پاکستان کے 69 سال : نظریاتی کنفیوژن اور سیاسی خلفشار کا دور

aimal-250x300ایمل خٹک

پاکستان بننے کے بعد فیض احمد فیض مرحوم کی یہ نظم کہ یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر ایک پیغمبرانہ تحریر ہے جو انہوں نے ملک بننے کے چند سال بعد لکھا تھا ۔ اس نظم کی اہمیت اور موقع اور محل سے مطابقت کی وجہ سے ہر سال کی طرح اس سال بھی چودہ اگست کے موقع پر کئی لوگوں نے اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کیا۔

بر صغیر پاک و ھند کی تقسیم اور پاکستان کو بنے 69 سال ہو چکے ہیں۔ ان 69 سالوں میں کیا کھویا کیا پایا۔ یہ کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ نصف صدی سے زیادہ کے عرصے میں ہم بحیثیت قوم اپنے نظریاتی رخ یا تشخص کا تعین تو نہ کر سکے مگر ملک کو نظریاتی کنفیوژن اور مذھبی خلفشار کا تحفہ دے سکے۔

پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ، اسلامی ریپبلک ہوگی یا جمہوری ریپبلک اور اگر مذہبی ہوگی تو اکثریتی مسلک کا یا دیگر تمام اقلیتوں اور مسالک کی مشترکہ ہو گی۔ مطلب اقلیتی مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو بلا خوف و خطر اپنے مذ ہبی عبادات کا حق حاصل ہوگا۔ اکثریتی مذھب ، فرقے اور قومیت کا دیگر اقلیتوں، فرقوں اور قومیتوں  کے ساتھ تعلق مخاصمت یا پرامن بقائے باہمی پر استوار ہو گا ۔

اگر جمہوری نظام قائم کرنا ہے تو وہ حقیقی جمہوریت ہوگی یا کنٹرولڈ یا علامتی اور جمہوریت کے نام پر ڈھونگ رچایا جائیگا۔ عسکریت پسندی کو بطور پالیسی ہتھیار استعمال کرنے کے فائدے کتنے ہیں اور نقصانات کتنے۔ خارجہ پالیسیوں کا محور معاشی مفادات ہونگے کہ نظریات ۔ ہمسائیوں کے ساتھ نبھا رکھنے میں فائدہ ہے یا مخاصمت میں ۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جوابات ابھی تک حل طلب ہیں۔ 

بنگلہ دیش بننے کے بعد بنیادی بیانیے جو دو قومی نظرئیے کی شکل میں دیا گیا تھا نے اپنی ہمیت اور وقعت کھو دی ہے۔ حالانکہ اس بیانیے کو قیام پاکستان کے فورا بعد زلزلے کے جھٹکے لگنے شروع ھوگئے تھے۔ تقسیم کے بعد ھندوستان میں شامل ہونے والے علاقوں سے آنے ہونے والی قیادت نے نئے نئے بنے پاکستان میں مقامی سیاسی حقائق ، زبانوں اور ثقافت کا پاس نہ کیا اور اپنی زبان اور ثقافت کو بزور نافذ کرنے کی کوشش شروع کیا۔

قیام پاکستان کے ایک ہفتے کے اندر اندر صوبہ سرحد کی منتخب حکومت توڑ دی گئی۔ بارہ اگست 1948 کو بابڑہ ، چارسدہ میں نہتے خدائی خدمتگاروں پر اور اکیس فروری  1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی  میں بنگلہ زبان کی حق میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر فائرنگ کی گئی۔

چونکہ نئے ملک میں برسر اقتدار آنے والی سیاسی اشرافیہ کی یہاں پر سیاسی جڑیں یا حلقے نہیں تھے اس وجہ سے انکو جمہوریت راس نہیں آئی ۔ اس وجہ سے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سیاسی اشرافیہ مختلف سیاسی تجربات کرتی رہی۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی بجائے کبھی انتظامیہ تو کبھی فوج اور انتظامیہ دونوں کو ساتھ ملاتی رہی ۔ اور آخر ہوتےہوتے اونٹ کو خیمے کے اندر لانے کی کوشش کی میں فوج کی شکل میں اونٹ خیمے میں اس قدر در آیا کہ اب نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔  

اس نظریاتی گومگو کی حالت یا کنفیوژن کی وجہ سے قائد اعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان بنایا تھا اور پیچھے چھوڑا تھا اسکو نہ صرف یہ کہ متحد نہیں رکھا جا سکا بلکہ کسی قوم کی یکجہتی اور استحکام کیلئے جس قسم کی قومی سوچ اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ملک میں یا تو ناپید ہے یا کمزور ۔ 

قانون کی بالادستی ناپید ہے۔ بعض قومی ادارے آئین اور قانون سے اپنے آپ کو مبرا سمجھتے ہیں اور اس کو بوٹ تلے روندنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ سول اور فوجی تعلقات میں توازن کی بجائے آخر الذکر کے حق میں خطرناک حد تک بگڑ چکے ہیں ۔

قومی ذمہ داری ایک بوجھ بن چکی ہے اور فٹبال کی طرح سول اور فوجی قیادت اس کو ایک دوسرے کی طرف پھینکتی ہے۔ ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے کیلئے ریس لگی رہتی ہے جبکہ بات جب کسی فاش غلطی کی ذمہ داری لینے کی آتی ہے تو پھر اس کو ایک دوسرے کے سر تھوپنے کیلئے مقابلہ ھوتا ہے ۔

قومی قیادت بشمول عسکری قیادت کے نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پائیدار جمہوریت جو ملک میں موجود سیاسی، مذہبی ، لسانی اور علاقائی تنازعات کے حل کیلئے ایک بہترین میکنزم ہو سکتا تھا نہ پنپ سکا اور ملک میں جمہوریت کے نام پر ہر قسم کے ڈرامے تو رچائے گئے مگر جمہوری اقدار،  روایات اور اداروں کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں کیا گیا۔ اور ملک جمہوری کی بجائے عملاً ایک نیم تھیوکرٹیک جمہوری ریاست بن گیا۔

برطانوی تسلط سے ورثے میں ملی غلامانہ اور سامراجی قوتوں پر انحصار کی ذہنیت ملک بننے کے بعد کم نہیں ہوئی بلکہ اور بڑھ گئی اور ہم زوال پذیر برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ ابھرتے ہوئے امریکی سامراج کے بھی طفیلی بن گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی سیاسی اور معاشی غلامی کے شکنجے میں مضبوطی سے جکڑتے گئے۔ اور عالمی سامراجی قوتوں کے ساتھ ساتھ بعض علاقائی قوتوں کی سیاسی شطرنج کے مہرے بن گئے اور ہم نے ان قوتوں کی فرمانبرداری اور تابعداری میں رفعتیں پا لیں۔

ملک سیاسی تجربہ گاہ بنا رہا۔  ابتدائی 11 سال سیاسی افراتفری رہی اور یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتی ر ہیں ۔ اسکے بعد ایک فوجی آمر نے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا تجربہ کیا اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے بیسک ڈیموکریسی کا ڈھونگ رچایا۔ اسکے بعد ایک سویلین راہنما نے سوشل ازم میں مذھب کی پیوندکاری کرتے ہوئے اسلامی سوشل ازم کا نعرہ دیا اور نیم جمہوریت اور نیم آمریت کا نظام دیا۔ پھر دوسرے فوجی آمر نے اسلامی نظام نافذ کرنا چاہی اور شریعت تو نافذ نہ ہوسکی مگر مذھب کے نام پر معاشرے میں وہ گند اور فساد پھیلا کہ قوم ابھی تک مذہبی منافرت، فرقہ پرستی ، انتہاپسندی اور تشدد کو جھیل رہی ہے۔

اسکے بعد لمبے عرصے تک نام نہاد جمہوریتوں کا دور رہا۔ اس دوران میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان میوزیکل چئیرز کا گیم جاری رہا۔ کمزور حکومتیں بنتی ر ہیں ۔ کہنے کو تو اقتدار سیاسی قوتوں کے پاس رہا مگر پردے کے پیچھے اسٹبلشمنٹ اپنا کھیل کھیلتی رہی اور اس نے حکومتیں بنانے اور توڑنے کا اپنا روایتی محبوب مشغلہ جاری رکھا۔ فوجی آمر پرویز مشرف نے روشن خیال میانہ روی متعارف کرائی۔ معاشرہ تو روشن خیال اور میانہ رو نہ بن سکا البتہ مذہبی انتہا پسندی اور تشدد انتہا کو پہنچ گیا اور تو اور فوجیوں کا بر سرعام چلنا پھرنا بھی محال ہوگیاتھا۔

اب ملک میں جمہوریت کا دور ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کا سیاسی اور انتظامی معاملات میں عمل دخل فوجی آمریتوں کے دور سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے اور سیاسی قیادت کا اہم حکومتی معاملات میں اختیار محدود اور برائے نام رہ گیا ہے۔ ھمارا المیہ یہ ہے کہ ہرڈکٹیٹر ایک نجات دہندہ اور مسیحا کے روپ میں آیا اور ملک کی بنیادیں کمزور کرکے چلا گیا۔ تنگ نظر مفادات کی خاطر اور ہوس اور شوق اقتدار میں اندرون ملک خطرناک حد تک مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا اور دوام اقتدار کیلئےبیرونی قوتوں پر اکتفا کیا۔

آمروں نے  بیرونی قوتوں کو خوش کرنے اور انکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ملک کو بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیےہمیشہ فرنٹ لائن اسٹیٹ بناہے رکھا۔   پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ سے محاذ جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی بقاء کی جنگ بن چکی ہے ۔اور اقتدار اعلیٰ کو گروی رکھنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔

اپنی امتیازی اور تنگ نظر مذہبی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی ریاست آہستہ آہستہ ایک مخصوص مذہبی سوچ اور لسانی تشخص کر چکی ہے۔ بیرونی قوتوں کی ایماء اور اندرونی نظریاتی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے مذہبی کارڈ کا بھرپور اور بھونڈے انداز سے استعمال کیا گیا۔ جس سے معاشرے میں مذہبی خلفشار،  کج روی، فرقہ واریت  اور مذہبی متشدد رحجانات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں اور سرطان کی مرض کی طرح ریاست کی رگ رگ میں پھیل چکے ہیں۔

تحریک پاکستان یا پاکستان کو مستحکم کرنے میں تمام مذاہب ، فرقوں اور قومیتوں کا رول رہا ہے مگر آہستہ آہستہ اس بالادست تنگ نظر مذہبی ریاستی سوچ کی وجہ سے دیگر مذا ہب، فرقوں اور قومیتوں کے رول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں میٹرو اسٹیشن پر تمام قومی مشاہیر کی تصاویر موجود ہیں ماسوائے سر آغا خان اور سر ظفر اللہ خان کے۔ اس طرح دو نوبل انعام یافتہ شخصیات ڈاکٹرعبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی  کی توقیر اور عزت افزائی ہمارے سامنے ہے۔ 

دہشت گردی اب ریاست کی اولین دشمن بن چکی ہے۔  اندرونی دشمن بیرونی سے زیادہ خطرناک اور زہریلا بن چکا ہے۔ اگرچہ ریاست اندرونی دشمن کے خلاف جنگ شروع کرچکی ہے اور کسی حد تک اس جنگ میں کامیابیاں بھی حاصل کر ر ہی ہے ۔ مگر ریاست میں پرانی سوچ کی حامل بعض قوتیں جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں نیم دلی یا لیت و لعل سے کام لے ر ہی ہے۔ اور عسکریت پسندوں میں اچھے اور برے کی تمیز کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہے۔

جس سے عسکریت پسندی کے جن کا بوتل میں مکمل طور پر بند نہ ھونے کا امکان ہے۔ اور ماضی کی طرح اچھاعسکریت پسند  کسی بھی وقت برا عسکریت پسند بن سکتا ہے۔ سوچ میں اس کنفیوژن اور دو عملی کا عکس ہمیں بعض ریاستی بیانیوں میں بھی ملتا ہے جو یا تو اپنی غلط پالیسیوں اور مہم جوئیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اور یا اپنے تنگ نظر مفادات کیلئے اب بھی اندرونی سے زیادہ بیرونی قوتوں کو صورتحال کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ بیرونی قوتوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اپنی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کیلئے بھی انکو ذمہ دار ٹھہرانا اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا اور اس سے اپنے اپ کو مبرا قرار دینے کی ناکام کوشش ہے۔

جہاں تک خارجی تعلقات کا تعلق ہے وہاں بھی صورتحال خراب اور انتہائی گمبھیر ہے۔ پاکستان سخت سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ علاقائی تعاون کے دور میں چار ہمسایہ ممالک میں سے تین کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں سارک وزرا داخلہ کا اجلاس ہوا وہاں انڈیا، افغانستان اور بنگلہ دیش نے پاکستان پر یا تو کھلے عام یا دبے الفاظ میں اندرونی مداخلت کا الزام لگایا۔

قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی پالیسی تقریر سے جس میں انھوں نے پاکستان کی مستقبل کی نظریاتی بنیادوں کا تعین کیا تھا اور مذ ہبی آزادی ، برداشت ، روشن خیالی اور میانہ روی پر مبنی منزل کی نشاندہی کی گی تھی کو اکثر یا تو فراموش کیا جاتا ہے اور یا اسکی ا ہمیت کم کی جاتی ہے۔ اس تقریر میں مذہبی آزادی اور شہریوں کی ذاتی اور روزمرہ معاملات میں  ریاست کی کم سے کم مداخلت کی بات کی گئی تھی جو ایک سیکولر ریاست کا خاصہ ہوتی ہے۔

اس تقریر میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ شہریوں کا جو بھی مذہب یا عقیدہ ہوگا ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا اور تمام شہری آزاد ہونگے۔ مگر ہمارے ہاں لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ سیکولرازم کو لادینیت تصور کیا جا ر ہا ہے اور اسے کفر کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ سیکولر ازم ریاست اور مذہب کے درمیان حد کھینچتا ہے نہ کہ مذھب کی نفی۔ سیکولر ازم کے تحت مذہب یا عقیدہ ہر انسان کا ذاتی فعل ہوتا ہے اور  ریاست کا شہریوں کے مذہبی عقائد اور نظریات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ ریاست تمام انسانوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔

اور جہاں جن معاشروں میں ریاست مذہب کے معاملے میں فریق بنتی ہے وہاں مذ ہب کے نام پر زیادہ کشت و خون ہوتا ہے اور کوئی شہری چاہے اکثریت ہو یا اقلیت کھلے عام بلا خوف و خطر اپنی عبادات نہیں کرسکتے اور مذ ہبی شخصیات اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں ر ہتیں۔ اب وقت آگیا ھے کہ ریاست کو مذ ہب سے علیحدہ کیا جائے ورنہ ان معاملات میں فریق بنے رہنے سے انتہاپسندی ، فرقہ واریات اور د ہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں موجود ر ہے گی اور ریاست کے بعض حصوں اور اداروں میں ان کیلئے ہمدردی اور حتی ٰکہ سرپرستی بدستور موجود ر ہے گی۔

اس طرح پاکستان کی اندرونی سلامتی اور استحکام ایک حقیقی جمہوری نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ اور اندرونی سلامتی اور استحکام کیلئے ایک بنیادی شرط ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں بھی ہے۔ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات سے علاقے میں نہ صرف علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ بلکہ امن و استحکام کو تقویت بھی ملے گی۔  

دو قومی نظریے کے بعد پاکستانی ریاست ملک کی معروضی حقائق اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی نیا جامع بیانیہ تخلیق نہ کرسکی جبکہ فرقہ وارانہ اور متشدد مذ ہبی بیانیوں نے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات اور چیلنجزز سے دو چار کیا۔ اب رواداری اور برداشت پر مبنی بیانیوں کی ضرورت ہے جو ملک میں پھیلی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کا سدباب کر سکے۔

 ♠

3 Comments