یک جہتی کا بیانیہ

بیرسٹر حمید باشانی

ہم پہلے بھی کئی باربھارت کو سبق سیکھا چکے ہیں۔ اور اگر یہ باز نہ آیا تو پھر اب کی بار ایسا سبق سیکھائیں گے جو تا قیامت یاد رکھے گا۔بھارت اب زیادہ دیر تک کشمیریوں کو اپنا غلام نہیں رکھ سکتا۔ یہ سال کشمیر کی آزادی کا سال ہے۔بھارت کو اب ذلیل و خوار ہو کر کشمیر سے نکلنا پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے حسب روایت اس برس بھی یوم یکجہتی کشمیر پر منعقد ہونے والی ریلیوں ، سیمینارزاور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جس طرح آیات کریمہ پڑھ پڑھ کر قسمیں کھا کھا کر ان لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان کو سن کرکوئی بڑے سے بڑا حقیقت پسند اور غیر جذباتی آدمی بھی قائل ہو سکتا ہے کہ اس سال بھارت ذلیل و خوار ہو کر کشمیر سے نکل جائے گا ۔ اور ایسا صرف اس سال نہیں ہوا۔ گزشتہ دو عشروں سے ہر سال پانچ فرور ی کو یوم یکجہتی کے نام پر پاکستان، آزاد کشمیر اور کچھ باہر کے ممالک میں با قاعدہ اہتمام سے مجمع لگا کر یہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔اس جھوٹ کا آغاز باقاعدہ تلاوت کلام پاک سے ہوتا ہے اور اختتام دعا سے۔ 

ہر سال اس مشقت بھری مشق میں ہر قسم لوگ شرکت کرتے ہیں۔ارباب اختیار، سیاسی لیڈر و کارکن، علماء و مشائخ، طالب علم و دانشور۔ یکجہتی کشمیر کی مشق تو خیر ابھی نئی ہے مگر کشمیر کے حوالے سے مذکورہ بالا قسم کی سرگرمیاں اور مذکورہ بالا قسم کے خیالات کا اظہار گزشتہ ستر سال سے اسی تسلسل کے ساتھ با قاعدگی سے ہو رہا ہے۔ اس طرح ہم نے بڑی گرجدار اور اونچی اواز میں مسلسل جھوٹ بول بول کر ایک بیانیہ تخلیق کیا ہے۔ اس بیانیہ کو سرکار ی تحفظ اور مذہبی تقدس بخشا گیا۔ اور پھر اس کو اس طرح عوام پر مسلط کیا گیا کہ باقی تمام بیانیے منظر سے ہی غائب ہو گئے۔ 

نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ اگر ایک انسان کچھ عرصے تک مسلسل جھوٹ بولتا رہے تو وہ اسے خود اپنے دل میں سچ تسلیم کرنے لگتا ہے۔ اس نفسیاتی اصول کا اطلاق مکمل طور پر ہم پر ہوتا ہے۔ ہم جو اتنی کثرت اور تواتر سے جمع ہو کر اجتماعی طور پر جو جھوٹ بول رہے ہیں اس کو دل سے جھوٹ نہیں بلکہ سچ جان اور مان کر بولتے ہیں۔ہر گزرا ہو سال تاریخ بن جاتا ہے۔اور ہر نئے سال پر ہماری تاریخ میں جس گزرے ہوئے سال کے ورق یا باب کا اضافہ ہوتا ہے وہ ہمار ی تاریخ ہوتی ہے مگر جھوٹ پر مبنی۔

اس طرح ستر برسوں میں ہم نے جو تاریخ بنائی ہے وہ خود فریبی پر مبنی بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اس طرح برسہا برس سے چلتے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار میں رہنے کے جنون میں مبتلا سیاست کاروں کو سچ اور جھوٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کا سچ اور جھوٹ صرف وہ ہوتا ہے جو عوام سننا چاہتے ہیں۔۔ مگرحیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بڑے بڑے دانشور اور تاریخ نویس جھوٹ بولتے اور لکھتے ہیں۔ 

ہم نے بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑیں۔ ۔ ان جنگوں میں نے نا قابل تلافی نقصان اٹھایا۔ ان جنگوں میں جانی اور مالی نقصان کے علاوہ کشمیر آپ کے ہاتھ سے گیا۔بنگلا دیش ہاتھ سے گیا۔ لیکن ہر جنگ ہارنے کے بعد آپ نے فتح کے ترانے گائے۔ جنرلوں نے قوم کو مبارک بادیں دی۔ سیاست دانوں نے فتح کے نعرے لگوائے۔ اور تاریخ نویسوں نے قلم کے ہیر پھیر سے میدان جنگ میں ہاری ہوئی جنگیں کاغذ پر جیت کر دکھائیں۔

پھر آپ نے یہ تاریخ اپنے بچوں کو پڑھائی۔ ان کو برتری کے جھوٹے احساس میں مبتلا کیا۔ جھوٹ اور جعل سازی کا یہ سلسلہ ستر سال سے جاری ہے۔ آج بھی اپ کے اخبارات میں روزانہ جو کچھ لکھا جاتا ہے۔ آپ کے ٹی وی پر جو کچھ بولا جاتا ہے۔ اس کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو حیرت کے کیا کیا باب کھلتے ہیں۔ ۔۔ آپ کے نام نہاد اقتدار پرست سیاست دان اور اور مذہب کو تجارت بنانے والے رہنما1947 سے ہر سال کوئی درجن بھریوم اور برسیاں بناتے چلے آ رہے ہیں۔ ان یوموں اور برسیوں میں کئی بار کشمیرآازاد ہوتا ہے۔ بار بار بھارت نیست نابود ہوتا ہے۔ علماء کرام رو رو کر بھارت کی تباہی وبربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ جہادی لال قعلے پر پرچم لہرانے کا عزم دہراتے ہیں۔ 

سترسال سے ایک ہی جھوٹ بار بار بولا جا رہا ہے۔ کشمیر کی آزادی اب زیادہ دور نہیں۔ ہر نئے سال کو پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کشمیر کی آزادی کا سال اور بھارت کی بربادی کا سال قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ ہم نے جھوٹ اور فریب کی ایک خیالی دنیا تخلیق کی ہوئی ہے جس میں ہم اپنے ارد گرد کے تلخ حقائق سے منہ چھپانے کے لیے پناہ لیتے ہیں۔اس خیالی دنیا کو ہم اپنی آئندہ نسل کو بھی منتقل کر رہے۔ان کو بھی اسی خود فریبی کا درس دے رہے جس میں ہم ستر سال سے مبتلا ہیں۔اور اگر ہم خود فریبی پر مبنی اس خیالی دنیا سے باہر نہیں نکلتے تو ہم ائندہ ستر برس تک بھی اسی طرح بے نتیجہ یوم اور برسیاں بناتے رہیں گے۔ 

Comments are closed.