برصغیر کے نمرود اور انقلابؔ کاانقلاب 

طارق احمدمرزا

انسان اس پوری کائنات کا واحدجاندارہے جو اپنی ہی ہم جنس کوزندہ آگ میں جلادیتاہے۔

آج کے جدیدترین ترقی یافتہ دور میں پاکستانی،جن کی اکثریت مسلمان ہے، اس فعل میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔وہ ختنہ تو سنت ابراہیمی ؔ میں کرواتے ہیں لیکن اسوہ نمرودؔ کااپناتے اور دکھاتے ہیں ۔

اپنامطلب ہوتوسرتن سے جداکرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے ایک منٹ میں پوراکراچی، پورااسلام آبادبندکروادیتے ہیں لیکن جہیزساتھ نہ لانے والی نوبیاہتادلہنوں، پسندکی شادی کرنے والوں، چوری کے شبہ میں پکڑے جانے والوں ،گارمنٹ فیکٹریوں کے ادھاری مزدوروں، اور غیرمسلم اقلتیوں کوزندہ آگ میں جلائے جانے کے انسانیت سوز واقعات پر ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔اس انسانیت سوزجرم پہ خاموش رہنے والے اس جرم میں برابرکے شریک ہوجاتے ہیں۔

سنتے چلے آئے ہیں کہ پہلے اس قسم کے افراد کی وجہ سے پوری پوری قوم پہ عذاب واردہوجایاکرتے تھے ۔پتہ نہیں کیوں آج کل ایسے مظالم پر نہ آسمان اوپرسے گرتاہے نہ زمین نیچے سے پھٹتی ہے۔غالباًہم ایک جہنمی دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔ جہنم توبجائے خود عذاب ہے، اس پر عذاب نے کیانازل ہونا؟۔سمجھیں یہی ہماری آخرت ہے۔

ازمنہ وسطیٰ میں یورپ میں کلیسیاکے حکم پربیگناہ عورتوں کو چڑیلیں قراردے کر انہیں زندہ جلایاجاتاتھا جسے’’ دی انکوئسٹ‘‘ اور’’ وِچ ہنٹ‘‘ کے نام سے یادکیا جاتاہے۔آج کلیسیاکم ازکم اس معاملہ میں اپنی اصلاح کر چکا ہے ۔ لیکن ہم نہ دوسروں سے سبق حاصل کرتے ہیں نہ نمرود کے انجام کویادرکھتے ہیں۔مسئلہ شفاعت کابگڑاہوا تصور ہمارے لئے مثل کفارہ بن چکاہے۔اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر مصلحین ہونے کے دعویدارخودچڑیل بن چکے ہیں۔

آئین پاکستان کو خدائی قانون سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ اب امت محمدیہ میں کوئی مصلح نہیں آسکتا۔جو کسی کو مصلح سمجھتایا مصلح کی آمد پہ یقین رکھتا ،یا خود کو مصلح قراردیتاہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے۔

دراصل یہ قوم جان چکی ہے کہ ہم ناقابل اصلاح ہوچکے ہیں۔کسی مصلح نے آکر اپنا اور دوسروں کا وقت ہی ضائع کرنا ہے۔ 

پاکستانیوں کی طرح بھارتی ہندوؤں کی نام نہاداعلی ذات کی برادری بھی اسی سنت نمرودی پہ عمل پیرادکھائی دیتی ہے۔

اَسی کی دہائی کاواقعہ ہے میں بھارتی ریاست تامل ناڈومیں چار معصوم بچوں کو ’’اعلیٰ‘‘ ذات کے ہندوؤں نے پکڑکرآگ میں زندہ جلاڈالاتھا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اچھوت ذات ( جودَلِت کہلاتے ہیں) میں سے تھے اور انہوں نے ایک ایسے گھاٹ سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی تھی جو صرف اونچی ذات کے ہندوؤں اور ان کے جانوروں کے لئے مختص تھا۔ 

ان معصوم بچوں کاگوشت بھڑکتے الاؤ کی چتا میں بھن بھن کر پوری فضا میں ایک سڑاندپیداکرگیا لیکن اس کی بو کسی پولیس والے کی ناک تک نہ پہنچ سکی۔ان کی ہڈیاں انہی کی طرح کے انسانوں کی بھڑکائی ہوئی بھٹی میں چٹخ چٹخ کرٹوٹتی رہیں اور ٹوٹ ٹوٹ کرکوئلہ بنتی رہیں، لیکن ان چٹختی ہڈیوں کی آوازیں حکومت کے کسی عہدیدارکے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔ان معصوموں نے اپنے ننھے منے آنسوؤں سے اس الاؤ کو بجھانے کی ناکام سی کوشش بھی کی تھی لیکن ان کے آنسوتوان کی جھلستی پلکوں سے گرنے سے پہلے ہی گرم بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئے تھے۔

آگ بالآخر بجھی ضرور لیکن اس دھرتی پر راکھ کا ایک ڈھیراورنمرودکے پیروکاروں کے چہروں پہ تکبر اور طنزوتمسخربھری ایک کمینی مسکراہٹ چھوڑگئی۔یہ مسکراہٹ ویسی ہی تھی جو پاکستان میں ایک مسیحی جوڑے کو زندہ جلادینے والے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کے چہروں پہ دیکھی گئی تھی۔نمرود کے یہ پیروکاراپنی اس خاص مسکراہٹ کی بدولت باآسانی پہچانے جاتے ہیں۔
یہ نمرودی مسکراہٹ سنہ
2014 میں گوجرانوالہ کے ان پاکستانی مسلمانوں کے چہروں پہ بھی بیساختہ نمودارہو گئی تھی جنہوں نے تین احمدیوں کو ان کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں زندہ جلادیا تھا۔ اسی طرح کے اور بھی ان گنت واقعات اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی معاشرتی تاریخ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں اس قسم کے انسانیت سوزواقعات کا نہ تو کوئی بابارحمتاازخودنوٹس لیتا ہے(خاص کر احمدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا)،نہ کوئی احمدفرازؔ ان پر کوئی منظوم احتجاج ریکارڈکراتا ہے نہ کوئی فیض ؔ اور نہ ہی کوئی حبیب جالبؔ یااحمدندیم قاسمیؔ ۔معاف کیجئے گاان’’ قومی دانشوروں‘‘ کے لکھو کھاچاہنے والے ناراض تو ہونگے لیکن مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ تمام ترقی پسنددانشورکہلانے والے پولیس اور عدلیہ کی طرح اس وقت گونگے بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں جب کسی اقلیتی طبقے پہ شرمناک مظالم توڑے جارہے ہوتے ہیں۔

انہیں ہزاروں میل دورنکاراگوا،ویت نام ،لاؤ س،ارٹریا،شمالی آئرلینڈ،شکاگو اورکیوبامیں زندہ جلتے جسموں کی بوتوآجاتی ہے جس پر وہ آنسو بہاتے ہوئے شہرہ آفاق قسم کی نظمیں لکھ کر فلاں ایوارڈ اور فلاں ایوارڈوصول کرتے پھرتے ہیں لیکن مجال ہے اپنے ملک پاکستان میں کسی مسیحی،کسی ہندو،کسی احمدی، کوزندہ جلائے جانے یا کسی بلوچ کی مسخ شدہ لاش پرایک لفظ بھی اپنی زبان یا قلم سے ادا کر جائیں۔ایسے لمحات میں ان کی اصلیت بے حسی کا زکام بن کر ان کی ناک کو جلتے گوشت کی بو تو کیا خوشبوکے سونگھنے سے بھی فوری طورپرعاری کردیتی ہے اوربے بس انسانوں پر نمرودیت کا آتشیں نزلہ گرتا ہی چلاجاتاہے۔

لیکن بھارت اس لحاظ سے پاکستان سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہے کہ انہیں چند ایک ہی سہی،لیکن ایسے دانشوردستیاب ہیں جو کسی ایوارڈ یا جھوٹی عزت یا مجرمانہ مصلحت یا مردہ ضمیری ،یانمرودوں کے غیض وغضب کی پروانہیں کرتے۔وہ حقیقتاً انسان دوست ہیں،حقیقی ترقی پسندہیں۔انسانوں کو ان کی ذات پات،رنگ نسل،مذہب ،فرقہ اور قانون کی دی ہوئی تقسیم یا درجہ بندی سے انتہائی بالاہوکر صرف اور صرف انسان کے طورپر دیکھتے ہیں۔

تامل ناڈوسے تعلق رکھنے والے ایک ایسے ہی معروف دانشور ،ماہرتعلیم،مصنف،ڈرامہ نگاراور شاعرانقلابؔ بھی تھے جومذکورہ بالا چاردَلِت بچوں کے زندہ جلائے جانے کے واقعہ پرخاموش نہ رہ سکے۔واضح رہے کہ بھارتی پولیس نے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو تو کچھ نہیں کہا ،الٹا ان معصوم بچوں کے والدین کوگرفتارکرکے جیل میں ڈال دیاتھا تاکہ’’ وقوعہ‘‘ کے بعدکسی قسم کے’’ نقصِ امن‘‘ کا کوئی احتمال باقی نہ رہے۔ 

انقلاب ؔ نے اس انسانیت سوز،دلسوزاورجاں سوز واقعہ کے حوالے سے تامل زبان میں ’ ’ من شگڈا، نانگامن شگڈا‘‘(انسان ہیں ہم،انسان ہیں ہم) نامی جو نظم لکھی وہ بھارت بھرکی دَلِت برادری کے ملی ترانہ کے طورپر مقبول ہوگئی۔

ان بچوں کاقصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے کولپ پاؔ ڈی نامی گاؤں کے ایک کنوئیں سے پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی تھی لیکن یہ پانی ان کی پیاس کی آگ تو کیا بجھاتا الٹاایک ایسی آگ جلا گیا جس میں جل بھن کر وہ بچے اپنی جان ہی گنوا بیٹھے تواس حوالہ سے انقلابؔ نے نظم کے ایک حصہ میں کہا کہ:

’’کولپ پاڈی ؔ کے کنوئیں کے پانی نے بچوں کو جلادیا
ہاں ،پانی
( جو آگ بجھاتاہے، وہ )آگ بن کر (ان بچوں کو)جلا گیا
کسی جاگیردارنے رائج الوقت قانون کی پرواتک نہ کی 

گوشت اور ہڈیاں تمہاری جلائی آگ میں جلتی بھنتی بھاپ بنتی رہیں

اور تمہاری حکومت اورعدالت اس جلتی پہ تیل ڈالنے میں مصروف رہیں‘‘۔

انقلابؔ نے اس نظم میں ایک ایسے ہی اور دردناک واقعہ کی طرف بھی اشارہ کیا جب تامل ناڈو میں ہی لگ بھگ چالیس دَلِت مزارعوں کو ان کے گھروں میں بندکرکے گھروں سمیت زندہ جلا دیاگیاتھا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دَلِت ہوکر اپنی محنت کاجائز معاوضہ مانگنے کاگناہ کر بیٹھے تھے۔
قارئین کرام مناسب ہوگا کہ انسان دوست دانشورشاعرانقلاب ؔ کامختصرتعارف بھی پیش کردیا جائے۔

آپ کی پیدائش سنہ 1944 اور وفات سنہ 2016 کی ہے۔آپ ایک مسلمان گھرانے میں شاہ الحمیدکے نام سے پیداہوئے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد سے گھر سے باہر اپنے کسی قول یا فعل سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ آپ کا کسی مذہب سے تعلق ہے۔کہا کرتے تھے کہ آپ کااصل مذہب انسانیت ہے۔

ذات پات اور طبقاتی تفریق کو مٹاکرانسانی مساوات کا انقلاب برپاکرنے کے خواہشمند ہونے کے ناطے آپ نے اپنا نام انقلابؔ رکھ لیا ۔آپ ساری عمر اسی نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔آپ لڑکپن سے ہی مظلوم ،پسے ہوئے،اور نظراندازکردہ افراداور طبقات کے لئے دل میں نرم جذبات رکھتے اور ان کے حقوق اور ان کی عزت نفس کی وکالت کیا کرتے تھے۔

بارہ برس کی عمر میں پہلی نظم آپ نے ایک ایسی ننھی منی بچی کے غم میں ڈوب کر لکھی جسے آپ نے اپنے اباکے ہمراہ ایک درگاہ شریف میں اکیلے بیٹھے ہوئے دیکھاتھا۔آپ کے ابا نے آپ کے پوچھنے پر بتایاکہ اس بچی کا دماغ پیدائشی طورپر کمزورہے اور اس کے غریب والدین اس کا خیال نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے وہ اسے اس درگاہ میں ہمیشہ کے لئے چھوڑکرچلے گئے ہیں۔

ہندوستانی(خاص کر ہندو) معاشرہ کوذات پات ،اچھوت اور غیراچھوت سسٹم سے نجات دلانے کے بارہ میں آپ نے بہت سوچااور بالآخراس نتیجہ پر پہنچے کہ اس کا واحدعلاج کارل مارکس کے فلسفہ کی بنیادپرقائم کردہ نظام حکومت ہی ہوسکتاہے،اس لئے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیارکرلی اورجلد ہی ایک گرم جوش اور مخلص کامریڈ کے طورپرشہرت عام پائی۔
آپ نیو کالج چنائی
(مدراس) میں تامل زبان کے پروفیسر تھے۔

آپ نے ہندوستان ،بالخصوص تامل ناڈو کے ذاتی مفادپرست سیاستدانوں کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک انتہائی پراثرنظم لکھی تھی جسے بعد میں آنے والی ایک صوبائی حکومت نے درسی کتب میں بھی شامل کرلیا۔آپ کو متعدد ایوراڈزبھی ملے جن میں سے بیشترکو آپ نے یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکارکردیاکہ ایہ ایوارڈ ان کے ہاتھ میں کانٹابن کر چبھ جائیں گے اور پھر وہ آزادی اور آرام سے لکھنے لکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔آپ نے یہ بھی کہا کہ ایوارڈ دینے کے بعد انہیں ایک زندہ لاش بننے پر بھی مجبورکیاجاسکتاہے۔

اس فلسفہ اور اصول پرستی کے باوجودآپ نے چند ایک ایوارڈ قبول کئے بھی ۔آپ نے ہربار عوام کو پریس کانفرنس کرکے بتایاکہ کن وجوہات کی بناپر وہ یہ ایوارڈقبول، یارَ د،یا واپس کر رہے ہیں۔
جیساکہ سنہ
2006 میں آپ نے حکومت کی طرف سے دیاجانے والا کالائم امانی ادبی ایوارڈ احتجاجاً واپس کردیاتھاکیونکہ آپ کوشکوہ تھا کہ ہندوستانی حکومت نے سری لنکا میں تامل افرادپر توڑے جانے والے مظالم کو روکنے کے لئے اپنا کوئی اثررسوخ استعمال نہیں کیا۔ 

انقلابؔ کو تامل ناڈو ہی نہیں ہندوستان بھر میں بے آوازوں کی آوازاورشاعرِ انقلاب،شاعرِ عوام(مکل پوالار) ،شاعرِ انسانیت کے نام سے جاناجاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپ کا قلم آپ نہیں بلکہ سچائی کی حدت سے انگارہ ہوتی آنکھیں، حقوق مانگتے پھڑپھڑاتے ہونٹ اور ظلم کے خلاف اٹھتے ہاتھ چلاتے تھے۔آپ بھی خود کو شاعر نہیں بلکہ بھاپ بن کرخشک ہوتے آنسوؤں،چتاؤں پہ جلتے انسانی گوشت کی بو اور کوئلہ بنتی چٹختی انسانی ہڈیوں سے اٹھتی آوازوں کا مترجم قراردیتے تھے۔

جب ہندوستان کے تاریخی تامل حکمران اَرُل موزھی المعروف راجہ راجہ چولا اول ( Rajaraja Cholan I)کے ایک ہزارسالہ جشن پیدائش اور اس کے تعمیرکردہ عظیم الشان محل اور مندرکی تقریبات سرکاری طورپرمنعقد کی گئیں تو آپ نے ان میں شمولیت کا سرکاری دعوت نامہ یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکارکردیاکہ اس شہنشاہ نے غریبوں کاحق مارکر اپنے یہ شاندارمحل اور مندروغیرہ تعمیرکئے تھے،میں غریبوں کااستحصال کرنے والے ایک آمر کو خراج تحسین پیش کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس پرحکومت نے ناراض ہوکر آپ کی نظم کو درسی کتب سے خارج کرنے کا اعلان کیا اور آپ کو ملنے والاایک ادبی ایوراڈ بھی منسوخ کردیا لیکن آپ نے اس کی کوئی پروانہیں کی۔اسے کہتے ہیں اصلی دانشور اور اصلی ترقی پسندانسان دوست رہنما جوصرف اپنے ضمیر کی آوازسنتا اوراس پہ کان دھرتاہے،حقیقی معنوں میں نہ ڈرنے والا،نہ جھکنے والا نہ بکنے والا۔

تحریرطول پکڑتی جارہی ہے لیکن یہ بتاتابھی ضروری ہے کہ جولوگ انقلابؔ کی موت کے صرف اس لئے منتظرتھے کہ دیکھیں جس شخص نے اپنے مذہب کوساری عمررازہی رکھااس کے مرنے پہ اس کی ذاتی یاخاندانی رسمی مذہبیت کاپردہ تو بہرحال ضرورچاک ہوجائے گاجب اس کی آخری رسومات تدفین وغیرہ اداکی جائیں گی۔لیکن ان کی ساری توقعات پہ اس وقت پانی پھرگیا جب ان کے بچوں نے اعلان کیا کہ ان کے والد انقلاب ؔ مرنے سے پہلے اپنے جسم کومیڈیکل کالج کے شعبہ اناٹومی کوعطیہ کردئیے جانے کی وصیت کرگئے تھے !۔

اس سال جنوری 2018 میں بھارتی حکومت کی طرف سے انقلاب ؔ کے لئے ان کی موت کے دوسال بعدملک کے ا علیٰ ترین ادبی انعام ’’ ساہتیا اکاڈمی ایوارڈ‘‘ کااعلان کیا گیا جسے ان کے اہل خانہ نے یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکارکردیا کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے والدانقلابؔ حیات ہوتے تو وہ کبھی بھی یہ ایوارڈوصول نہ کرتے۔اس اعلان کوخبربناکرہندوستان کے اخبارات وجرائد نے موٹی شہہ سرخیاں لگائیں کہ ’’انقلابؔ کا انقلاب ان کے مرنے کے بعد بھی جاری ہے‘‘۔

ستر برسوں میں پاکستان نے اس قسم کا کوئی ترقی پسند، انسان دوست ،غیر منافق سیکولر دانشورپیدا کیا؟۔اگر کیاہے تو نام بتائیں۔نام نہادانقلابی دانشور کہلانے والے پاکستانی بونے اور بوزنے انقلابؔ کے ٹخنوں تک بھی نہیں پہنچتے۔
بات کرو تو کہتے ہیں ابھی وقت نہیں آیا،ابھی لوہا گرم نہیں ہوا،ابھی عوام میں شعور پیدا نہیں ہوا وغیرہ۔خوداپنی حالت یہ کہ ذاتی اور سیاسی مفاد کی خاطر کبھی شدت پسند مذہبی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد ہی نہیں حکومت بھی بنالیتے ہیں،فوجی آمروں سے دانت نکال نکال کرایوارڈ لیتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ہیں اورحکومت وقت کے خلاف دن دہاڑے جلوس نکالنے کے بعدرات کی تاریکی میں حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں میں چلتے پھرتے بھی نظرآتے ہیں۔

پاکستانی نمرودیت بہرحال مکافات عمل کی زد میں توضرورآتی رہی ہے اور آتی رہے گی۔عاجزآئے ہوئے لکھاری کالم پہ کالم لکھ رہے ہیں کہ ہمارے موجودہ حالات عذاب نہیں تو کیا ہے۔
مولوی لوگ اکثربتاتے ہیں کہ جس نے جس آلہ سے خودکشی کی یا کسی انسان کوقتل کیا توآخرت میں اسے باربارزندہ کرکے اسی آلہ سے باربار خود کوہلاک کرنے پرمعمورکیا جائے گا۔

بحیثیت قوم ہم اپنی اِسی آخرت کو پاچکے ہیں۔
*

حوالہ جات:
https://www.thehindu.com/news/national/tamil-nadu/Poet-Inquilab-is-no-more/article16741502.ece
https://thewire.in/books/late-tamil-poet-inquilabs-family-rejects-sahitya-akademi-award

People’s Poet Inquilab


https://www.livemint.com/Politics/2yhsVuAopxBx3KxA4WVJ6N/Tamil-poet-Inquilab-dies-at-72.html

Comments are closed.