فرحت قاضی
یہ سردیوں کی ایک سرمئی شام تھی
میری اکلوتی بہن کو بخار تھا اسے شوارما اور برگر کھانا پسند تھا وہ مچھلی اور میگی بھی شوق سے کھاتی تھی مگر ڈاکٹر نے اسے ان سب سے پرہیز اور سادہ خوراک کھانے کا مشورہ دیا تھاچار پانچ روز کے بعد میں اورماں منی کو قریبی کلینک لے جاتے تھے اور ہر بار ڈاکٹر دوائیاں دیتے ہوئے اپنے اس مشورے کو دہراتا تھا
جب ماں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتی تو منی اپنے ننھے ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر کہتی:’’تم میرے اچھے بھائی ہو‘‘
’’اس میں کیا شک ہے‘‘
میں جواب میں کہتا تو وہ کہتی تم جانتے ہو کہ ڈاکٹر نے مجھے سادہ خوراک کھانے کا مشورہ دیا ہے اور ماں روز دودھ، ڈبل روٹی اور کھچڑی کھلاتی ہے
’’ہاں‘‘
مگرپھر وہ کہنے لگتی : ’’اب میرا جی متلانے لگتا ہے منہ کا ذائقہ بھی کڑوا ہے میرا دل میگی اور شوارما کھانے کو کرتا ہے‘‘
میں اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا:
’’منی تم جانتی ہو کہ ڈاکٹر نے یہ کھانے سے منع کیا ہے‘‘
’’ہاں جانتی ہوں مگر دیکھو تو کتنے دن ہوگئے ہیں‘‘ منی دلیل دے کر کہتی
اور جب وہ ضد کرنے لگی تو ایک روز بالآخر رات کے اندھیرے اور سٹریٹ لائٹس کی ملگجی روشنی میں گھر سے باہر قدم رکھے اور تیسری گلی کی نکڑ پر بڑے سٹور پہنچ گیا
خوش قسمتی سے دکان کھلی تھی اور شوارما بنانے والا بھی موجود تھا میں نے جیب سے دس دس روپے کے دس نوٹ نکالے اور اس کے سامنے شوکیس پر رکھتے ہوئے کہا:’’ میرے لئے ایک گرم اور لذیذ شوارما بناؤ بہن کے لئے لے جانا ہے وہ بیمار ہے مگر فرمائش کررہی ہے‘‘
دکاندار نے پیسے اٹھاکر خزانے میں ڈال لئے اور شوارما بنانے میں لگ گیا
میں موسم، سکول اور بہن کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ شوارما بنانے والے نے لفافے میں شوارما بند کرکے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’ یہ لو‘‘
شوارما لے کر گھر پہنچا تو منی گہری نیند سورہی تھی میں نے آواز دینے کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے پکڑ کر ہلایا اور آہستہ سے کہا:’’ نکڑ والی بڑی دکان سے لایا ہوں‘‘
اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا اسے اس طرح خوش دیکھ کر میں بھی خوش ہوگیا
میری بہن زیادہ روز زندہ نہیں رہی جب وہ مرگئی اور گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا تو میں بھی اپنے پر قابو نہ پا سکا اور افراد خانہ کی مانند پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
اسے ایک چھوٹے تابوت میں ڈال کر ہم آبائی قبرستان لے آئے تھے اور دیگر رشتے داروں کے قریب ہی زمین کھود کر دفنا دیا تھا میں کبھی کبھی قبرستان جاکر اس کی چھوٹی سی قبر کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرتا رہتا تھا
یہ میری زندگی کا پہلا سانحہ تھا۔ منی کی بیماری سے شوارما لانے اور اس کی فوتگی کے تمام واقعات میرے ذہن کے پردے پر ایک فلم کی ریل کی مانند باربار گھوم جاتے تو جدائی اور موت کا احساس مجھ میں کہیں چھپے ہوئے خوف کوجگا اٹھتا تھا
میں جوں جوں بڑا ہوتا گیا تو اپنے بوڑھے عزیزوں اور رشتے داروں کو ایک ایک کرکے بیماری ، حادثے اور دیگر واقعات میں مرتے اور دفن ہوتے ہوئے دیکھتا رہا یہ سب یہ تمام میرے دکھ میں اضافہ کرتے اور مجھے ان سے ایک طرح سے ذہنی اذیت پہنچتی رہی
عزیزوں اور رشتہ داروں کو ہی نہیں ہمسایہ اور دوستوں کو بھی مرتے اور بچھڑتے دیکھا رفتہ رفتہ میں نے ان سانحات اور واقعات کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ لیا مگر جس وقت پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور روز روز تابوتوں میں بند ہمارے گاؤں میں لاشیں آنے لگیں تو اس نے پھر ایک مرتبہ مجھے پریشان کردیا
جنگ جتنی طویل ہوتی گئی اتنے ہی تابوت گاؤں میں آنے لگے اس وقت پچاس کے پیٹے میں تھا گھر میں بوڑھے ماں باپ،کھیت اور حجرے میں یار دوستوں کے پاس بیٹھ کر جنگ کے حوالے سے خبریں سنتا رہتا تھا ایسا لگتا تھا کہ گاؤں کا ہر بچہ،جوان،عورت،مرد،بوڑھا اور بوڑھی پل پل کی خبر سننے کے لئے بے تاب ہے کیونکہ کام سے فارغ ہوتے ہی وہ ریڈیو کے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے اور ہرہر خبر نہ صرف غور سے سنتے بلکہ دوستوں کو جاکر سنانے کے لئے بھی بے قرار ہوجاتے تھے ان دنوں ریڈیو ہی باہر کی دنیا سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ تھا
اس چیز کا احساس جنگ کے دوران ہی ہوا کہ ہمارے گاؤں میں زیادہ تر خاندانوں کا روزگار منشیات فروشی اور بیرون ممالک سے سامان لانااور اس کو ملک کے مختلف شہروں میں بھیجنا اور لے جانا تھا اسے ملک میں سمگلنگ کہا جاتا تھا اور اسے ملکی قانون کے خلاف بھی گردانا جاتا تھا تھوڑی بہت کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی جس سے بعض کنبے وابستہ تھے مگر کھیت اور زمین کی تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہنے سے بے روزگاری میں بھی اسی نسبت سے بڑھوتری ہورہی تھی شاید اسی لئے ہمارے گاؤں کے کئی نوجوانوں نے سپاہ گری کا پیشہ اختیار کرلیا تھا اور اب جنگ کے دوران لاشیں بھی اسی گاؤں لائی جارہی تھیں
بوڑھا بابا یہ کہنے کے بعد خاموش ہوگیا میں بھی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا وہ بوڑھا اسی سال کا تھا جب اس نے مجھے یہ سب واقعات بتائے تھے
میرے نواسے ایمل نے پوچھا:
’’دادا ابو!آپ کی اس وقت کیا عمر تھی؟‘‘
میں نے جواب دیا:
’’میں پندرہ برس کا تھا‘‘
’’دادا ابو! آپ یہ کہانی مجھے کیوں سنارہے ہو شاید اس لئے کہ آپ کی عمر بھی اسی سال کی ہوگئی ہے ‘‘
میں نے اس کی سادگی پر مسکراتے ہوئے کہا:
’’ نہیں بیٹا! میں 72 برس کا ہوں اور یہ قصہ اس لئے بتارہا ہوں کہ آج وہی جنگی صورت حال ہے اخبار اٹھاتا ہوں ٹی وی کی جانب دیکھتا ہوں تو کبھی مسجد اور کبھی امام بارگاہ کبھی سکول کبھی چیک پوسٹ اور کبھی پولیس لائن پر دہشت گردانہ حملے اور خودکش دھماکے میں ہلاک اور زخمیوں کو دکھایا جارہا ہوتا ہے کبھی کوئی اہم سیاسی شخصیت ٹارگٹ بن رہی ہے ان واقعات نے مجھے وہ بوڑھا ہمسایہ یاد دلادیا ہے
اسی طرح لاشیں آرہی ہیں اور اسی طرح دفنانے کے لئے جمع غفیر امڈ آتا ہے
بوڑھے کا کہنا تھا کہ ہم پہلے پہل کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں یا عزیز کو دفناتے ہیں تو غم اور دکھ کے احساسات گہرے ہوتے ہیں مگر باربار کے سانحات سے بے حس ہوجاتے ہیں پھر کوئی موت کسی کی ہلاکت ہمارے لئے صرف اور صرف ایک واقعہ بن جاتاہے
اس کا کہنا سچ تھا ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سالوں سے دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ مینا بازار دھماکہ ہو جمرود چیک پوسٹ حملہ ہو محمد علی جوہر روڈ گرجا میں خود کش دھماکہ ہو یا کٹھہ شاہی امام بارگاہ حملہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یہ سب ہمارے لئے واقعات ہیں اور ان سانحات اور واقعات سے تنگ آکر بعض انسان تو موت کی خواہش بھی کرنے لگتے ہیں افغانستان میں روسی فوج موجود تھی تو ایک آدھ خود کشی کا ذکر بھی ہوتا تھا پھر اتحادی خصوصاً امریکی افواج میں بھی خودکشی کے رحجانات دیکھے گئے جبکہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں سے کئی افراد اور خاندان بستر گول کرکے ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک جاچکے ہیں
میں نے بات ختم کی تو ایمل نے سرجھکالیا میں بھی اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا:
’’جب یہ بھی عمر رسیدہ اور کم زور ہوجائے گا تو کیا ہمسایہ بوڑھے اور میری طرح اپنے بچوں اور نواسوں کو داستان حیات سنانے کا آغاز ان ہی الفاظ،واقعات اور سانحات سے کرے گا اور ان پر آکر ختم بھی کرے گا؟‘‘
’’پتہ نہیں‘‘
میں خود سے گویا ہوا:
’’مگر یہ سب کچھ نہایت افسو س اور اذیت ناک ہے‘‘