مہر جان
مصری تہذیب دریائے نیل ہی کی بدولت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ تھیلز ہو یا افلاطون، یہ یونانی فلسفیوف خرد پسندی کے باعث مصر کا سفر کرکے کچھ نا کچھ خزانہء خرد اپنے ساتھ ضرور سمیٹ لائے اور اس طرح یونانی دانش کو جدت بخشی۔
تہذیبوں کے اتار چڑھاو میں دریاوں اور سمندروں کو فوقیت حاصل رہی ہے حتی کہ آج کے دور میں طاقت کے مراکز ہمیشہ وہی ریاستیں رہی ہیں جو سمندری طاقت سے بہرہ ور ہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا امریکی بحری جہاز پہ حملہ ہو یا دوسری جنگ عظیم میں جاپان کا پرل ہاربر پر حملہ اسی بات کا غمازی ہے کہ سامراجی عزائم سمندری راستوں سے پلتے اور پھولتے ہیں ۔
آج ترقی کے نام پہ چین کے سامراجی عزائم کو گوادر میں جس طرح پشت پناہی مل رہی ہے اور ریاست جس طرح چین کو گرم پانی تک رسائی دے رہی ہے یہ فقط ترقی نہیں بلکہ چھوٹےاور بڑے سامراج کی گٹھ جوڑ سے گرم پانیوں پہ قبضہ گیریت ہے ۔
چین کے سامراجی عزائم کو بلوچوں کے خون سے جس طرح سے تقویت دی جارہی ہے مکران آواران مشکے اور بولان میں جس شدت سے ملٹری آپریشن میں تیزی لائی جارہی ہے یہ سب اقدامات ریاست اور ریاستی دانشوروں کا خونی چہرہ عیاں کرتے ہیں۔
یہ کس ریاست میں ہوتا ہوگا کہ اپنی ہی بچھائی گئی شاہراہ پہ فوج کا اک ڈویژن میجر جنرل کے کمانڈ میں حفاظت کے لیے معمور کرے اور وہاں کے باسیوں کی زمینوں کو اونے پونے دام میں خرید کر انہیں بے دخل کردیا جائے اور تو اور ریاست کے اپنے ہی بندے ڈاکٹر مالک یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے کہ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی زیادہ سفّاکی ہے۔
یہ بھی اسی ریاست کا کرشمہ ہےکہ چمالانگ کے باسیوں کو چوکیدار بناکر وہاں سے پنجاب کی صنعتوں کے لیے منّوں کے حساب سے کوئلہ نکالا جارہا ہے اور اسی طرح اب گوادار میں جانے کے لیے بلوچ کو ایک عدد کارڈ کی ضرورت پڑیگی لیکن یہ سارا عمل ترقی کے نام پہ ہورہا ہے۔
اس پوری صورتحال میں سردار اختر مینگل کی سیاسی بصیرت کو داد دینی پڑیگی کہ وہ اسلام آباد یاترا میں معذرت خواہانہ لہجہ اپنا کر مشرقی و مغربی روٹ میں پھنس گئے۔ بلوچ تو پہلے دن سے ریاست کے ساتھ دست و گریباں ہے اور بلوچ کے لیے مشرقی و مغربی روٹ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ چونکہ پختون بقول میرے اک دوست کے اپنے سینے پیش کررہے ہیں کہ روٹ یہاں سے گزارا جائے۔
تب ہی تو کچھ بدمزگی پیدا ہوئی وگرنہ اب تک ریاست پنجاب کے جھنڈے گاڑھ دیتی کیونکہ ریاست اور ریاستی اداروں کی تاریخ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فاتح ہمیشہ پنجاب ہی ہو۔ چین کا مسئلہ نہ مشرقی روٹ ہے نہ مغربی روٹ اور نہ ہی چین کا مسئلہ یہاں کی ترقی ہے بلکہ چین کے سامراجی عزائم گرم پانیوں تک رسائی، اپنی معیشت کی مضبوطی ا ور کچھ علاقوں پہ اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔
یہ سمندری راستے ہی ہیں جو سامراجی قوتوں کو پلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کرتے ہیں سامراج کبھی مذہب کے نام پہ تو کبھی جمہوریت کے نام پہ اور کبھی ترقی کے نام پہ اپنے عزائم کو تقویت دیتے رہتے ہیں اور بہت کم ہی لوگ سامراج کے سامنے کھڑے رہ کر امر ہوجاتے ہیں۔
ول ڈیورنٹ اپنی شہرہ آفاق تصنیف “تہذیب کی کہانی” میں کچھ یوں رقمطراز ہے کہ مصر اس وقت تک مصریوں کا تھا جب تک باہر کے حملہ آور وہاں جاکر آباد نہیں ہوئے تھے۔ آج چین اپنی پوری قوت کے ساتھ گرم پانیوں پہ حملہ آور ہے اور ریاستی گماشتے ترقی کے نام پہ فوج کشی پہ تلے ہوئے ہیں۔