ہفتہ دس اکتوبر کی صبح ترک دارالحکومت انقرہ کے وسط میں واقع ایک ٹرین اسٹیشن اور ایک ریلی پر ہونے والے دو دھماکوں میں 86افراد ہلاک اور کئی سوز خمی ہو گئے۔
وسطی انقرہ کے اس ریلوے اسٹیشن پر دھماکوں میں زخمی ہونے والے سوا سو سے زائد افراد میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔ یہ دھماکے مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے کے قریب ہوئے۔ ان میں سے ایک دھماکا بہت ہی زوردار تھا۔
دوسرا دھماکہ کردوں کی حمایت میں نکلنے والی ایک ریلی پر ہوا جس میں زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔
سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے بعض ذرائع کے حوالے سے ان دھماکوں کو خود کش حملے قرار دیا ہے تاہم ابھی تک اس امر کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ ایک دوسری ترک نیوز ایجنسی کے مطابق یہ بم دھماکے واضح طور پر دہشت گردانہ کارروائی کا نتیجہ تھے۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
رائٹرز کے نمائندے نے پندرہ نعشیں کردش پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے جھنڈوں میں لپٹی ہوئی دیکھیں۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
ترک حکومت کے ترجمان نے ان دھماکوں کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ دھماکے خودکش حملے تھے، جن کی غیر سرکاری طور پر چند تفتیشی اہلکاروں نے نام بتائے بغیر تصدیق بھی کی ہے۔ دھماکوں کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے سکیورٹی سربراہان کی فوری میٹنگ طلب کر لی ہے۔
یہ دھماکے ایسے وقت پر ہوئے ہیں جب متعدد امن گروپ اور بائیں بازو کی ترک تنظیمیں ایک امن ریلی کا اہتمام کیے ہوئے تھیں۔ ان دھماکوں کے بعد آج ہی کے لیے اہتمام کردہ یہ ریلی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس ریلی میں کرد باغیوں اور فوج کے درمیان جاری پرتشدد جھڑپوں کی مذمت کی جانا تھی۔
بعض سکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ یہ دھماکے اسی امن ریلی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ اس ریلی میں کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن بھی شریک ہونے والے تھے۔ ترک پارلیمنٹ میں اس سیاسی پارٹی کی 80 نشستیں ہیں۔
ترک فوج اور کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے عسکری ونگ کے درمیان فائر بندی ٹوٹنے کے بعد سے پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔ رواں برس جولائی میں تقریباً دو برس تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک فریقین کے چار سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان مسلح واقعات کے بعد ترکی میں سکیورٹی کی صورتحال خراب سے خراب تر ہونے لگی ہے۔
اردگان حکومت کو امریکا میں مقیم دینی مبلغ فتح اللہ گُلن کے حامیوں کی شدید مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
ڈوئچے ویلے و رائٹرز