شمال مغربی پاکستان کے کچھ پہاڑی علاقوں میں وائن کی تیاری کا رواج اس خطے میں اسلام کے آنے سے بھی پہلے سے پایا جاتا ہے۔ ہر سال ان علاقوں میں وائن کی تیاری کا سالانہ تہوار بھی منایا جاتا ہے۔
شیر قلعہ نامی علاقہ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ وہاں کے رہائشی رحمت علی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر انگور کاشت کرتے ہیں، جن سے ہر موسم خزاں میں مقامی سطح پر وائن تیار کی جاتی ہے۔ رحمت علی انگور توڑنے کا کام ننگے پیروں کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’ہم نے شراب کشید کرنے کا یہ عمل اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ وائن آٹھ یا نو سال کی عمر میں چکھی تھی۔‘‘
شیر قلعہ کا علاقہ گلگت سے کچھ ہی دور واقع ہے۔ چھیاسی سالہ رحمت علی وائن بنانے کا مکمل کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ اس دوران وہ کسی بھی قسم کی مشینری استعمال نہیں کرتے۔ انگوروں کو الگ کرنے کے بعد انہیں سیمنٹ سے بنائے گئے ’خور‘ نامی ایک ٹینک میں ڈالا جاتا ہے، جس کے بعد گاؤں والے ننگے پیر انگوروں پر چلتے ہوئے ان کا رس نکالتے ہیں اور پھر اس رس سے وائن تیار کی جاتی ہے۔
پکول نامی خصوصی ٹوپی پہنے ہوئے رحمت علی نے مزید بتایا کہ اس علاقے کے لوگوں نے سولہویں صدی میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس سے قبل یہ لوگ بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ ’’لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وائن بنانے کی اپنی روایت کو برقرار رکھا۔‘‘ رحمت علی نے مزید بتایا کہ ان کے بچپن میں انگوروں کو کاشت کرنے سے پہلے رسم کے مطابق ایک جانور قربان کیا جاتا تھا اور ایک اچھی فصل کے لیے دعا کی جاتی تھی۔
’’انگوروں کے رس کو پتھروں سے بنائے گئے خصوصی زیر زمین حوضوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ کشید کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام لوگوں کو یہ مشروب پینے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ اسے ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ وائن اور الکوحل پیار اور انسانیت کو بڑھاتے ہیں۔‘‘
اس خطے میں بڑی تعداد میں اسمٰعیلی بھی آباد ہیں لیکن شیعہ اور سنی بھی الکوحل کی تیاری میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ صابری اللہ نامی ایک مقامی سنی مسلمان نے کہا کہ وائن کی تیاری پہاڑوں کا ورثہ ہے اور وہ کسی بھی صورت اسے ترک کرنا نہیں چاہتا۔ ’’یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور یہ مرتے دم تک قائم رہے گا۔‘‘ مقامی پولیس بھی وائن کی تیاری کے اس عمل کے بارے میں اس وقت تک آنکھیں بند کیے ہوئے ہے، جب تک وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
موجودہ آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کر رکھی ہے کہ وہ پاکستانی قوانین کا احترام کرتے ہوئے الکوحل والے مشروبات کی تیاری سے دور رہیں۔
ڈوئچے ویلے