح اس کو دنیا میں سب سے امیر ترین بنک ہونا چاہیے۔ یالی نے جلد ہی فیصلہ کیا کہ اسے ادھر اُدھر جانے کی بجائے اس بنک کے پاس راز معلوم کرنے کے لئے جانا چاہے۔
اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کئی قبیلے کے بڑے لوگوں کا خیال تھا کہ بنک یہ ضرور جانتا ہو گا کہ کچھ معاشروں کے پاس موٹر سائیکلیں، گھڑیاں اور سٹیل کے اوزار کیوں نہیں ہیں۔۔۔مزید اہم بات یہ ہے کہ ۔۔۔ کیسے کسی کو امیر بننا ہے۔ یالی کو یقین تھا کہ آخر کا ر اس نے بہت سا وقت مشنریوں، سپاہیوں، علم عمرانیا ت کے دانشوروں اور افسر شاہی کے لوگوں کے ساتھ ضائع کرنے کے بعد اپنی آخری منزل تلاش کر لی ہے کہ کارگو کہا جاتا ہے۔
یالی ایک شریف آدمی اور دانشور تھا وہ آسانی سے اپنی بصیرت کو دوسروں کے ساتھ شریک کرنے کے لئے تیار ہو جاتا تھا۔ اسی لئے ہم نے اس سے پوچھا کہ اب تک اس نے کیا سیکھا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کے خیال میں ورلڈ بنک کو چلانے والے بڑے زبردست اور طاقتور لوگ ہیں۔ ان کی ایک بنیادی سی رسم ہے جس پر عمل کرنے سے غریب اور قدیم لوگ آسانی سے جدید اور امیر بن سکتے ہیں۔ یہ رسم سیکھنا بہت مشکل ہے اس سے بہت سے لوگوں کو مشکلات اور درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر کئی سالوں تک محنت اور ریاض کرنا پڑتا ہے۔ تاہم بنک یہ پرچار کرتا ہے کہ جو بھی استقلال کا مالک ہے وہ کارگو ضرور حاصل کر سکتا ہے۔
بنک کارگو کے لئے ’ترقی‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اس رسم پر عمل کرنے کا ایک لمبا راستہ ہے جو کہ ترقی کا راستہ اور گذر گاہ ہے۔ اس رسم کو سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں۔ اب تک میں یہی سمجھا ہوں۔ تاہم ابھی تک میں اس رسم کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا کہ یہ کیسے بنک کے مالکان کے مشن کو کیسے پورا کرتا ہے۔
یالی بالکل درست راستے پر تھا اس لئے ہم نے اسے مشورہ دیا کہ ہمیں اکٹھے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس مشورے کو اس نے خوشی سے قبول کر لیا۔ اس میں ایک سچے محقق کا شوق کا جذبہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا مقصد ظاہری باتوں سے حل نہیں ہو گا بلکہ گہرائی میں جا کر دیکھنا ہو گا۔ وہ اس وقت تک کھوج لگانے میں محو رہتا تھا جب تک کہ اس کی تسلّی نہ ہو جاتی تھی۔ اس نے ہمیں بہت کچھ سکھایا لیکن شروع میں ہمیں اس سے سیکھنے میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات ہمارے لئے اسے سمجھانا کہ بنک کس طرح کام کرتا ہے بہت مشکل بن جاتا ہے۔ بعض اوقات ہم غلط طریقے سے ایسا کرتے اور سمجھتے شاید ایسا مختلف ثقافتوں کی وجہ سے ہو اور اس میں زیادہ قصور ہمارے کلچر کا ہو۔
مثال کے طور پر جب اس نے سٹرکچرل ایڈجسٹ منت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یالی نے ہم سے پوچھا کہ کس چیز کو ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ کسی چیز کو اس وقت ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ خراب ہو۔ اس کا تصور یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے اس کو نیا ور دوبارہ ٹھیک کر کے بنایا جائے۔ جس طرح کسی دروازے کو اس کے فریم کے مطابق ٹھیک ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات خوفناک واقعات پر کائنات میں چیزیں غلط بھی ایڈجسٹ کی جاتی ہیں۔ جس طرح لوگ اپنے اسلاف کی خلاف ورزی کریں تو نتیجے کے طور پر ان کی فصل خراب ہو گی۔ اس لئے ان کو مختلف رسومات اور قربانیوں کے ذریعے اپنے اسلاف کو رضامندی حاصل کرنا پڑے گی۔
ہم نے کہا کہ بالکل ٹھیک بات ہے اس کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے ہم ایک ایسے ملک کو لیتے ہیں جس کو سڑکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔ راہنماؤں نے نافرمانی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے جانور ذیج کر لئے ہوتے ہیں اور اپنے باغوں کی رکھوالی نہیں کی ہوتی۔ انھوں نے اپنے غریبوں کی دولت پارٹیوں اور نیزوں کی بناوٹ پر فضول خرچی کی ہوتی ہے اس میں کچھ لوگوں نے امیر بننے کے لئے عام لوگوں کے سٹور بھی لوٹ لیے ہوتے ہیں۔ پھر اس دولت کو سمندر پا چھپا دیا جاتا ہے۔ وہ اتنا زیادہ ادھار لے چکے ہیں کہ اب مزید ان کو کوئی ادھار دینے کو تیار نہیں ہے۔
لیکن ورلڈ بنک ان بڑے لوگوں سے کئی گنا بڑا ہے۔ اپنی بہن (ا س کا نام آئی ایم ایف ہے اور ہم اس کی وضاحت بعد میں کریں گے) کے ساتھ مل کر ورلڈ بنک نے ان بیوقوف اور بیہودہ راہنماؤں کو کہا ہے کہ وہ ان کو پستی سے نکلنے کے لئے رقم دے گا۔ اس کے تبادلے میں بنک ان سے جو کچھ بھی لے گا وہ سب کچھ ان کو دینا پڑے گا۔ اس وقت سے لے کر مستقبل میں ہمیشہ کے لئے ان کو ویسے ہی کرنا پڑے گا جیسا بنک ان سے کہے گا۔
یالی نے کہا یہ تو ایسے ہی لگتا ہے جیسے ہمارے اپنے دیس میں ہوتا ہے ۔ بڑا آدمی حکم دیتا ہے دوسرے حکم مانتے ہیں تاکہ اس کی حمایت حاصل کر سکیں اور ان کو دعوتوں پر بلایا جائے۔ لیکن یہ کونسے احکامات ہیں جو بنک کے بڑے آدمی دیتے ہیں اور قبائلی علاقوں کے راہنماؤن کو ماننا پڑتے ہیں۔
ہم نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایک بات اور بھی ہے کہ اس ملک کو ہمیشہ اپنی کرنسی کو سستا رکھنا پڑتا ہے۔ یالی نے ہماری طرف آنکھیں چھپکتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ دیکھو نہ ایک ڈالر میں کتنے روپے خریدے جا سکتے ہیں۔ آپ کے ملک میں ایک ڈالر کے مقابلے میں ہم کتنے روپے خرید سکتے ہیں۔
یالی نے جواب دیا کہ پنتالیس
اب آپ کے بڑے آدمی بنک کا حکم مانیں تو بنک کے لوگ آپ سے ایک ڈالر کے عوض پنتالیس روپے خرید سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی نسبت آپ کے ملک سے چالیس گنا زیادہ گندم، جام، اور جانور خرید سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں کوئی خاص محنت بھی نہیں کرنا پڑے گی۔
یالی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ کہ مجھے تو آپ کے ڈالر نہیں چاہیے؟ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ تو بڑا احمقانہ سودا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کو حکم بھی ماننا پڑے گا اور جو کچھ لیا ہے وہ تمام وآپس بھی کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف جن لوگوں سے آپ کو ئی چیز خریدو گے وہ آپ سے روپے کی بجائے ڈالر لیں گے ان کو ڈالر چاہیے۔ اگر ہمارے پاس ڈالر ہیں تو ہم جتنی چاہیں چیزیں آپ سے سستی خرید سکتے ہیں خواہ آپ کو پسند ہو یا نہ ہو ۔ اس لئے کہ آپ بنک کے لوگوں کو ناراض نہیں کر سکتے۔
اسے ’ قدر زر میں کمی یعنی ڈی ویلیویشن کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کرنسی کو۔۔۔ یعنی آپ کے ملک میں راشن اور جانوروں کو۔۔۔سستے سے سستا بنانا تاکہ باہر سے آنے والے زیادہ سے زیادہ خرید سکیں اور پھر آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ ڈالر ہونے چاہیے جو آپ ان کو وآپس دے سکیں۔
یالی نے کہا کہ ’ جو کوئی بھی اپنے قبیلے یا قوم کو اس قسم کی مصیبت میں پھنساتا ہے اس کو قربان گاہ پر جا کر قربانی دینی چاہیے اور اپنی روح کو صاف کرنا چاہیے۔‘
ہم نے ایک اور اصول کی وضاحت کی کہ قبیلے کے لوگوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان کے کام کا درانیہ بھی لمبا ہوتا ہے لیکن اس کا معاوضہ تھوڑا ملتا ہے۔ کیونکہ اگر ان کو زیادہ اجرت ملے گی تو وہ زیادہ راشن او ر جانور اپنے لئے خرید سکیں گے اپنے بچوں اور اپنی بیویوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سٹور کر سکیں گے۔ لہذا اگر قبیلے کے لوگ ہی سب کچھ خرید سکیں گے تو سمندر پار بھیجنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا اور نہ ہی ڈالر خرید سکیں گے۔
بنک کے بڑے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو بہترین چیزوں کو بچا کر رکھنا چاہیے تاکہ سمندر پار کے لوگوں کے لئے بھیجا جا سکے۔ اسے برآمدی بصیرت یعنی ایکسپورٹ اورئینٹڈ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے کرنسی کے سٹاک کو کم سے کم رکھنے کو ڈیمانڈ مینجمنٹ کہتے ہیں۔
یالی نے تشویش ظاہر کرتے ہوے کہا کہ اس طرح تو نہ صرف ہم کارگو حاصل نہیں کر سکیں گے بلکہ جو کچھ ہمارے پاس ہوگی وہ بھی دوسروں کو بھیجنا پڑے گا ان لوگوں کو جو سمندر پار رہتے ہیں۔ اس کے عوض وہ ہمیں ڈالر دیں گے جو ہم اپنے پاس ہی نہیں رکھ سکیں گے بلکہ ان ڈالرز کو وآپس ان کو ہی وآپس بھیجنا پڑے گا۔
ہم نے یالی کی بات کی تصدیق کی کہ آپ ٹھیک سمجھے ہو۔ اس کے علاوہ اور بہت سے اصول بھی ہیں جن کو آپ کو ماننا پڑے گا۔
مثال کے طور پر کوئی بھی فریق اس کا خواہ کوئی بھی قبیلہ ہو وہ اپنے جانور ، ترکاری، پینٹ، چوڑیاں آپ کے ملک میں بیچنا چاہے تو آپ کو اسے ایسا کرنے کی اجازت دینا پڑے گی۔ خواہ آپ کے ملک میں ہزاروں جانور گھوم پھر رہے ہوں۔ آپ کے قائدین ان کو کبھی بھی نہیں روک سکتے۔ اگر آپ کا کاریگر ہاتھ سے چوڑیاں بناتا ہے۔ اچانک ایک دن مشین سے بنی ہوئی چوڑیاں بازار میں وافر مقدار میں آ جاتی ہیں تو ظاہر ہے کہ لوگ ان کو زیادہ خریدیں گے تاہم آپ اس کو روک نہیں سکتے۔
اس طرح ان چوڑیوں کی قیمت گر جائے گی جو بہت بڑی تعداد میں بازار میں موجود ہیں اور برائے فروخت ہیں۔ لیکن بنک کے بڑے آدمی اس سے بڑے خوش ہوتے ہیں۔ جانوروں اور چوڑیوں کے اس بہاؤ کو امپورٹ لبرلائزیشن یعنی برآمدی آزادی کہتے ہیں۔ بنک کے لوگ کہتے ہیں کہ اس سے آپ کے لوگوں میں جانور پیدا کرنے اور ہاتھ سے چوڑیاں بنانے کی صلاحیت بڑھے گی۔ اگر وہ اپنی چیزوں کی فروخت بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کو زیادہ سے زیادہ گاہک بنانے پڑیں گے۔ انھیں اپنے گاہکوں کے لئے ایک دوسرے سے لڑنا پڑے گا۔
ان کو باہر سے جانور پالنے والوں اور کاریگروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا خاص کر ایسے لوگوں کے ساتھ بھی جن کو وہ ابھی تک جانتے تک نہیں اور شاید کبھی مل بھی نہ سکیں۔ اس مقابلہ بازی سے بنک کے مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو اتنا قریب لاؤ کہ وہ کارگو حاصل کر سکیں۔
یالی نے کہا کہ یہ تو غیر مرئی (نظر نہ آنے والے) جنگجووں کا دوسرے قبیلے پر حملہ ہے۔ یہ تو سرا سر نا انصافی ہے۔ آخر کچھ تو اصول ہونے چاہیے۔
ہم نے جواب دیا کہ کچھ اصول ہیں۔ بس آپ کے اصولوں سے فرق ہیں۔ ہم نے ابھی تک آدھے آپ کو بتائے ہیں۔ مزید کچھ یہ ہیں۔ بنک کے بڑے آدمی قبیلے کو بتاتے ہیں کہ اس وقت اپنی خوراک اور جھونپٹروں پر سرمایہ لگانا ضائع کرنے کے برابر ہے جب کہ ان کو راشن مفت دیا جا رہا ہے اور یہ بیماریوں کا علاج بھی کرے گا۔ بنک کو یقین ہے کہ کوئی بھی۔۔۔ حتیٰ کہ اسلاف بھی ۔۔۔مفت علاج کرنا چاہیے یا پورے قبیلے کے لوگوں کو گھر بنا کر دینا چاہیے۔
حقیقت میں اتنے زیادہ اصول ہیں کہ ہم ان کی پیروی نہیں کر سکتے مگر ایک اور بہت اہم اصول ہے کہ ہر کسی کو ہر چیز کا معاوضہ دینا پڑتا ہے حتیٰ کہ خوراک کا بھی قطع نظر کہ وہ کتنا غیریب ہے۔
بنک کے بڑے آدمی جانتے ہیں کہ کئی قببیلوں کے رہنما اپنے قبیلے میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشس کرتے ہیں کہ سب کو کھانے کو کچھ نہ کچھ ملے خواہ وہ بہت ہی غریب کیوں نہ ہو۔ ہو سکتا ہے اس طرح کچھ لوگ بہت ہی سستا راشن حاصل کر لیں مگر اسی طرح وہ بوڑھے لوگ، بچے اور بیمار یا معذور لوگ بھی راشن حاصل کر لیتے ہیں جو کام نہیں کر سکتے ان کی قبیلے کے راہنما خود برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بنک کے بڑے لوگ کہتے ہیں ان کو یہ راشن دینا بند کر دینا چاہیے۔ سب چیزوں کو اور ہر شے کو حتی کہ راشن کی قیمت بھی ’طلب اور رسد‘ کے قانون کے تحت متیعن ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں لوگ زیادہ تر چیزون کو پیدا کر کے سمندر پار ڈالر کمانے کے لئے بھیجتے ہیں اس لئے اپنے ملک میں بہت ہی کم راشن اور کھانے پینے کی چیزیں رہ جاتی ہیں باقی سب کی سب سمندر پار چلی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہر کسی کو مارکیٹ کے مطابق اصلی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اس لئے کچھ غریب اور بے چارے لوگ صحت مند رہنے کے لئے بالکل خوراک نہیں خرید سکتے۔
یالی کا خیال تھا کہ یہ تو سب پاگل پن ہے۔ بڑے لوگوں کا سب سے بڑا نقطہ نطر ان کو یہ یقین دلانا تھا کہ ہر کسی کے پاس سب کجھ ہے خاص کر کافی خوراک ہے۔ بار بار ہم اس خیال کو دہراتے تھے نہ جانے اس کو بیان کرنا کتنا مشکل تھا پھر بھی وہ یہ سمجھ سکا کہ کیا ٹھیک تھا جسے بنک ’قیمتوں کو درست رکھنا‘ کہتا ہے یا منڈی کی سچائی کے لحاظ سے سچائی کہاں تھی۔
یالی نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ سچ وہ ہے جو ہمارے اسلاف نے ہمارے تک منتقل کیا۔ ہمارے پاس بہت سی سچائیاں ہیں یہ سب ایک دوسرے سے جڑتی ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین اور آسمان اور سمندر اور دوسری ساری مخلوق کیسے وجود میں آئی ہم کہاں سے آئے اور ہم یہاں کیوں ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔
اسی طرح ہی بنک ہے۔ اس کی سچائیاں بھی فٹ ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس لمبی گفتگو کے دوران یالی نے بنک کے جھوٹے افسانوں کو سمجھنے میں ہماری بہت مدد کی۔ افسوس ہے کہ یالی خود بھی واشنگٹن سے مایوس لوٹا۔ جب ہماری آخری بار اس سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ کارگو راز نہ سمجھ سکا تھا۔
یہ مضمون
Faith and Credit by Susan George & Fabrizio Sabelli
سے لیا گیا ہے۔ ترجمہ: ارشاد احمد