اسلام کو خود مسلمان رسوا کر رہا ہے

ظفر آغا

0,,17170288_303,00

ارے یہ کیسا جنون ہے، یہ کیسی دہشت ہے، یہ کیسی وحشت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کیسی جہالت ہے؟  میرے ہاتھ تھک گئے، میرے قلم کی سیاہی سوکھ گئی ، پچھلے تین ہفتوں سے لگاتار مسلم دہشت گردی کے خلاف لکھتے لکھتے اور ادھر خود ساختہ جہادی  ہیں کہ ان کے بم، بارود اور ان کے خود کش حملے تھمنے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ گردن شرم سے جھکی جاتی ہے اور جواب دیتے نہیں بنتا ان انسانیت سوز حملوں کے بارے میں۔

آخر کوئی مسلمان کہئے تو کیا اور جواب دے تو کیا جواب دے، اس پاگل پن اور بیجا جنون کا کوئی جواب بھی ہوسکتا ہے! تو پھر کیجئے تو کیا کیجئے۔ اب تو سر بال کے نوچنے کو دل چاہتا ہے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے کو دل کرتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ چِلا چِلا کر کہیں کہ خدارا یہ پاگل پن بند کرو، لیکن عالم اسلام سے کہیں پر  یہ چیخ پکار نہیں سنائی دیتی۔ کیا اسلامی کانفرنس نے اس سلسلے میں پچھلے تین ہفتوں میں کوئی ہنگامی اجلاس منعقد کرکے دہشت گردی کی روک تھام کی کوئی کوشش کی! میرے علم میں تو یہ بات نہیں ہے۔ آخر یہ خاموشی کیوں، یہ سناٹا کیوں اور کب تک ؟

میرے پاس ان تمام سوالوں میں کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں ہے، بس گردن شرم سے جھکی ہے، خود مجھ کو ہی اب مسلمان کہنے ڈر لگتا ہے۔ کہیں لوگ غصہ میں حملہ نہ کردیں۔ اسلام کو مسلمان خود رسوا کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کلام پاک میں فرما رہا ہے کہ ایک معصوم کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ وہ اسلام جس میں خودکشی حرام ہے، اس اسلام کے نام پر مسلمان کبھی استنبول تو کبھی ڈھاکہ اور کبھی خود مسجد نبویؐ کے قریب خودکش حملے کرکے معصوموں کا خون بہائے۔ ارے ابھی فرانس کے شہر نیس میں ایک ٹرک لے کر ایک خود ساختہ جہادی نے 88 افراد کو روند کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

یہ عالم ہے کہ ساری دنیا مسلمان پر  اسلام بدنام ہورہا ہے۔ یہ دہشت یکایک عروج پر کیوں پہنچ گئی؟۔اس کا فوری سبب تو یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی کی خود ساختہ اسلامی خلافت زوال پذیر ہے۔ عراق میں پہلے رمادی ہاتھ سے گیا، پھر فلوجہ ہار گئے اور اب موصل میں گھرچکے ہیں۔ شام کا شہر راکا کب ہاتھ سے نکل جائے معلوم نہیں۔ یعنیٰ خلافت بکھر رہی ہے اور یہ اس کا غصہ ہے۔ لیکن یہ غصہ دلوا کون رہا ہے اور اس غصہ کو عملی جامہ پہنانے کو دولت کہاں سے آرہی ہے۔

مسلمانوں میں غصے کی لہر پیدا کرنے والے وہ مبلغ ہیں جو کھلے بندوں ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی تبلیغ کررہے ہیں جو سننے والوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بورہی ہے۔ پچھلے آٹھ دس برسوں میں ساری دنیا میں یہ مبلغ پیدا ہوگئے ہیں، ظاہر ہے کہ یکایک یہ مبلغ یوں ہی نہیں پیدا ہوگئے، کوئی نہ کوئی تو سازش ہوگی اس کے پس پشت۔ ہم مسلمان جب کوئی جواب نہیں دے پاتے تو ہر سازش کے پیچھے اسرائیل اور یہودی ہاتھ تلاش کرلیتے ہیں۔

چلیئے ایک منٹ کو یہ مان بھی لیں کہ یہ یہودی سازش ہے، لیکن کیا مسلمان کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں کہ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ فرانس میں اسلام اور جہاد کے نام پر بے گناہوں کو کچلنے سے نقصان خود مسلمان کا ہے یا اگر ایسا ہے تو پھر یہ نفرت کا بازار گرم کرنے والے مبلغ یہودی ایجنٹ ہیں، تو پھر مسلمان ان کے خلاف بولتا کیوں نہیں ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ یہ ٹی وی چینل چلانے کو یہ بم، ٹینک، بارود اور طرح طرح کے ہتھیار اکٹھا کرنے کو دولت کہاں سے آرہی ہے؟ اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ دنیا جانتی ہے کہ کچھ ممالک سے ان دہشت گردوں کے پاس جہاد کے نام پر ملین آف ڈالرز کی امداد آرہی ہے۔ آخر اس جہادی امداد پر روک کیوں نہیں لگائی جارہی ہے۔ اب ساری دنیا عالم اسلام سے جواب مانگ رہی ہے کہ اس دولت پر روک کیوں نہیں لگ رہی ہے۔

اس کا جواب بھی کوئی بہت تیڑھا میڑھا نہیں ہے۔ ذرا آپ عالم عرب کے پچھلے چند برسوں کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس کا جواب آپ کو مل جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ القاعدہ کا دم ختم نکلنے کے بعد دہشت گردی تھم سی گئی تھی لیکن جب دہشت گردی تھمی تو یکایک سارے عالم عرب میں جمہوری تحریک شروع ہوئی، تیونس سے مصر اور تک ساری جگہوں پر عوام نے آمریت کے خلاف جہاد چھیڑ دیا۔ سارے عالم عرب میں شاہوں کے تخت ہل گئے اور آمر اقتدار کھونے لگے۔

بس اس پس منظر میں یکایک جہاد کی گونج اُٹھ کھڑی ہوئی اور اس بار کا جہاد وہ جہاد تھا جو صرف مغرب کے خلاف نہیں تھا بلکہ یہ جہاد شیعہ ۔ سنی نفاق کی پیٹھ پر سوار ہوکر آیا تھا۔ یعنی اس جہاد کا مقصد تھا کہ مسلمان جمہوریت کی جدوجہد بھول جائے اور شیعہ ۔ سنی جہاد کے چنگل میں پھنس کر اپنا خون خود بہائے اور شاہوں اور آمروں کا کاروبار چلتا رہے۔ اور ہوا بھی یہی، آج مسلمان جمہوریت کی مانگ نہیں کررہا ہے بلکہ آج کا مسلمان خود  مسلمان کا خون بہارہا ہے اور آمروں کے مزے ہیں جو بہار عرب کی ناکامی کے بعد پھر محفوظ نظر آرہے ہیں۔

یعنی اس جہاد کے اس وقت تین سرچشمے ہیں، ایک وہ مبلغ جو ٹی وی پر نفرت کا زہر اُگل رہے ہیں، دوسرا وہ مسلم ممالک جو ایسی تبلیغ اور مبلغوں کو مالی امداد کررہے ہیں اور تیسرے وہ آمر جو جہاد کی آڑ میں خودکو پھر سے محفوظ کررہے ہیں۔ یعنی یہ جہاد مغرب کے خلاف جہاد نہیں ہے بلکہ اس جہاد کاشانہ خود مسلم ممالک ہیں اور ایک ایسا مسلم گروہ ہے جس کو یہ مغالطہ ہوگیا ہے کہ وہ جہاد کے ذریعہ ایک بار پھر سے ویسے ہی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیگا جیسی کہ کبھی عباسی خلافت اور ترکی کی خلافت عثمانیہ ہوا کرتی تھی۔

اس نظریہ اور مکتبہ فکر کو گمان ہے کہ وہ ایک بار پھر اس طرح مسلمانوں کی وہی ملوکی شان و شوکت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جیسی کہ ان دور خلافت میں ہوا کرتی تھی۔ یہ نہ تو اب ممکن ہے اور نہ ہی اس شان و شوکت کا تعلق اسلام سے ہے کیوں نہ وہ ایک ملوکی نظریہ ہے جس کے تحت مسلمانوں کا ایک گروہ ترکی کے خلافت کے بعد سے ایک جہاد کے نام پر مغرب کو پسپا کرکے مسلمانوں کی وہی شان و شوکت برقرار کرنا چاہتا ہے جیسا کہ کبھی عباسی اور خلافت عثمانیہ کے دور میں ہوا کرتی تھی۔

یہ ملوکیت ہے اسلام نہیں، اسلام کا تعلق تزکیہ نفس سے ہے۔ اسلام نام ہے خدا اور بندے کے درمیان رشتوں کا جس کا مقصد ذاتی سطح پر ایک نفس مطمئن پیدا کرنا ہے اور سماجی سطح پر ایک انصاف پسند، پُرامن اور اعلیٰ انسانی قدروں پر مبنی ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے کہ جہاں تمام انسان برابر ہوں اور پرامن طریقے سے اپنی زندگی گذر بسر کرسکیں۔

آج کے جہادیوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ اسلامی دور کی کھوئی ملوکی شان و شوکت قرون وسطی کی طرز جنگ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیے جس کو حاصل کرنااب ناممکن ہے۔آج شان و شوکت نام نہاد جہاد سے نہیں بلکہ جدید علوم پر قدرت حاصل کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ بات آج کے جاہل انتہا پسند کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ اسی لئے وہ تمام انسانیت اور خود اسلام کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ ضرورت اس بات ہے کہ تمام  عالم اسلام ان جہادیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تاکہ مسلم معاشرے اور پوری دنیا کو اس لعنت سے نجات دلائی جاسکے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد ، انڈیا

Comments are closed.