شاہ عنایت شہید کی جدوجہد ۔۔۔ تیسرا و آخری حصہ

ملک سانول رضا

sah

چنانچہ یوٹوپیائی انقلابیوں میں سے  اس عوامی دراڑ میں سے گزرتا ہوا قرآن خود کو اٹھائے رکھنے والے ہاتھوں کی مرضی کی رفتار سے آگے بڑھتا جاتا ہے۔ دشمن اس کی حفاظت میں کسان افواج کے بیچ میں سے بلا خطر آگے بڑھتے ہیں۔ قرآن دیکھ کر جھوک کے پھاٹک خود بخود کھول دئے جاتے ہیں۔ قرآن جنگ بازوں کے ہاتھوں پر سر عام امن کے قول دیتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔

کسی کو گزند نہ پہنچانے کی ضمانت دیتا ہوا قرآن بغیر چون و چرا بغیر کسی پوچھ گچھ اور بغیر کسی روک رکاوٹ کے شاہ عنایت تک پہنچ جاتا ہے۔ قرآن  بلند ہوتا ہے شاہ عنایت کا سر تعظیم و رضا سے جھک جاتا ہے۔ قرآن اس یوٹوپیائی انقلابی کو اپنا واسطہ دے کر جنگ بندی کی درخواست کرتا ہے۔شاہ عنایت جواب میں جی اچھا کہہ کر جنگ بندی کا حکم دیتا ہے۔ قرآن   شاہ کو مذاکرات کے لئے اپنے محفوظ قلعے سے باہر نکل کر گورنر کے جنگی خیمے تک لے جانے کو کہتا ہے۔ انقلابی قرآن کی ضمانت کو لولاک کی ضمانت گردانتا ہے۔ (یہیں تو وہ دھوکا کھا گیا، یہیں تو اس جیسے بے شمار انقلابی دھوکہ کھاتے رہے)۔
یہ یکم جنوری 1717 کا دن ہے

یہ قرآن بردار وحشی لوگ   انقلابی کو بڑے احترام کے ساتھ اس کے دشمن کمانڈر نواب اعظم خان کے جنگی خیمے میں لاتے ہیں اور جوں ہی انقلابی اس خیمے میں داخل ہوتا ہے تو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ قرآن راہنما کی بجائے اچانک ہتھیار بنا دیا گیا تھا۔ دشمن اس قرآن پرست کو صرف اپنے خیمے تک لانے کے لئے قران کو استعمال کر چکے تھے۔ اب قرآن ہاتھوں سے اتر چکا تھا۔ ہاتھوں کی غلاظت پھر نظر آئی۔ اب ان میں انقلابی کے لئے  ہتھکڑیاں تھیں۔ قرآن کو بنا دیا گیا تھا۔انقلابی گرفتار ہو چکا تھا اور مورخ کے لئے یہ لکھنے کے سوا کچھ نہ بچا کہ قرآن اس بڑی اور طویل جنگ کا فیصلہ کر چکا تھا۔

قرآن کی قسم تو صرف خدا ترس لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ راست باز انسانوں کے لئے ہوتی ہے۔ بے قول بے مراد اور ابلیسی دل و دماغ کے لئے عہد قسم اور قران سب بے کار ….. اوپری طبقہ تو بے قرآن ہوتا ہے۔ اس کا تو نہ خدا ہوتا ہے نہ قرآن۔ اسے صرف مال چاہیے ہوتا ہے. جائیداد ہی اس کا خدا اس کا قرآن ہوتی ہے اور تاریخ کے اندر معصوم کسانوں کاشتکاروں میں سے ہزاروں لاکھوں لوگ قرآن کی قسم پر اعتبار کر کے مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور موت کی نیند سلا دئے گئے۔مثالیں کیا دوں کہ دل دھواں دھواں ہو جاتا ہے!!”۔

مغربی تاریخ دان ہو یا پھر ایسے مورخین جنہیں عوام کے اندر قرآن کے تقدس کی سطح کے بارے میں معلومات نہ ہوں یہ تنقید کر سکتے ہیں کہ شاہ عنایت اس دھوکے میں آیا کیوں کہ جہاں ایک تاریخ ساز اور پوری انقلابی تحریک اس کے اس ایک اقدام سے شکست سے دوچار ہوئی؟۔
یہ تنقید ہماری بھی بن سکتی تھی مگر میں ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ شاہ عنایت کو دھوکہ ہوا ہو گا۔ ایسے جید عالم اور جہاندیدہ راہنما کو کون دھوکا دے سکتا ہے جسے بخوبی معلوم تھا کہ نزول قرآن سے لیکر اس کے اپنے عہد تک قرآن شریف کو بہت بار بطور ہتھیار اس طرح استمعال کیا جا چکا تھا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ شاہ دھوکا کھاتا۔کالی داس کے اس خیال سے ہمیشہ مسلح رہیے کہ جو عاشق اپنی محبوبہ کے دل کی دھڑکنوں کا اندازہ اپنے دل کی دھڑکنوںسے لگاتا ہے وہ حسی  فریب کھاتا ہے۔ اس لئے اس واقعے کو سطحی طور پر نہ دیکھا جائے.۔شاہ کا یہ اقدام قطعاٰ دھوکا کھانے کی وجہ نہ تھا بلکہ لگتا ہے کہ یہ باقاعدہ اس کی حکمت عملی تھی۔
میں اس کے اس اقدام کا کوئی اور جواز دے سکوں یا نہیں مگر وثوق سے کہتا ہوں کہ مزدک کا یہ پیرو کار مزدک کے ساتھ کئے گئے دھوکے سے خوب واقف تھا۔ یسوع مسیح کا یہ مرید حضرت یسوع کے ساتھ کیے گئے دھوکے سے خوب واقف تھا.۔میرا دل اس کے اس اقدام کو حکمت عملی کے زمرے میں شمار کرنا چاہتا ہے. یہ حکمت عملی صحیح تھی یا غلط اس پر البتہ بحث ہو سکتی ہے۔
اس بات کو چھوڑیے کہ آیا شاہ عنایت کی کسان تحریک کی کامیابی کے امکانات موجود تھے؟ اور اگر موجود تھے تو اس کی کیا شکل ہونی تھی۔ آپ بس یہ دلچسپ بات (میری طرح کمزور عقیدہ بنے بغیر) دیکھیے کہ اس واقعے کے بعد ان تین صدیوں میں  پھر کبھی آپ کو سندھ کی سیاست میں کلہوڑا تالپور یا مغل نظر آئے؟ کبھی آپ نے مفتیان ٹھٹھہ کے بارے میں کچھ سنا جن کے فتوے حکمرانوں کے ساتھ تھے۔ کبھی آپ نے  ان پیروں کے بارے میں کچھ سنا جنہوں نے کسان تحریک کے خلاف کام کیا تھا؟

جب کہ فکر شاہ عنایت کی بڑھوتری آپ کو روس سے لیکر چلی تک اور مشرقی جرمنی سے لیکر بنگال تک نظر آئے گی۔ شخصی کامیابی ناکامی کا تو تصور ہی ہیچ بات ہے۔ بس انسانی کارواں کو ناکام نہیں ہونا چاہیے. جھوک تحریک کا فلسفہ سر بلند ہونا چاہیے اور بقول شاہ لطیف   یہی عزم کوہ پیمائی حضرت انسان کو اپنی انسانیت کی اعلیٰ منزل یعنی پیارے پنہوں سے ضرور ملائے گا۔

اور یہ فسطائیت جھوٹ ہے کہ سب کچھ جائز ہے جنگ اور محبت میں…. نہیں صرف جائز جائز ہوتا ہے۔ سب کچھ نہیں    جائز نہیں ہوتا جنگ ہو یا امن ہر جگہ فئیر پلے کی ضرورت ہوتی ہے خواہ حالات کچھ بھی ہوں۔
اور ہاں یہ بات بھی گرہ میں باندھنے کی ہے کہ اگر جھوک کا کارواں جاری ساری ہے تو دشمن کی طرف سے پیروی جت و تالپر و پلیجو بھی جاری ہے۔ہر عہد کی اپنی عیاری ہوتی ہے اور یہ عیاری کاروان جھوک سے برتی جائے گی اور ہم سے ایک بڑی عیاری یہ کی جا رہی ہے کہ معرکہء جھوک کو ہماری نئی نسل سے چھپایا جا رہا ہے۔

کبھی طبقاتی چھوٹا ایماندار بہادر اور جنگی اصولوں کا پابند نہ سمجھیے۔ بالائی طبقہ سے مہذب ہونے کی قول کی پاسداری کرنے کی یا سماج میں موجود کسی بھی عالمگیر اچھی انسانی قدر اور رواج کی توقع کرنا عظیم ترین حماقت ہے۔ ظالم طبقہ کے ہاں کوئی جنیوا کنونشن  کوئی بنیادی انسانی حقوق اور کوئی بین الاقوامی چارٹر نہیں ہوتے۔ یہ سب اس کے کھڑے کردہ آسرے ہیں۔ یہ سب اس کے اصل کرتوت کو چھپانے کے پردے ہیں۔
لہٰذ اب شاہ عنایت جنگی قیدی تھے۔ سب سے بڑا انسان سب سے چھوٹے لوگوں کی حراست میں تھا ان لوگوں کی حراست میں جن پر کسی انسانی اور اخلاقی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ بے قرآن بے رواج بے قانون لوگ…..”

گرفتار شدہ شاہ عنایت کو ٹھٹھہ لے جایا گیا۔ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے نواب اعظم خان اور شاہ عنایت بیچ سوال و جواب کو نقل کیا ہے (کچھ یہاں درج کیے جاتے ہیں)

درباری اور مصاحب شاعر رضا وہاں موجود تھا اس خان کے نوکر ڈیڑھ خان نے آسمان پر تھوکا اور شاہ کو تنبیہ کی

ترجمہ: : بیہودہ حرف نہ کہنا یہاں حساب کا موقع ہے.:

پاگل کس کو تنبیہ کر رہا ہے شاہ عنایت اسے کیا جواب دیتا کہ اس کے دل پر غلامی کے مہر لگے ہوئے تھے۔ اس کے کانوں آنکھوں پر بندگی اور چاپلوسی کے مہر لگے ہوئے تھے۔

شاہ نے فی البدیہہ یوں کہا:

ترجمہ : ؛ نیک نامی کے کوچے میں انہوں نے ہمارے لئے گزر ہی نہ لکھا۔
اگر تمہیں پسند نہیں تو تقدیر بدل ڈال؛

اور تقدیر تو اسکا بڑا بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ جبر ا اختیار والے قانون سے صرف باضمیر لوگ ہی کھیل سکتے ہیں۔ معروض کی غلامی کو انقلابیوں کی جماعت پچھاڑ سکتی ہے۔ حیرت ہے کہ لاؤڈ سپیکر والے کے ہاں ظلم و نا انصافی تقدیر (معروض) ہے مگر اس ظلم و ناانصافی سے ٹکرا جانا تقدیر (معروض) کیوں نہیں۔ نواب کے در بستہ کلونز کلونز کرنے والے کتے کو یہی جوتا کافی تھا جنہوں نے اپنی دانش (خواہ کسی بھی قیمت پہ) بیچ ڈالی ہو انہیں شرمناک بات کہہ کر شرمناک چپ لگ جاتی ہو

حکمران کی سمجھ میں اب بھی نہ آیا کہ کس جارجی دیمتروف سے مخاطب ہے کس  History will absolve me والے سے اس کا پالا پڑا ہے۔

نواب نے کہا:
؛اس وقت جبکہ تم قتل ہو رہے ہو پھر بھی ضد نہیں چھوڑتے؛

تو انقلابیوں کے سردار نے فرمایا:۔
؛وہ شخص کبھی نہیں مر سکتا جس کا دل عشق سے زندہ ہے  ہماری ہمیشگی دنیا کے صفحے پر لکھی ہوئی ہے؛

اب اے اہل نطق و علم کانپ جاؤ غصے سے کہ حاکم الفاظ کا غلط ترین استعمال کر رہا تھا،

قتل ہو رہے ہو 

حق و انصاف کا ایک بھی مقتول بتائیے جو مر گیا ہو۔ موت تو جانوروں کی ہوتی ہے۔جس نے دنیا میں آکر سوائے کھانے پینے اور سونے کے کچھ نہ کیا ہو موت اسے آتی ہے۔شاہ عنایت کے لئے :قتل ہو رہے ہو: والا لفظ ہی اس کی شان میں گستاخی کرنے کے مترادف ہے. شاہ عنایت جیسے خلق خدا پہ عاشق لوگ قتل نہیں ہوتے مرتے نہیں دوام پاتے ہیں۔

بتاؤ اب کیا خواہش ہے:

انقلابی تو خواہشوں لالچوں اور حاجتوں سے بہت بالا ہوتے ہیں. چنانچہ شہید عشق نے یوں جواب دیا۔

ترجمہ
؛میں نے جس وقت عشق کے چشمے سے وضو کیا تھا
اس وقت ہر موجود چیز پر جنازے کی چاروں تکبیریں پڑھی تھیں؛

اس انقلابی کو اب ایک اور امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا. ظلم  < وسعہا > سے بھی آگے بڑھا اور یہ امتحان شاید سب سے مشکل تھا. شاہ کو مسلح دستے کے پہرے میں میدان میں لایا گیا جہاں گورنر اعظم خان , یار محمد کلہوڑا, ملتان کا شہزادہ, اور میر شہداد ٹالپر پہلے سے موجود تھے. گورنر نے حکم دیا کہ شاہ عنایت کو قتل کرنے سے پہلے اس کے بھائی میاں رحمت اللہ اور اس کے نوجوان بیٹے محمد یوسف کو لا کر شاہ عنایت کے سامنے قتل کیا جائے.
اس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مسلح سپاہیوں نے شاہ عنایت کے بھائی اور بھتیجے کو بیچ میدان لا کھڑا کر دیا (ہمارے یاروں نے انقلاب کو ای میلوں کی گپ شپ سمجھ رکھا ہے)”

سوشلزم کے نظریے سے کندن بنے یہ لوگ نہ صرف اپنا اپنا امتحان دے رہے تھے بلکہ وہ تو اجتماع کا جمع کا پورے کمیون کا امتحان دے رہے تھے. اسے دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا. اجتماعی انسانیت کی فلاح کے نظریے کا یا اپنے بھائی بھتیجے کی جان کا. شاہ نے حسب توقع اپنے انسان دوست نظریے کو پیارا جانا. اس سے قبل مولانا روم یہی تو کہہ گیا تھا کہ صرف میٹھی آواز والے پرندوں کو قید کیا جاتا ہے کیا تم نے کبھی الووں کو پنجروں میں رکھے دیکھا ہے. اب رومی نہیں شاہ عنایت تھا

توبہ کرنے معافیاں مانگنے والوں کی اس ماں نے تو جنا ہی نہ تھا. جس کا ایک بیٹا اور ایک پوتا ذنح کر دیے گئے اور دوسرا بیٹا قیدی بنے . یہ سب کچھ دیکھنے پہ مجبور تھا. یہ نوروز خان نہ بے ہوش ہوا نہ اسے ڈرپ لگانے کی حاجت ہوئی. استقامت استقامت استقامت

“7 جنوری 1718 کو [قرآنیوں] نے 63 سالہ شاہ عنایت کا سر قلم کر دیا. (بلوچی میں قرآن پہ لی ہوئی قسم توڑنے والوں کو [قرآنی] کہتے ہیں  یہ بد عہدی کی گویا انتہا ہوتی ہے. اس لفظ سے زیادہ مکروہ لفظ بلوچی زبان میں شاید ہو).

یار! بہادری کی کوئی انتہا ہوتی ہے. موت کے نام سے کانپ کانپ کر زندگیاں گزاری جاتی ہیں اور یہ صاحب تلوار زن کو لیشگی معاوضہ دے رہا ہے. موت اور ملک الموت کی وحشت ذرا ادھر بھی جاتی ناں! حمید بلوچ شہید پھانسی چڑھتے ہوئے بلوچ اور بلوچستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا. جب تھامس مور کو لٹا کر اس کی گردن اڑائی جا رہی تھی تو یک دم اس نے اپنی داڑھی ایک طرف کرتے ہوئے کہا گردن اڑا دو میری داڑھی نے تو کوئی قصور نہیں کیا. “

شاہ عنایت کی شہادت کی خبر ٹھٹھہ سے انقلاب کے ہیڈکواٹر جھوک پہنچی تو   وہاں قہرام مچ گیا. چنانچہ جھوک مکمل قہر بن چکا تھا پوری آبادی غضب ناک ہو گئی.
انقلاب کی مئے ایک بار جب لبوں کو لگ جائے تو پھر ذرا سی پیاس بھی تڑپا دیتی ہے. ان لوگوں نے تو انقلاب کی بالٹیاں پی رکھی تھیں. اب مچھلی بن پانی کے کیا جیے گی ساری آبادی کو زندگی انقلاب بنا کھوکھلی لگی. سب نے جان وار دینے کی ٹھانی.
دشمن جان گیا کہ آخری زندہ کیمونسٹ سے بھی لڑنا پڑے گا. چنانچہ اس نے شہر کو آگ لگا دی. خون , انسانی خون, محنت کش کا خون,   کمیون کا خون, صبح نو کے پیغمبروں کا خون, اجتماعی کاشتکاری کا خون, فیض و برکت کا خون, ………
کہا جاتا ہے کہ اتنے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے کہ کئی دنوں تک انہیں دفنایا جاتا رہا اور سات بڑے کنوئیں کھود کر سب شہیدوں کو ڈال کر انہیں مٹی سے بھر دیا گیا. عوام الناس میں آج تک ان اجتماعی قبروں کو تکریم سے پکارا جاتا ہے  گنج شہیداں.”

طبقاتی جنگ جیسی خونی جنگ نہیں ہو سکتی جھوک کو تباہ کرنے پر قناعت نہ کی گئی بلکہ اس تحریک کی ساری باقیات کو برباد کرنا تھا. چنانچہ منادی کرا دی گئی کہ جو کوئی بھی کسی صوفی کا سر کاٹ کر لائے گا اسے پانچ روپے انعام دیئے جائیں گے……. مگر کب تک مگر کتنے. …. آفاقی نظریات اس طرح تو پکڑائی نہیں دیتے!!
چنانچہ بات نہ بنی تو اعلان ہوا جو کوئی بھی زرد لباس (فقیروں کی وردی) میں نظر آئے قتل کر دیا جائے…….. پھر حکم ہوا کہ جس شخص کی آنکھیں ستخ ہوں اسے چوٹ مارو اگر وہ اللہ کہے تو سمجھو جھوکی ہے مار دو سر لاؤ انعام پاؤ

ابھی شاہ عنایت کی جدوجہد کا قصہ تمام نہیں ہوا.
دیکھیے ناں قربانی کے لیے موزوں ترین ہستی چنی گئی تھی تو بھلا اس سے عام انسانوں والا سلوک کیوں ہو. وہ عام انسان نہیں وہ تو انقلابیوں کا انقلابی تھا. عاشقوں کا عاشق تھا کیمونسٹوں کا کیمونسٹ تھا شہیدوں کا شہید تھا. چنانچہ شاہ عنایت کے سر کو نیزے پہ چڑھا دیا گیا اور نیزہ بلند کیے ہوئے شہید انقلاب کا سر پورے ٹھٹھہ شہر میں پھرایا گیا (کس قدر سر بلند ہوتے ہیں عوامی شہید)!!!

شہید کا سر عوام الناس کے اندر خوف و ہراس پھیلانے اور بغاوت کو عبرت بنانے کی خاطر ایک ایک گلی ایک ایک محلہ گھمایا گیا. (پاگلو! شہید اپنے عوام کو اپنا دیدار کرانے تم سے ہی یہ کام لیا کرتے ہیں. محبوطن لوگ اپنے وطن کی گلیوں کا آخری دیدار یوں بھی کراتے ہیں! آخری دیدار تو زندگی بھر یاد رہتا ہے. اور یہ عام آدمی کا آخری دیدار نہیں تھا. شہید شہیداں کا دیدار تھا)
بہر حال شاہ شہید کا مبارک سر دہلی کے دربار تک بادشاہ کو تحفے کے طور پر پہنچا دیا گیا. سروں کے تحفے مغل بادشاہوں کے پسندیدہ تحفے ہوا کرتے تھے. خواہ اپنے ھائی کے کیوں نہ ہوں. (اقتدار کاٹے سروں نکالی آنکھوں کے تحفوں کی وصولیابی کے بغیر ممکن کہاں ہوتا ہے!!)

کہتے ہیں کہ وہاں اپنے اثر و رسوخ سے اجمیر کے خلیفوں نے یہ عظیم الشان سر حاصل کیا اور اسے شاہ عنایت کے فقیروں کے حوالے کیا جنہوں نے اسے تکریم و تعظیم کے ساتھ واپس جھوک پہنچا دیا

شاہ عنایت کا اصلی اذیت ناک اور طویل ترین امتحان تو ان کے مقبرے کی تعمیر کے بعد شروع ہوا۔اسکا سر دھڑ سے جدا کرنے کا مرحلہ گزرا تو اب اس کے روح کو تڑپا دینے کی سزا شروع ہوئی. اب اس سے اس کی تعلیمات کو الگ کرنے کی کاروائی کا منظم آغاز ہوا۔ اس کی زندگی کا جوہر اس کے وجود کا حصہ رہنے نہ دینے کی کاروائی شروع ہوئی۔ جس طرح  کہ ہندوستان بھر میں مہاتما بدھ نے برہمن ازم کی چولیں ہلا دی تھیں اور پہلی بار ایک ایسے مذہب کی بنیاد ڈالی جس میں خدا کا وجود نہیں تھا۔

چرچ مندر نہ تھا سچ اور انسان کے بیچ پنڈت ملا نہ تھا۔ بدھ کے مزہب کی وجہ سے برہمنوں کی بادشاہی ختم ہو گئی تھی اور انسان آزاد ہو گیا تھا تاکہ وہ خود غور کرے اور ابدی سچ تلاش کرے۔ اور جب برہمنوں کو شکست ہوئی اور مہاتما بدھ کی تعلیمات کا بول بالا ہوا تو انہوں نے نئی چال چلی۔ انہوں نے مہاتما بدھ کی مخالفت ترک کر دی اوت اسی کو اپنے دیوتاؤں میں لا شامل کر دیا یعنی اس کو اپنا بنا کر اس کی تعلیمات کا مغز نکالنے میں لگ گئے۔
یہی کچھ شاہ عنایت شہید کے ساتھ ہوا۔
جاگیرداروں پیروں اور حکمرانوں نے شاہ شہید کے نظریاتی اثرات ختم کرنے کے لئے اس کی مخالفت یکسر ترک کر دی. اس کا تذکرہ ہی بند کر دیا۔
لے دے کے رہ گئی اس کی قبر اور اسکے ساتھیوں کی اجتماعی قبریں گنج شہیداں. سو اب انہیں بے اثر کرنا تھا. اور یہ کام دو روپے کی اگر بتیوں نے پورا کر دیا. اگر بتیاں اس برصغیر میں سوچ و عقل پہ معطر دھوئیں کا وہ دبیز تہہ چڑھاتی رہی ہیں کہ جس سے اس خطے میں آنے والا ہر نیا فلسفہ ہر نیا تخیل اور ہر نئی ایجاد گھٹ گھٹ کر مرتی رہی ہے. شاہ عنایت شہید کے فلسفے کو بھی بڑی خوبی سے اگر بتی کے دھوئیں میں لپیٹ کر دفن کر دیا گیا ہے. (لوبان کے دھوئیں نے اولین سماجی انقلاب کے داعی حضرت یسوع مسیح کے کمیون کے نظریے کا گلہ گھونٹ  دیا تھا اور اگر بتی کے دھوئیں نے شاہ عنایت کے سوشلزم کو) “

صبر و سکون کی تلقین کی جگالی کرنے والے سجادہ نشینوں کو خاص متبرک لباس میں ملبوس کروا کر انہیں نرینہ اولاد بخشنے تنگدستی ہٹانے اور مرادیں پوری کرانے کی اتھارٹی بنا دیا گیا. عنایت زندہ نہ خریدے جا سکے تو اس کے مقبرے کے پائیں طرف پیسہ نچھاور کر کے دل کی مرادیں خرید لینے کی روایت چل پڑی ہے. اب وہاں عرس میں انصاف اور سچ کے نظریے سے بھٹکا کر اس مقدس مقام کو لنگڑوں لولوں اپاہجوں مفلوجوں بھکاریوں چرسیوں  بھنگیوں لونڈے بازوں سیاستدانوں کے ہوسٹل میں بدل دیا گیا. جھوک کی  جنگ 24 ہزار انقلابیوں کی شہادت اور اجتماعی کاشتکاری کا نیا نویلا نظریہ مدھم ہو ہو کر ختم ہو چلا ہے.”

ہمارے ہاں سینکڑوں مرداروں, غاصبوں ڈاکوؤں اور لٹیروں کو ہیرو بنا کر نصاب میں پڑھایا جاتا ہے. بے شمار حملہ آوروں کے حملوں کو بڑھا چڑھا بیان کیا جاتا ہے. مگر محنت کاروں کے حق کے لیے سر کی قربانی دینے والے شاہ عنایت شہید کے نام گرامی کا ذکر ہمارے سکولی کتابوں میں موجود نہیں ہے. کوئی یونیورسٹی کالج سڑک پارک اس کے نام کی نہیں ہہے کوئی چیئر کوئی تحقیقی مرکز شاہ عنایت سے منسوب نہیں ہے. کسی نے بھی اپنی کتاب اس کے نام منسوب نہیں کی. اس پہ کسی رسالے میں کبھی کوئی خصوصی ایڈیشن نہ نکلا. ….. . سماج کے نہیں کسی مرگھٹ کے باشندے ہیں ہم

(جھوک جنگ کا کمانڈر، شاہ عنایت شہید، تحقیق وتحریر: ڈاکٹر شاہ محمد مری، سنگت اکیڈمی کوئٹہ)

Comments are closed.