ایبٹ آباد پر امریکی حملہ۔۔جواب طلب سوالات 

آصف جیلانی 

ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کے کمانڈوز کے حملہ میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو ۲ مئی کو چھ سال ہوجائیں گے ۔ اس حملہ کے بارے میں سپریم کورٹ نے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں جو تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا تھا اس کی اب تک اشاعت نہ ہونے پر اس حملے کے بارے میں برابر سوالات اٹھ رہے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سوالات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔

سب سے پہلا سوال تو یہی اٹھتا رہا ہے کہ کیا ایبٹ آباد کا حملہ امریکا اور پاکستان کا مشترکہ آپریشن تھا؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے نیوی سیلز کے دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز ، جلال آباد سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے احاطہ تک آنے میں کیوں کر کامیاب رہے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ جلال آباد سے ایبٹ آباد تک پرواز میں نوے منٹ لگتے ہیں۔ اتنے لمبے عرصہ تک یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ان کا سراغ نہ لگا یا جا سکا۔

پھر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا واقعی امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز جلال آباد ے ایبٹ آباد آئے تھے ؟ یہ شبہ اس بناء پر ظاہر کیا جاتا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں کئی ہوائی اڈے 2001سے پرویز مشرف نے امریکیوں کو پٹہ پر دئے دئے تھے، جہاں سے امریکی فضایہ اور سی آئی اے کی طرف سے ڈرون حملے کیے جاتے تھے۔ مئی 2011میں ایبٹ آباد پر امریکی نیوی سیلز کے حملہ کے وقت یہ فضائی اڈے امریکیوں کے تصرف میں تھے۔ البتہ نومبر 2011میں سلالہ پر امریکی حملے کے بعد شمسی ایر فیلڈ اور دوسرے ہوائی اڈے امریکیوں کے تحویل سے واپس لے لئے گئے تھے۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ ایبٹ آباد پر حملہ کے لئے ، امریکا کے زیر تصرف ان ہوئی اڈوں میں سے ایک اڈہ استعمال کیا گیاتھا ۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ امریکی نیوی سیلزکے ہیلی کاپٹرس جلال آباد سے ایبٹ آباد آئے تھے تو نوے منٹ تک ایسے اہم فوجی علاقوں پر اتنی لمبی پرواز کے دوران یہ کیسے ممکن ہوا کہ ان ہیلی کاپٹروں کا سراغ نہ لگایا جاسکا، خاص طور پر اٹک، ٹیکسلا اور ایبٹ آباد کے علاقے فوجی اہمیت کے حامل ہیں۔ 

یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ حملے کی رات کو کس اطلاع پر اور کس کے حکم پر اسامہ بن لادن کے احاطہ کے اردگرد اور اس طرف جانے والی تمام سڑکوں پر فوج تعینات کی گئی تھی ، کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ فوج کے حکام کو اس حملہ کی اطلاع تھی اور مشترکہ آپریشن کی بناء پر اسامہ بن لادن کے احاطے کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ 

پھر یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اسامہ بن لادن نے کس طرح چھاونی والے شہر ایبٹ آباد میں اپنی کمین گاہ کو پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے چھپائے رکھا۔ کیایہ صحیح ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے اسامہ بن لادن کو خاص طور پر ایبٹ آباد میں چھپائے رکھا کہ وہ امریکی ڈرون حملے سے محفوظ رہیں گے کیوں کہ امریکی ایبٹ آباد کو کسی صورت میں ڈرون حملہ کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ 

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیااس زمانہ کے صدر آصف علی زرداری کو ایبٹ آباد پر امریکی حملہ کے منصوبہ کا علم تھا جس کا مقصد صدر اوباما کو دوسری مدت کے انتخاب میں اس حملہ کی کامیابی کی بنیاد پر فتح سے ہمکنار کرنا تھا۔ اور واقعی چند ماہ بعد وہ انتخاب میں سرخ رو رہے۔کیا آصف علی زرداری ، ایبٹ آباد حملہ کواوباما کی انتخابی جیت کے لئے استعمال کرنے کے منصوبہ سے واقف تھے اور یوں اوباما کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کیا اس زمانہ میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اس حملہ کے منصوبہ سے واقف تھے اور اس سے منسلک عمل میں شامل تھے؟ 

پھر آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۴ جنوری 2013کو جسٹس جاوید اقبال نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی لیکن چار سال گذرنے کے بعد بھی اب تک یہ رپورٹ کیوں شایع نہیں کی گئی۔ آخر کیا وجہ ہے اور کیا راز ہے اسکا ۔ خود جسٹس اقبال نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ رپورٹ جلد اس جلد شائع کی جائے ۔

جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ اس کمیشن نے ایبٹ آباد پر حملہ کی بڑی گہری تحقیقات کی ہے جس پر پانچ کروڑ روپے خرچ آیاہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ ان کی بیٹی بار بار یہ پوچھتی ہے کہ کیا بن لادن ایبٹ آباد میں رہ رہے تھے ، جیسے کہ امریکی دعوی کرتے ہیں؟ جسٹس اقبال نے کہا کہ اگر وہ اس بارے میں انکشاف کردیں توہ پھر رپورٹ میں کچھ نہیں رہ جائے گا۔ اس کے باوجود بھی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور جسٹس اقبال کا مطالبہ بھی یکسر مسترد کردیا۔

آخر میں یہ سوال ذہنوں کو پریشان کرتا ہے کہ کیا حمود الرحمان کمشن کی طرح یہ رپورٹ بھی مصلحتوں کی تجوری میں مقفل کردی گئی ہے اور حکومت عوام کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ انہیں، ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف امریکی حملے کے بارے میں اتنے اہم سوالات کا جواب دے۔

♠ 

Comments are closed.