یاسمین علی بہائی براؤن
امریکہ اور اسرائیل ، ایران سے بدگمان ہیں،شمالی کوریا اپنے ایٹمی راز چھپاے بیٹھا ہے اور ایک سخت گیرشخص وہاں حکمران ہے۔
روسی صدر پیوٹن کے علاقائی عملداری کے ارادوں سے جمہوری اقوام میں تشویش پائی جاتی ہے اور اسلام پسندوں کے جنگلی بچے دولت اسلامیہ نے دنیا میں دہشت پھیلا رکھی ہے مگر اس سب سے بڑھ کر سعودی عرب بھی کسی سے کم نہیں جو اپنی خوفناکی، بے رحمی اور جابرانہ طاقت میں کسی سے کم نہیں۔
یہ مملکت اپنےمتروق اور بگڑے ہوئے تصور اسلام کوبہت منظم طریق پر پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ یعنی پہلے نفرتیں پیدا کرنا اور پھر اپنی مالی معاونت سے اسے دنیا میں آگے بڑھانا اور ساتھ ساتھ انسانی آزادیوں، امنگوں اور حقوق کو کچلتے جانااور مغرب ان حکمرانوں کی حمایت کرتا جا رہا ہے۔
پچھلے ہفتے سعودیہ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سربراہ بنایا گیا تو ان کا اولین خیر مقدم کرنے والے واشنگٹن کے مارک ٹونر تھے جو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان ہیں۔
موصوف نے کہا“ہم ان سے انسانی حقوق کے تحفظ بارے گفتگو کریں گے اور اس ذمہ دار عہدے کی بدولت سعودیہ کو اپنے ملک اور دنیا میں انسانی حقوق میں بہتری لانے کا موقع ملے گا…..انا لللہ و انا الیہ………اب اس پر انسان منہ لٹکانے کے علاوہ کیا کر سکتا ہے۔
سعودی عرب ہر دوسرے دن ایک آدمی کو سزائے موت دے کر اس کا سر قلم کر رہا ہے اور جمہوریت کے حمایتیوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے سر عام لٹکائے رکھتا ہےاور عنقریب محمد النمر کو جمہوریت کے حق میں مظاھروں میں شرکت کے جرم میں مارنے والا ہے حالانکہ وہ اس وقت تھا بھی نابالغ تھا۔
اسی طرح رائف بداوی صرف جمہوریت کے حق میں بلاگ لکھنے کی سزا دس سال قید اور ایک ہزار کوڑے کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ پچھلے ہفتےایک ہزار سے زائد مومنین دوران حج اپنی جان سے گئے جن کے بارے میں پہلے تو سعودی حکومت نے کہا کہ” یہ اللہ کی مرضی تھی” مگر اب اس کی ذمہ داری بھی فوت شدگان پہ ڈال دی ہے۔
مکہ کسی دور میں سادگی اور روحانیت کی سرزمین ہوا کرتی تھی مگر حالیہ سعودی حکمرانوں نے تو اسے اسلام کا لاس ویگاس بنا کے رکھ دیا
ہے۔ جہاں بڑے بڑے ہوٹل فلک بوس عمارتیں اور فضول خرچیوں کے مراکز شاپنگ مالز غریب آدمی کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔
حاجیوں کی تعداد پر کنٹرول کر کے تحفظ کو یقینی بنایا تو جاسکتا ہے مگر اس سے آمدنی کم ہو جائے گی!!۔
ضیاالدین سردار نے اپنی کتاب ” مکہ..مقدس شہر” میں اس پاک سر زمین کا تقدس مجروح کرنے والے عوامل کی نشاندہی کی ہے لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ سعودی اثرو رسوخ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
شاہ سلیمان نے جرمنی میں مسلمان مہاجرین کے لیئے 200 مساجد کی تعمیر کے لیئے تو فوری پیشکش کر دی لیکن ان کی دوبارہ بحالی اور روزمرہ ضروریات کے لیئے کسی رقم کی پیشکش کی توفیق نہیں ہوئی۔
رقم تو ہے مگر مقدس سعودی پیش قدمی کے گھوڑوں کے لیے، یعنی وہابی ازم کو فروغ دینے والے مدارس اور مسجدیں…جو ایک بین الاقوامی برانڈ کا اسلام دنیا کے لیئے تیار کر رہے ہیں جس کا کام دل و دماغ میں تنگ نظری بھر کر مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی لڑوانا یا پھر جدید اور متوازن سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو دبانا….اقوام عالم اس کا ادراک کب کریں گی؟؟
♣
تلخیص و ترجمہ:طاہر احمدبھٹی (جرمنی)۔
2 Comments