سعودی عرب میں وکلائے استغاثہ نے سولہ افراد کو ملک کے مشرق میں شیعہ اقلیتی آبادی والے علاقے میں، جہاں چند سال پہلے شدید بدامنی پھیلی تھی، ’دہشت گردانہ‘ جرائم کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
سعودی دارالحکومت ریاض سے جمعرات بائیس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جس مقدمے میں ان 16 ملزمان پر دہشت گردی کے الزام لگاتے ہوئے ان کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا گیا ہے، اس میں ملزمان کی مجموعی تعداد دو درجن بنتی ہے۔
ان میں سے تین ایسے ملزمان ہیں، جن کے نام 23 افراد پر مشتمل اس فہرست میں بھی شامل تھے، جن پر ملک میں اصلاحات کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کے سلسلے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ مشرقی سعودی عرب میں یہ احتجاجی مظاہرے 2011ء کے اوائل میں شروع ہوئے تھے۔
سنی اکثریتی آبادی والی ریاست سعودی عرب میں زیادہ تر شیعہ مذہبی اقلیت ملک کے مشرق میں آباد ہے اور ان باشندوں کے طرف سے اکثر اپنے مرکزی معاشرتی دھارے سے الگ تھلگ رکھے جانے کے خلاف شکایت بھی کی جاتی ہے۔
سعودی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جن ملزمان کو اپنے خلاف مقدمے کا سامنا ہے، انہوں نے اپنا ایک ’دہشت گرد گروہ‘ عوامیہ کے مقام پر شیعہ آبادی والے خطے میں ہی قائم کر رکھا تھا۔ عوامیہ خیلج فارس کے ساحل پر دمام نامی شہر کے قریب واقع ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق جنوری 2012ء میں عوامیہ کے مشتبہ ملزمان کی ایک سرکاری فہرست جاری کیے جانے کے بعد سے وہاں کئی مرتبہ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں اور متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
سعودی اخبارات نے لکھا ہے کہ ان سولہ ملزمان پر سکیورٹی اہلکاروں کے قتل، انہیں زخمی کرنے، بغاوت، ڈکیتی اور دستی بموں کے استعمال جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔ سعودی اخبار ’مکہ‘ کے علاوہ ایک دوسرے روزنامے نے بھی لکھا ہے کہ استغاثہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ان ملزمان میں سے کم از کم دو کی لاشیں سزائے موت دیے جانے کے بعد عوای سطح پر عبرت کے لیے کھمبوں پر لٹکا دی جانی چاہییں۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم یورپی سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اس عرب ریاست میں شیعہ اقلیت کے مظاہروں کے باعث 2011ء میں ہونے والی بدامنی کے سلسلے میں اب تک سات افراد کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ان سات سزا یافتہ افراد میں سے تین ایسے ہیں جن کی عمریں گرفتاری کے وقت 18 سال سے کم تھیں اور مجموعی طور پر یہ تمام ساتوں ملزمان اپنے خلاف سزائے موت کے حکم کے بعد سے قانونی اپیلوں کے تمام امکانات بروئے کار لا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اب ان افراد کی زندگی کا فیصلہ سعودی شاہ سلمان کے ہاتھوں میں ہے، جنہیں کسی بھی مجرم کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل درآمد سے پہلے حتمی منطوری دینا ہوتی ہے۔
ان سات شیعہ شہریوں میں سے ایک نوجوان علی النمر کا معاملہ خاص طور پر بین الاقوامی تشویش کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اسی مہینے فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے جب سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، تو ریاض میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بالخصوص علی النمر کے لیے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔
ڈوئچے ویلے