رزاق سربازی
فلم” دی لائن آف فریڈم ” کہانی ہے گمشدگی کی اور گمشدگیاں بلوچ مسئلہ کی کِلید ہیں۔ ایک ایسی کِلید جو توقع سے بڑھ کر ، کھل جا سم سم ، کی طرح جادوئی سیاسی قفل کھول سکتی ہے۔
برطانوی فلم ساز ڈیوڈ وٹھنی کی 29 منٹ کے مختصر دورانیہ کی اس فلم کی کہانی ،ایک غائب شدہ بلوچ کردار ناصر بلوچ اور اس کے تین دوستوں کے گرد گھومتی ہے۔
فلم کی کہانی کے مطابق ناصر بلوچ دو دوستوں کے ہمراہ گرفتار و لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ گرفتاریوں کے بعد تشدد، عقوبت خانہ اور پھر ویرانے میں قتل کا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ اس منظر نامے میں دوست قتل اور ناصر گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوجاتا ہے۔
ناصر بلوچ نے نامعلوم مقام پر سخت تشدد سہا، وہ اسپتال میں درد سے نڈھال ہے جہاں بہن ، بھائی کے پوچھنے پر اس کے ذہن میں اذیت رسانیوں کی فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
پاکستان سے باہر بنی اس فلم میں ، جو تین زبانوں بلوچی ، اردو اور انگریزی میں ہے، دکھایا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگ “ اٹھائے اور غائب کئے جارہے ہیں درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو کچھ جانتے نہیں جبکہ جبری گمشدگی کا شکار بننے والے ان لوگوں کا تشدد کے کسی کیمپ سے تعلق بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ”
They know nothing.
مار کٹائی کے بعد کمانڈر اپنے ماتحتوں سے، حراست میں لئے گئے تین افراد کی بے گناہی کا ، اقرار کرتا ہے۔
پھر بھی یہ تین افراد، جن میں ایک نیم سوشل و پولیٹیکل ایکٹوسٹ ناصر بھی شامل ہے ، قتل کردئیے جاتے ہیں۔
کمانڈر کے الفاظ “ دے نو نتھنگ ” یہ فلم کا وہ منظر سامنے لاتا ہے جو سوال اٹھاتا ہے کہ کیوں ایسا سب کچھ ہورہا ہے؟
میں نے چند سال قبل ، بی آر پی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر بشیر عظیم ، سے معلوم کیا، گمشدگی کے بعد، جب آپ بازیاب ہوئے تو آپ نے اپنے آپ کو پہلے جیسا محسوس کیا؟ یا آپ کی شخصیت میں تبدیلی آئی تھی؟
ان کا جواب تھا “نہیں، زندگی پہلی جیسی نہیں رہی، میں اب رات کے کسی بھی پہر، اچانک اٹھ بیٹھتا ہوں، ایک انجانا خوف اس وقت مجھے اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہوتا ہے۔ کسی ناگہاں واقعہ کے پیش آنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کروٹیں بدلتے رات کو صبح میں تبدیل ہوتا دیکھتا ہوں۔“
برطانوی فلم ساز ڈیوڈ وٹھنی اس سے قبل قندھار بریک نامی فلم بھی بناچکے ہیں۔ ان کی دونوں فلموں ، قندھار بریک اور دی لائن آف فریڈم ، کے موضوعات افغانستان و بلوچستان کی پُرتشدد سیاست کے گرد گھومتے ہیں۔
غرضیکہ تشدد و سیاست کا تعلق نیا نہیں، ان کی ساجھے داری پرانی ہے البتہ تشدد و سیاست کا اتنا گہرا آشکار تعلق کہیں دکھائی نہیں دیتا جتنا ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے ہماری سیاست کا ذہنی رویہ تشدد سے تشکیل پایا ہے۔ جس میں صحت مندانہ رجحانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔
“ دی لائن آف فریڈم ” پر جب میں تبصرہ لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی فیس بُک میسیج سے بج اٹھی، دیکھا بلوچ بلاگر قاضی داد ریحان کا میسیج تھا “ میرے گھر ، گوادر میں ، چھاپہ پڑا ہے، میرے بھائیوں کی گرفتاری کیلئے لیکن وہ گھر پر نہیں تھے،لٰہذا میرے ایک کزن کو اٹھا لیا گیا ہے جو معذور ہے۔”
یہ ہماری خوش قسمتی نہیں، بدقسمتی ہی ہے کہ ہم تشدد سے بھرپور اور خون سے رنگین ایک حقیقی فلم دیکھ رہے ہیں، ایک ایسی فلم جس کا اسکرپٹ کسی کردار نے نہیں دیکھا، کسی کردار نے اپنے حصے کے ڈائیلاگ نہیں پڑھے، چہ جائیکہ ہرکس و ناکس اس فلم کے دہکتے سیٹ پر اپنے حصے کا تشدد سہہ رہا ہے۔
فلم “ دی لائن آف فریڈم ” کو میں نے ، الگ الگ، زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔دیکھوں، اس میں نظارہ ہے کیا ؟ فلم میں چند سوال اٹھائے گئے ہیں۔ قوموں کے درمیان برابری کا رشتہ ، انسانی حقوق، غیر جمہوری پُرتشدد ماحول۔
فلم کا اسکرپٹ بیان کی گئی کہانی کے پیش نظر قدرے کمزور، تکنیکی نقائص زیادہ اور ڈائیلاگ کافی ایڈوانس ہیں لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود جائزے کے مطابق “ دی لائن آف فریڈم ” رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
فلم ریلیز ہونے پر سوشل میڈیا پر ایک ہاہا کار مچی، ایک فلم بین دوست کے مطابق ویڈیو فلم ویب سائٹ “ ویمو ” پر اس فلم کو دیکھنے والوں کا دباؤ اتنا بڑھا کہ سائٹ کرش کرگئی۔ تین دن کے دوران “ یوٹیوب ” پر ایک لاکھ جبکہ “ ویمو ” پر 26 ہزار افراد فلم کا نظارہ کرچکے ہیں۔ کچھ بلوچ علاقوں میں ویڈیو کی موبائل فونز پر شیئرنگ عروج پر ہے۔
فلم بین کیا کہتے ہیں؟
فیس بک پر میں نے لوگوں کی رائے جاننے کیلئے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا تو چند ثانیوں میں ردعمل آنے لگے۔ واشنگٹن بیسڈ صحافی احمر مستی خان نے لکھا “ فلم میں کوئی اچھی بات نہیں نفرتوں پر مبنی فلم ہے جبکہ بلوچ شاعر عینرے گمنام لکھتا ہے “ فلم دیکھنے کے بعد میں نے اسے محسوس کیا، اسے حقیقت نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان آج تک غلام ہے۔ ”
بلوچ شاعر و افسانہ نگار غنی پہوال لکھتا ہے “ فلم کے تیکنیکی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ فلم کے مکالمے کہانی سے تیز تر ہیں، اسی لئے ان کا فطری اتار چڑھاؤ متاثر ہوا ۔اسے ڈاکومینٹری فلم کہنا بھی مشکل ہے البتہ اس فلم سے بلوچ مسئلہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ”
برلن ،جرمنی میں رہائش پذیر ڈاکومنٹری فلم میکر قادر بلوچ نے لکھا “ کہانی حقیقی ہے، یہ دی لائن آف فریڈم کی شروعات ہے۔ اس فلم کی بازگشت دو سال سے تھی کہ ایسی کوئی فلم بن رہی ہے لیکن ڈیوڈ وٹھنی واقعات کو بہتر انداز میں سامنے لانے سے قاصر رہے۔ انہوں نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ “ ماما قدیر کے لانگ مارچ تک کی تو ان کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ ”
انسانی حقوق کے کارکن کمال ایوب نے لکھا “ کہانی حقیقی ہے جو مثبت نکتہ ہے لیکن فلم میں کمزوریاں بہت دیکھیں۔ علاوہ ازیں بلوچ فلم میکر طارق مراد نے قادر بلوچ سے اتفاق کرتے ہوئے رائے دی ہے کہ “ کمزوریاں سہی ، ابھی شروعات ہے۔” میڈیا سے تعلق رکھنے والے شعیب درازئی نے لکھا “ کوریں چؑم ءَ ترمپ ئے ارس ہم باز ایں ” ( بلوچی محاورہ ، جس کا اردو ترجمہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ ، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ )
انہوں نے مزید لکھا کہ “ بلوچستان میں ، کِل اینڈ ڈمپ ، پالیسی کے ضمن میں فلم کا پیغام واضح تھا۔ ”، دُرا خان نامی فیس بک ایکٹیوسٹ نے لکھا “ کمانڈر کے لہجے سے ایسے لگا کہ کوئی مصری باشندہ ہو۔” رؤف مکران نامی شخص نے رائے دی ہے کہ اچھی فلم ہے۔” ، امان بلوچ نامی شخص لکھتا ہے کہ “ یہ سچی کہانی تھی ، اسکرپٹ کی شکایت نہیں کی جاسکتی ، پروڈیوسر نے اپنی سی پوری کوشش کی اور بلوچستان کی غیر بیان شدہ کہانی بیان کی گئی ہے۔ ”
فہیم نعیم نامی شخص نے لکھا “ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ حقیقت پیش کی گئی۔ ” ، آر جے احمد یار بلوچ نے رائے دی ہے کہ “ جیسی ہماری بہت ساری توقعات تھیں، ویسا کچھ نہیں البتہ something is batter than nothing, ” ۔ اختر بلوچ نے بھی لکھا، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر
ہے جبکہ خلیل بلوچ البلوشی لکھتا ہے کہ “ یہ ایک چھوٹی سی مکمل فلم ہے۔ ”