بلوچستان اورمغالطے۔۔۔

شاداب مرتضٰی

12144717_1482073955432494_894137647931312264_n

بلوچستان کے معاملے پر اخباری کالموں میں ہونے والی حالیہ بحث میں بلوچستان پر ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ دانشوروں کے موقف کے جواب میں پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے لبرل اور اردو بولنے والے ادیب و کالم نگار دو دلائل پر بہت اصرار کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے موقف کو جو کہ ریاستی بیانیے سے میل کھاتا ہے اور بلوچستان کے معاملے کا قصوروار بلوچوں کو قرار دیتا ہے, درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک دلیل کا تعلق بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی تاریخ سے ہے جبکہ دوسری دلیل کا تعلق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ سرداروں کے پاکستانی ریاست کے ساتھ سیاسی اور حکومتی تعلق سے ہے ۔

ان کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کے تاریخی دلائل کو بلوچ ادیبوں اور کالم نگاروں نے تسلی بخش انداز سے بہت صحت کے ساتھ تاریخی شواہد کے حوالے بیان کر کے غلط ثابت کر دیا ہے۔ ہم دوسری دلیل کی بات کرتے ہیں جس کا تعلق بعض بلوچ سرداروں کے پاکستانی ریاست کے ساتھ سیاسی اور حکومتی روابط سے ہے۔

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ بعض بلوچ سردار خود وفاقی حکومت میں شامل رہے ہیں اور انہوں نے اپنے حلقوں یا قبیلوں کے لوگوں کے لئے اپنے دورِ اقتدار میں کوئی خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں کیا, لہذا بلوچستان کی یہ شکایت درست نہیں کہ پاکستانی ریاست ان کا استحصال کر رہی ہے۔ سادگی اور اختصار سے کہا جائے تو بات یوں ہو گی کہ جب بلوچ سردار خود پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر بلوچوں کا استحصال کرتے ہیں تو بلوچوں کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ پاکستانی ریاست بلوچوں کا, بلوچستان کا استحصال کر رہی ہے کیونکہ اس عمل میں خود بلوچ (یعنی بلوچ سردار) بھی شامل ہیں۔

اس بات کو اس طرح سے بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچی قوم جن مصائب و مشکلات کا شکار ہے اس کی ذمہ دار وہ خود ہے کیونکہ اس کے اپنے بلوچ سردار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ استحصال کے اس عمل میں شامل رہے ہیں۔

یہ دلیل دراصل ایک مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں اور اس بات کا امکان بھی بہت کم ہے کہ اس دلیل کا سہارا لینے والے اعلی دماغ, عالم فاضل ذہین افراد اس مغالطے سے واقف نہیں ہوں گے۔

یہ مغالطہ کیا ہے؟ مغالطہ یہ ہے کہ پوری بلوچ قوم کو چند سرداروں تک محدود کر کے ان سرداروں کے عمل کو پوری بلوچ قوم پر منطبق کردیا جاتا ہے اور یہ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پوری بلوچ قوم اور ان چند سرداروں کے طرزِ فکر و عمل میں چنداں کوئی فرق نہیں۔

مثال کے طور پر اگر اس دلیل کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو سو انڈوں کی ٹوکری موجود اگر چند انڈے خراب ہوں تو نتیجہ یہ نکالا جائے گا کہ تمام انڈے خراب ہیں۔ ایک اور عام مثال لیں۔ اگر پولیس ڈاکووں کے کسی گروہ کو گرفتار کرتی ہے جس میں سب افراد پنجابی بولنے والے ہیں تو اس دلیل کی رو سے یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ تمام پنجابی بولنے والے ڈاکو ہیں یا تمام ڈاکو پنجابی ہیں۔ ایک اور عام مثال لے کر آگے چلتے ہیں۔ اسی منطق کی رو سے اگر پانچ سال کے چند بچوں میں آئرن کی کمی پائی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے گا کہ پانچ سال کی عمر کے تمام بچوں میں آئرن کی کمی ہے۔

یقیناًچند بلوچ سرداروں نے پاکستانی ریاست کے ساتھ سیاسی اقتدار کا تعلق رکھا لیکن اس سے یہ نتیجہ برآمد کرنا غلط ہے کہ پوری بلوچ قوم اس عمل میں شریک ہے, یا اس عمل کی حمایت کرتی ہے یا اس کی وجہ سے بلوچ قوم کا, بلوچستان کے وسائل کا استحصال جائز ہے۔

اس مغالطے کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے عام طور پر متاثرہ شخص کو ہی ملزم قرار دئے جانے سے عبارت کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کسی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ ہو تو اس عورت کو ہی اس کا قصوروار قرار دیا جاتا ہے. جب بلوچ قوم کے ساتھ ریاستی جبر کا ذمہ دار خود بلوچوں کی ذہنیت, رویے اور عمل کو قرار دیا جاتا ہے تو اسی مغالطہ آمیز ذہنیت کی عکاسی کی جا رہی ہوتی ہے کہ بلوچ قوم کے افراد ہی (یعنی بلوچ سردار) اس کی حالت کے ذمے دار ہیں کوئی اور نہیں۔

اب اس مغالطے کے تیسرے پہلو کی جانب آتے ہیں جس کی خاصیت یہ ہے کہ خود مظلوم کو اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ قرار دے کر ظالم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے یا اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ نفسیاتی طور پر دیکھا جائے تو اس مغالعے کا مقصد بھی اکثر یہی ہدف حاصل کرناہوتا ہے باالخصوص جب یہ مغالطہ ذہین و فطین, اعلی تعلیم یافتہ و مہذب افراد کی جانب سے دوہرایا جائے۔

چند بلوچ سرداروں کے عمل کا ذمہ دار و قصور وار پوری بلوچ قوم کو قرار دے کر اسٹیبلشمنٹ کے عناصر اور طویل ریاستی پالیسی پر عمل پیرا جابر حکمران طبقے کو جبر و استحصال کے اس سارے منظر نامے سے صفائی کے ساتھ الگ کر دیا جاتا ہے جب کہ اس منظر نامے کی تخلیق کی اصل محرک قوتیں یہی ہیں۔ پھرتنقید اور پند و نصائح کا رخ ان محرک قوتوں کی گوشمالی کے بجائے ان طالع آزماؤں کے شکنجے میں سسکتے مظلوموں کی جانب کردیا جاتا ہے تاکہ انہیں ریاستی بیانیے کے مطابق سدھایا جا سکے۔

خیر. اگر اب بھی یہ مغالطہ سمجھنے میں دشوار ہو تو ہم ایک سوال چھوڑے جاتے ہیں جس پر امید ہے کہ زیادہ غور و فکر کے بغیر ہی بات سمجھ میں آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر قبضے اور تسلط کے لئے ہمارے مقامی حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی رضامندی, امداد اور حمایت کو بنیاد بنا کر کیا ہم برطانوی سامراج کے تمام ظلم و بربریت سے بری کر کے اس سب کی ذمہ داری صرف اور صرف اپنے سر لے سکتے ہیں؟

اگر جواب مثبت ہے تو انگریزوں کے جو رو ستم کے ہمارے شکوے, اس کے خون آشام شکنجوں سے ہماری آزادی کی ولولہ انگیز جدوجہد محض منافقت سے زیادہ کچھ نہیں۔

اگر یہ سوال کٹھن ہے تو پھر یہ سوچئے کہ اڑسٹھ سالوں میں اگر بلوچ سرداروں نے بلوچ قوم کو کچھ نہیں دیا تو ان اڑسٹھ سالوں میں بلوچستان پر مسلط اسٹیبلشمنٹ نے بلوچوں کو کیا دیا؟ سوائے بلوچستان کے اداروں اور ترقیاتی پروجیکٹس میں پنجاب کے ڈومیسائل کے حامل افراد کو اعلی آسامیوں پر بھرتی کرنے اور بلوچوں کو مالی, چپڑاسی وغیرہ کی آسامیوں پر بھرتی کرنے کے اشتہارات دینے کے؟

بلوچ سردار اگر اتنے ہی برے تھے اور ہیں تو ان کے ساتھ اقتدار میں شامل اس ریاست کے باقی ماندہ مقتدرافراد کو کس نے بلوچستان کو ترقی دینے سے روکے رکھا اور کیوں؟ بلوچ سرداراگر اس کام میں رکاوٹ تھے، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، تو پھر ان سرداروں کا پاس و لحاظ کر کے بھی ریاست کے مقتدر عناصر نے شریکِ جرم کا ہی کردار ادا کیا ہے۔

سوچیئے۔ سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں۔

3 Comments